کراچی (یا شاید پورے پاکستان ہی کی) پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرنا بھی کمال ہے۔ بس میں ایسے کھڑے جیسے ٹرک میں بھیڑ بکریاں لدی ہوئی ہوں، دروازے پر لٹکی اور چھتوں پر سوار عوام۔۔۔ یہ سب کسی تماشے سے کم نہیں ہوتا۔ کسی کو ایک طرف سے دھکا پڑتا ہے اور وہ آگے ہوتا ہے تو بیٹھے ہوئے صاحب سے ٹکرا جاتا ہے جو اسے گھور کر دیکھتے ہیں۔۔۔ کبھی موصوف ڈرائیور گاڑی بھگاتے بھگاتے ایسا بریک لگاتے ہیں کہ سوتے ہوئے لوگ جاگ جاتے ہیں اور اچھے خاصے حضرات لڑھک جاتے ہیں۔ اورکبھی گاڑی کی سست رفتاری بندے کو یہ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ اگر وہ اس بس کے بجائے گدھا گاڑی پر سوار ہوتا تو شاید جلدی پہنچ جاتا۔۔۔ :)
بس کے سفر میں اکثر بدتمیزی اور بداخلاقی کے نمونے تو دیکھنے کو ملتے ہی ہیں، کبھی اعلیٰ اخلاق کی مثالیں بھی سامنے آتی ہیں جب کوئی نوجوان کسی بزرگ کو دیکھ کر اپنا آرام قربان کردیتا ہے اور بیٹھنے کی جگہ اُن کے حوالے کرکے خود کھڑا ہوجاتا ہے۔ لیکن کچھ افراد دو نمبری بھی کرجاتے ہیں۔ ندیم صاحب میرے ساتھ دفتر میں کام کرتے ہیں۔ کہنے لگے، مجھے ایسے لوگوں پر بڑا غصہ آتا ہے کہ جب تک خود بیٹھے تھے تو بیٹھے رہے اور جب خود کے اُترنے کا وقت آیا تو کسی بزرگ کو دور سے اشارہ کرکے اُن کو بلایا اور اپنی جگہ بٹھاکر اتر گئے۔ بھئی تمہیں اگر بزرگ کا اتنا ہی خیال تھا تو پہلے قربانی دینی تھی نا۔ اب تو سیٹ پر اس بندے کا حق تھا جو وہاں کھڑا ہوا تھا، تم نے کس اختیار سے اس کا حق چھین کر دوسرے پر احسان کرنے کی کوشش کی۔ :devil: بات ویسے ٹھیک ہے ندیم صاحب کی، مجھے بھی بہت غصہ آتا ہے :wink: حالانکہ بزرگوں کو دیکھ کر میں بھی کبھی اپنی جگہ خالی کردیتا ہوں۔
دوسری طرف، اگر بس ڈرائیور کا موڈ نہیں ہے تو آپ اس کو لاکھ کہتے رہیں، شور مچاتے رہیں، گاڑی پیٹتے رہیں، گالیاں دیتے رہیں، مجال ہے جو اس کے کان پر جوں رینگے۔ لیکن اگر پیچھے سے اس کے مقابلے پر کوئی گاڑی آگئی تو پھر اترنے والے مسافروں کی خیر نہیں۔ گاڑی وہ رفتار پکڑتی ہے کہ جن کی منزل آجاتی ہے، وہ شور مچاتے رہتے ہیں اور گاڑی پوری رفتار سے جھومتی جھامتی رواں دواں۔
اس سب کے باوجود ہمارے ہاں جب کوئی پوچھتا ہے کہ کیسے آئے ہو؟ بائیک پر یا کار میں؟ تو جواب ملتا ہے کہ نہیں بھئی، میں یہ چھوٹی چھوٹی غریبوں والی گاڑیاں استعمال نہیں کرتا، مہنگی والی گاڑی میں آیا ہوں :P
:grins:
ReplyDeleteاور جو مسافر دوسروں کے قدموں پر کھرا ہونا فرض عین سمجھتے ہیں انکا کوئی ذکر ہی نہیں؟
.-= ڈفر - DuFFeR کے بلاگ سے آخری تحریر۔۔۔ قصہ سکول ميں پڑھنے کا =-.
سفر ہے یا عذاب کا ٹکڑا
ReplyDeleteميں نے بہت سفر کيا ہے ان ويگنوں بسوں کا اور suffer بھی بہت کيا ہے
ReplyDelete.-= پھپھے کٹنی کے بلاگ سے آخری تحریر۔۔۔ انداز اپنا اپنا آخری حصہ =-.
بہت خوب منظر نگاری کی ہے ماشاء اللہ اور مہنگی گاڑی والی بات بھی سولہ آنے کہی۔ chxmx
ReplyDelete.-= خرم کے بلاگ سے آخری تحریر۔۔۔ سونا کر گئیو دیس =-.
بہت خوب عمار بھائی اچھی منظر نگاری ہے اور ڈفر بھائی کی بات پر بھی غور کریں اس کے علاوہ بھی بہت سے واقعات ہوتے ہیں بس اور ویگنوں میں
ReplyDeleteآپ تو مہنگی گاڑی میں سفر کرتے ہیں لیکن میں اکثر 11 نمبر گاڑی میں سفر کرتا تھا جو ہر روٹ پر چلتی ہے :D 11 نمبر سے مراد آپ سمجھ ہی گے ہونگے اگر نہیں سمجھے تو بتا دوں گا ایک پوسٹ لکھ کر :P :D
واقعی۔ یہ گاڑی مہنگی تو پڑتی ہے۔ :D
ReplyDelete.-= محمد سعد کے بلاگ سے آخری تحریر۔۔۔ حکومت “کمپیوٹر شیڈنگ” کی تیاری میں =-.
ہمارے زمانے ميں بھی بسوں کا سفر ہوتا تھا اور حال اس سے تھوڑا بہتر ہوتا تھا جيسا آجکل ہے ۔ البتہ کراچی کا حال ايسا ہی تھا جيسا آپ نے بيان کيا ۔ يہ شايد کراچی کی آب و ہوا کا اثر ہے ۔ مجھے ياد ہے 1965ء ميں ميں ناظم آباد سے صدر جانے والی بس پر سوار ہوا مگر راستہ ميں کسی جگہ اُترنا تھا ۔ سخت گرمی تھی ۔ سوارياں چيخ چيخ کر بس تيز چلانے کا کہہ رہی تھيں مگر مجال ہے کچھ اثر ہوا ہو ۔ پھر اچانک دو تين بسوں کی دوڑ لگ گئی ۔ جس سٹاپ پر ميں نے اُترنا تھا ۔ سٹاپ آنے سے پہلے ہی ميرے پيچھے کھڑے ايک آدمی نے شور مچايا "روکو ۔ روکو" ميں نے بھی شور مچايا مگر بس نہ رُکی اور ہميں جا ايمپريس مارکيٹ اُتارا جہاں سے ميں دو کلو ميٹر پيدل چل کر منزلِ مقصود پر پہنچا
ReplyDeleteڈفر! کافی ساری باتوں کا ذکر رہتا ہے۔ لگتا ہے کہ مزید اقساط لکھنی پڑیں گی۔۔۔ :)
ReplyDeleteآپ نے سفر زیادہ کیا یا suffer؟ :grins:
ReplyDeleteآپ کو تو خود بھی خاصا تجربہ رہا ہوگا فرحان :)
ReplyDeleteنہیں میرے بھائی! تم 11 نمبر والی پوسٹ لکھ ہی دو :wink:
ReplyDeleteآپ ذرا پرائے دیس کی مہنگی گاڑیوں کا ذکر کردیں :)
ReplyDeleteہاہاہا۔۔۔۔ بے شک :)
ReplyDeleteاجمل چچا! ویسے اس واقعے پر افسوس تو ہوا لیکن ہنسی بھی بہت آئی۔۔۔ :haha: (معذرت)
ReplyDeleteایسے بہت واقعات ہوتے ہیں یہاں۔۔۔ میرا کافی کچھ لکھنے کا ارادہ ہے۔
کبھی بس کی چھت پر بیٹھے ہو؟ قسمے بڑا مزہ آتا ہے۔۔
ReplyDelete.-= قدیر احمد کے بلاگ سے آخری تحریر۔۔۔ She is Also Awake Alone =-.
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
ReplyDeleteبھائی دراصل بات یہ ہے کہ یہ منی ٹرانسپورٹ یابسوں والےپولیس کوباقاعدہ بھتہ دیتےہیں نہیں تویہ اسطرح سواریوں کی لوڈنگ نہ کریں جسطرح کی ہوتی ہے۔ دراصل ہرآدمی کولالچ ہوتاہے۔ اوران کوبھی ہے۔ اللہ تعالی ہم پررحم کرےاورصحیح طورپرسچا مسلمان بنائے۔ آمین ثم آمین
والسلام
جاویداقبال
.-= جاویداقبال کے بلاگ سے آخری تحریر۔۔۔ 23 مارچ 2010 ء سب پاکستانیوں کومبارک ہو۔ =-.
اچھی تحریر ہے! کراچی کی بسوں کی مشہوری تو بہت دور دور تک پائی جاتی ہے۔ لگتا ہے اور شہروں کے بس ڈرائیورز نے بھی کراچی والوں کی مشہوری سے جیلس ہوکر ان کا ہی فارمولا اپنے شہروں میں استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ :D
ReplyDeleteبہت سی وجوہات میں سے ایک یہ بھی ہے۔ لیکن میرے خیال میں اصل مسئلہ تعداد کا ہے۔ جب کبھی بسوں کی تعداد بڑھانے کی بات ہوئی، پڑھے لکھے مافیہ نے آلودگی اور سڑکوں کی حالات زار کا رونا رویا۔ :|
ReplyDeleteالسّلام و علیکم!
ReplyDeleteگرمی اور رش میں سگریٹ بھی تو پی جاتی ہے. کچھ کہو تو جواب ملتا ہے "ایک گھنٹہ بعد تو بس آئی ہے، اب آرام سے بیٹھا ہوں تو پینے دو". نامعقول کہیں کا.
@ قدیر بھائی! یہ اتفاق بھی ایک بار ہو چکا ہے، ویسے گرمیوں میں من چلوں کا پسندیدہ شوق ہے. :)
والسلام
وہ ایک نظم بھی تو تھی: "کراچی کی بس میں سفر ہو رہا ہے"۔ hmmm
ReplyDelete.-= محمد سعد کے بلاگ سے آخری تحریر۔۔۔ حکومت “کمپیوٹر شیڈنگ” کی تیاری میں =-.
مگر دوستوں یہاں کوریا میں تو اِیسا نھیں ھوتاھے .،،
ReplyDelete