نالائق (ہفتۂ بلاگستان)

یار دوست سوچیں گے، بڑا فارغ بندہ بنا ہے آج۔ تحریر پر تحریر آرہی ہے۔ سچ کہوں تو ارادہ نہیں تھا۔ اردو کا اسائنمنٹ بنانے بیٹھا تھا، ڈفر نے بیچ میں ٹانگ اڑا دی تو یہاں آکر گرا۔ :P

میں نے کالج میں انجینئرنگ ہی لی تھی لیکن جب فکرِ معاش ہوئی تو کالج چھوڑنا پڑا۔ تعلیمی سلسلے میں دو سال کا وقفہ آیا (یقین جانیں، اس میں سبز ستارہ والی گولی کا کام نہیں تھا :wink: )۔ بعد میں جب پڑھائی شروع کی تو عقل آگئی تھی، آرٹس کے مضامین منتخب کیے۔ مجھے جتنی باتیں سننی پڑسکتی تھیں، میں ان کے لیے تیار تھا۔ خاندان میں، دوست احباب میں، ملنے جلنے والوں میں۔ جن سے واسطہ نہ تھا، وہ بھی ناک بھوں چڑھانا اپنا فرضِ عین سمجھتے۔ اکثر مکالمے اس طرح پیش آتے:

٭ انجینئرنگ کیوں نہیں لی؟
میرا انجینئرنگ کی طرف رجحان نہیں تھا۔

٭ یار تو کامرس پڑھ لیا ہوتا۔
کس خوشی میں؟ میں نے کوئی بینکنگ کی نوکری کرنی ہے؟

٭ ارے آرٹس کا کیا مستقبل ہے؟
سنو بھئی! میں نے مضامین وہ لینے تھے جن میں آگے چل کر میں نے اپنا مستقبل بنانا ہے اور جن میں مجھے دلچسپی ہے۔ جن سے ککھ تعلق نہیں، ان کو پڑھ کر کیا لینا۔ او بھائی! میری ملازمت کا ہی خیال کرلو۔ صبح سے شام تک دفتر میں مصروف ہوتا ہوں۔ سائنس یا کامرس کیا کوئی مجھے پانی میں گھول کر پلائے گا۔

آگے سے منہ میں کچھ بڑبڑ اور بات ختم۔ اپنے ددھیال اور ننھیال میں، میں پہلا فرد تھا جس نے روایت شکنی کرتے ہوئے آرٹس کا شعبہ منتخب کیا اور بعد میں اپنی ایک بہن کو بھی بہت سمجھا کر اسی راہ پر ڈالا۔ اور اُس کے ساتھ پچھلے دنوں ہوا یہ کہ ایک اسکول میں پڑھانے کے لیے انٹرویو دینے گئی تو جب وہاں کی منتظمہ کو یہ پتا چلا کہ آرٹس پڑھی ہے، ناک چڑھاکر بولیں: ارے آرٹس کیوں لی آپ نے؟ اس کا تو کوئی مستقبل نہیں ہے۔ یہ سوچ ہے ہماری درسگاہوں کے منتظمین اور معلمین کی۔

مضامین منتخب کرنے میں رہ نمائی اور مشاورت کسے کہتے ہیں، یہ تو کالج سطح کے طلبا شاید جانتے بھی نہیں۔ خود ہم نے پہلی بار یہ نام یونیورسٹی میں آکر سنا۔ ہمارے ہاں تو بس خاندان میں یا دوستوں میں جس نے جو پٹی پڑھادی، سارا خاندان وہی مضمون پڑھنے بیٹھ گیا۔

اور ہمارا تعلیمی نظام ہمیں کیسے طلبا دے رہا ہے، اس کے لیے میری پچھلی تحریر ’’کتابوں کی حالتِ زار‘‘ ہی کافی ہے۔

Comments

  1. عمار صاحب ہمارے یہاں تعلیم کے معاملے میں بھیڑ چال عام ہے۔۔ نا معلوم آپ کی نظر سے آپریشن بدر جیسی تحریکوں کے اشتہارات گزرے ہیں یا نہیں لیکن ایسا وقت بھی تھا کہ ڈاکٹر صاحب کلینک میں بیٹھے جاوا پراگرامنگ لینگویج کی کتابیں‌ پڑھ رہے تھے کہ شاید پیسے اچھے ملتے ہیں۔ اس صورت حال میں آرٹس کے مضامین پر لوگوں کی تشویش بجا ہے۔

    ReplyDelete
  2. ہمارے ساتھ یونیورسٹی میں ایک میڈیکل کا لڑکا پڑھتا تھا
    جب ہم نے ماسٹرز کر لیا تو اس سے ایک دن پوچھا کہ کیاکر رہا ہے؟
    جواب ملا یار بس ۴ کورس رہ گئے ہیں
    بندہ ٹھیک ٹھاک تھا لیکن
    عطاءالرحمان کے آئی ٹی ، آئی ٹی کے نعروں میں چنگا بھلا مستقبل برباد کر بیٹھا
    .-= DuFFeR - ڈفر´s last blog ..اک دونی دونی ، ٹو ٹو زا فور (ہفتہ بلاگستان - ۲) =-.

    ReplyDelete
  3. میں نے بھی گیارہوں میں سائنس رکھی تھی ٹھیک ٹھاک حجامت بنی ۔ کالج میں لیبارٹری کا سامان بھی نہیں ہوتا تھا ۔ ہمیں ایسڈ اور بیس میں فرق کرنا بھی نہ آیا اور فزکس کی ٹیچر دماغی طور پر فارغ تھیں ۔ بلیک بورڈ سے ہی باتیں کرتی رہتی تھیں۔ حرف بہ حرف کتاب کا لکھا ہی بلیک بورڈ پر نقل کر دیا کرتیں۔ کئی بار ان کو تبدیل کرنے کی گزارش کی لیکن ان کی سفارش ہی بڑی تگڑی تھی وہ تبدیل ناں ہوئیں۔ ہم نے ہی سائنس چھوڑ کر آرٹس رکھ لی۔
    .-= فائزہ´s last blog ..میرے بچپن کے دن =-.

    ReplyDelete
  4. سائنس کے کرشمے سن کر میں بھی سائنس رکھ لی تھی لیکن اردو سے ایک دم انگریزی سے جانے پر کچھ سمجھ نہ آیا اور تھے بھی ہم آرٹس کے بندے ۔ وہی بات کہ بتانے والا کوئی نہ تھا کہ کون سے مضامین رکھو، کالج ہم سے بھی نرالا تھا ۔ کیمسٹری کی لیبارٹری میں سامان نہ تھا ۔ ہمیں ایسڈ اور بیس میں بھی فرق کرنا نہ آیا۔ فزکس کا بھی یہی حال تھا ۔اوپر سے ٹیچر مخبوط الحواس ۔ سارا پیریڈ بلیک بورڈ سے ہی باتیں کرتی رہتی تھیں۔ ان کو تبدیل کروانے کی بھی ہم نے گزارش کی لیکن ان کی سفارش ہی کافی تگڑی تھی۔ ناکام ہو کر آرٹس ہی رکھی اور لائق کہلوانے لگے۔

    ReplyDelete
  5. پہلا تبصرہ فائر فاکس میں لکھا ہے اور دوسرا اوپرا میں۔ پتہ نہ تھا پہلا ہی چلا گیا ہے۔ ب :cry:

    ReplyDelete
  6. آپ نے بالکل درست لکھا ہے واقعی آرٹس مضامین کے بارے میں ہمارے یہاں یہی رویہ ہے مگر بندہ پوچھے جس قسم کی ساءنس ہمارے یہاں پڑھاءی جارہی ہے اس کا کیا مستقبل ہے ؟سواءے نمبروں کی دوڑ کے ۔۔۔
    مستقبل تو صرف محنت لگن اور ٹیلنٹ کا ہوتا ہے اور اس کے لءے ہر ممکن طور پر دروازے بند کءے جارہے ہیں ۔۔۔۔مگر پھر بھی اب دنیا اتنی بدل رہی ہے کہ بہت کچھ ہے کرنے کے اور اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے ،لءے ساءنس میں اعلی نمبر لینے کے علاوہ بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    .-= سارہ پاکستان´s last blog ..۔۔۔۔۔۔۔سب دوست ہوتے ہیں‌ =-.

    ReplyDelete
  7. سوال تو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اگر آرٹس کے مضامین ایسے ہی راندہء درگاہ ہیں اور ان کے پڑھنے سے بندے کا مستقبل برباد ہوجاتا ہے تو پڑھائے ہی کیوں‌جاتے ہیں؟
    اتنا پیسہ اور توانائی مستقبل برباد کرنے پر کیوں لگائی جاتی ہے؟
    .-= جعفر´s last blog ..نظام تعلیم – دے دھنا دھن (ہفتہء بلاگستان -2) =-.

    ReplyDelete
  8. عمار آپ کی "تعلیم کہانی" ہوبہو میری "تعلیم کہانی" بھی ہے۔میں نے بھی انٹر میں پری انجینئرنگ ہی لی تھی۔ مگر اس کے بعد چند وجوہات کی وجہ سے پڑھائی چھوڑنی پڑی اور پھر دو سال بعد چاروناچار آرٹس میں ہی داخلہ لینا پڑا۔ شروع میں اگرچہ بہت طعنے سننے پڑے۔ مثلاَ "آرٹس تو لڑکیاں پڑھتی ہیں"، "آرٹس پڑھ کر کیا شاعر بنو گے؟" وغیرہ وغیرہ۔۔۔ شروع میں برا لگتا تھا مگر جب میرے دوست یار بھی سائنس پڑھ کر کوئی"تیر" نہ مار سکے اور لوٹ کے بدھو گھر کو آئے کے مصداق بی کام یا بی اے کرنے پر مجبور ہوگئے تو پھر اپنے فیصلے پر ندامت جاتی رہی۔ جن دوستوں نے بی کام میں داخلہ لیا ان کا چونکہ کامرس کی بیس نہیں تھی اس لئے ان کے لئے بی کام پاس کرنا عذاب ہو گیا!۔۔۔۔ ایسا بی کام بھی کس کام کا جو تین تین چار چار "اٹیمپس" میں کلیئر ہو؟ :D

    تو عمار بھائی۔ فکر ناٹ! :no:
    کسی بھی شعبے میں اگر لگن، محنت اور جنون سے کام کیا جائے تو "اسکوپ" ازخود نکل آتا ہے!
    .-= شعیب سعید شوبی´s last blog ..اے پاکستانی! سوچ ذرا =-.

    ReplyDelete
  9. بنیادی طور پر آج کل ہمارا نصب العین علم حاصل کرکے معاشرے میں تبدیلی لانا مقصود نہیں بلکہ اپنی مالی حالت کو بہتر بنانا ہے ۔ اور آج کل جن علوم کے حصول میں مالی فوائد کے مواقع موجود ہیں وہاں عام طور پر لوگ راغب ہوتے ہیں ۔ یعنی علم کاروباری رحجان بن گیا ہے ۔ اور پیسہ ، پیسہ کو کھینچتا ہے ۔ لہذا اس طرح کے علوم میں جہاں مستقبل میں زیادہ آمدنی کی توقع ہو ۔ وہاں ایسے علوم کی حصول کی قیمت بھی بہت زیادہ ہوگی ۔

    ہم سے غلطی یہ ہو رہی ہے کہ ہم بھول گئے ہیں کہ معاشرے کو صرف انجنئیر اور ڈاکٹر ہی درکار نہیں ہیں ۔ بلکہ معاشرے میں بہت سےاور بھی ایسے شعبے ہیں ۔ جو ہماری توجہ اور توانائی کے منتظر ہیں ۔ چونکہ ہم معاشرے کی قدرو قیمت کھو چکے ہیں ۔ اس لیئے ہم انفردای طور پر اپنی زندگی کو اپنی صلاحیتوں کے برعکس کسی اور خطوط پر سنوارنا چاہتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ٪50 لوگ راستے میں ہی اپنی منزل کھو بیٹھتے ہیں ۔

    وہ ادارہ جو معاشرے کو ڈاکٹر اور انجئینر مہیا کرتا ہے ۔ وہ اب ناپید ہوتا جا رہا ہے ۔ یعنی آپ کو اب اچھے استاتذہ ہی میسر نہیں ہیں ۔ جوکہ کسی بھی قوم اور معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کے مترادف ہوتے ہیں ۔ اسی طرح آپ کو بہت سے ایسے اور شعبہ جات مل جائیں گے جو باہم مل کر کسی قوم کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں ۔ لہذا آرٹس یا کوئی ایسا سیبجیکٹ منتخب کرنا ۔ جسکے بارے میں یہ تاثر ہو کہ وہ آپ کو معقول مستقبل مہیا نہیں کرسکتا تو منفی رویہ ہے ۔اگر آج ہم اپنی ذاتی ترجیحات اور مفادات ترک کریں گے تو آنے والی نسلوں کے لیئے آسانیاں پیدا ہونگیں ۔ ورنہ ہماری پچھلی نسل نے معاشرے سے خود کو الگ کرکے جو جدوجہد کی اس کا نتیجہ ہماری شکل میں موجود ہے ۔ اور اگر ہم نے یہی روش جاری رکھی تو اپنی اولادوں کو اپنے مقام سے بھی گرا ہوا پائیں گے ۔ :roll:

    ReplyDelete
  10. تصحیح : 50 فیصد لوگ

    ReplyDelete
  11. راشد کامران!
    آپریشن بدر جیسی تحریکوں کے اشتہارات میں نے تو نہیں دیکھے :sad:

    ڈفر!
    آئی ٹی اور کامرس کے شعبے ایسے ہیں کہ ان کا شوق اچانک ہی ہماری عوام کو اُٹھا اور بس ہر ایک اسی کی طرف بھاگا.

    فائزہ!
    بلاگ پر خوش آمدید. جیسی ٹیچر آپ کو فزکس میں ملی تھیں، ویسی مجھے ریاضی کے استاد ملے تھے. کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا فرمارہے ہیں. بس ایسے ہی اساتذہ ملتے ہیں کالجز میں. اور آپ ان ہی اساتذہ کو کوچنگ سینٹرز میں پڑھاتا ہوا دیکھ لیں، یقین نہیں آئے گا کہ کالج میں اتنا بے کار پڑھانے والے یہ صاحبان کوچنگ سینٹرز میں اتنا اچھا پڑھاسکتے ہیں.

    سارہ پاکستان!
    آپ کو آرٹس کے مضامین منتخب کرنے پر باتیں تو سننی نہیں پڑی تھیں؟ :P

    جعفر!
    لاکھ روپے کا سوال ہے بھئی. :wel:

    شعیب سعید شوبی!
    آپ کی کہانی تو حیرت انگیز طور پر میری کہانی سے بہت مشابہت رکھتی ہے. کیا بات ہے جی.... :)

    ظفری!
    بھائی جان! یہ ہماری قوم کی سوچ کا انداز کبھی بدلے گا بھی یا ایسا ہی چلتا رہے گا سب کچھ؟

    ReplyDelete
  12. عمار ! میں نے اس مشکل کا ایک حل اپنے بلاگ پر بہت عرصے قبل لکھ رکھا ہے ۔جب ہم کوئی ایسا حل پڑھیں گے نہیں تو سوچیں گے کیسے ۔۔۔۔ ؟ جب سوچیں گے نہیں تو اس پر عمل کی راہیں کیسے سوجھیں گی اور اگر یہ عمل رونما نہ ہوا تو بھائی ۔۔۔ پھر سب کھچ ایسا ہی چلتا رہے گا جیسا کہ چل رہا ہے ۔

    ReplyDelete
  13. میں ڈفر پائی سے اتفاق کرتا ہوں

    ReplyDelete
  14. aur yar manzarnama pay urdubloggers ki list main mera naam tum nay abi tak nahi dala kia chakar hay main Chumoloko langauage to nahie bolta :-?

    ReplyDelete
  15. بہت اچھے یار ،،، میں نے بھی اپنے ابو کی امیدوں پر پانی پھر کر ایر کرافت ٹیکنیشن کورس میں داخلہ لے لیا ،، اور اپنے بھای کو بھی ساتھ لگا لیا ہے ،،،، ورنہ وہ مجھے ڈاکٹر بنانے پر تلے ہوے تھے ،،، اور مجھے تو شرم ہی اتنی آتی ہے سوچتا تھا کہ ٹیچر کو کیوں نہیں آتی :haha:

    ReplyDelete
  16. انکل ٹام!
    ہاہاہا۔۔۔ یار ایسے کاموں میں شرم کیسی۔۔۔۔ :)

    ReplyDelete
  17. بھای جان بیالوجی کی کتاب کھول کر دیکھیں ،،، :0

    ReplyDelete
  18. آپ نے یہ بات کی اور کل ہی کزن آگیا. انٹر کیا ہے اس نے بیالوجی... تو کل وہ کچھ اسی طرح کے قصے سنا رہا تھا کہ کیا ہوتا ہے. :P

    ReplyDelete

Post a Comment