Pakistani Dramas VS English TV Series


میرا خیال ہے کہ ایسے گھر شاذ و نادر ہی ملیں گے جہاں ڈرامے نہ دیکھے جاتے ہوں (وہ ڈرامے جو ٹیلی ویژن چینلوں سے نشر ہوتے ہیں، وہ نہیں جو گھروں میں ہوتے ہیں)۔ کچھ عرصہ قبل تک ٹی وی ڈرامے دیکھنے کے لیے ٹی وی کا ہونا لازمی شرط تھا، لیکن سوشل میڈیا کے انقلاب اور مقبولیت نے اب یہ شرط بے معنی کردی ہے۔ یوٹیوب اور ایسی دیگر ویڈیو اسٹریمنگ ویب سائٹوں پر غالباً دنیا کے ہر چینل اور ہر زبان کا ڈراما دستیاب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں جب بھارتی ٹی وی چینلوں پر پابندی عائد کی گئی تو بھارتی ڈراموں کے رسیا خواتین و حضرات کے ایک بڑے طبقے کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔
ایک کرم فرما نے فیس بک پر ’’مووی پلانٹ‘‘ نامی ایک گروپ میں شامل کیا ہوا ہے۔ وہاں مختلف اراکین اپنی پسندیدہ (یا ناپسندیدہ) فلموں پر مختصر ریویو پیش کرتے ہیں اور پھر باقی احباب تبصرے کرکے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک دوست نے اسی گروپ میں احباب سے رائے طلب کی کہ وہ ہالی ووڈ فلموں، بھارتی فلموں، ٹی وی ڈراموں وغیرہ میں سے کیا چیز شوق سے دیکھتے ہیں۔ جواب میں جہاں بیشتر رائے دہندگان نے ہالی ووڈ فلموں کے حق میں ووٹ دیا، وہیں مجھ جیسے گنتی کے چند صارفین نے ’ٹی وی سیریز‘ کو منتخب کیا۔ میرا اپنا حال یہ ہے کہ جب سے امریکی ٹی وی سیریز یا ڈرامے دیکھنا شروع کیے ہیں، فلمیں چھوٹ گئی ہیں۔ ویسے تو اگر میں یہ کہوں کہ مجھے یہ بھی یاد نہیں کہ میں نے آخری فلم کب اور کون سی دیکھی تھی تو اس میں زیادہ قصور میری یادداشت ہی کا ہوگا، لیکن سچ یہ ہے کہ اب فلم دیکھے کئی مہینے گزر جاتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ ہمیشہ ہی سے مجھے ٹی وی ڈراموں کا شوق رہا ہو۔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب گھر میں پاکستانی ٹی وی ڈرامے چلا کرتے تھے اور میں ہر ممکن کوشش کیا کرتا تھا کہ اس کمرے میں موجود نہ ہوں جہاں ٹی وی چل رہا ہو۔ وجہ یہ تھی کہ ہمارے اور پڑوسی ملک کے ڈرامے دیکھے جائیں تو لگتا ہے کہ ہمارے ہاں خاندانی جھگڑوں، سازشوں، حسد، اور پیار محبت کے علاوہ کچھ ہوتا ہی نہیں۔ ہر ڈراما محبت کی کہانی یا خاندانی مسائل کے بھنور میں پھنس گیا ہے۔ ایسے میں، نہ صرف یہ کہ کوفت بہت زیادہ ہوتی ہے، بلکہ حساس طبیعت رکھنے والوں کے لیے بعض جذباتی مناظر پر اپنے جذبات قابو میں رکھنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ یہی سبب تھا کہ میں نے ایک عرصے تک ڈراموں پر فلموں کو ترجیح دی، جنھیں آپ ایک سے دو گھنٹے میں نمٹا سکتے ہیں۔اور اگر کوئی جذباتی وابستگی ہو بھی تو جلد ہی ختم ہوجاتی ہے۔ لیکن پھر میرا تعارف انگریزی ٹی وی سلسلوں سے ہوا۔
کیفر سدھرلینڈ المعروف جیک باور کی ٹی وی سیریز ’24‘ نے مجھے ایک نئی دنیا سے روشناس کروایا۔ یہ میری پہلی انگریزی ٹی وی سیریز تھی۔ مزے کی بات یہ کہ میں نے اس کا آخری سیزن پہلے دیکھا کیونکہ وہ ٹی وی پر نشر ہوتا ہوا نظر آگیا تھا۔ پھر میں نے پہلے سیزن سے دیکھنا شروع کی۔ اس منفرد ٹی وی سیریز کا نشہ ایسا تھا کہ میں ایک کے بعد ایک قسط دیکھے چلا جاتا تھا اور اسکرین سے نظریں ہٹانے کا دل نہ کرتا تھا۔ جب اس سیریز کی تمام 204 اقساط دیکھ چکا تو یہ امتحان سامنے تھا کہ اب کون سی سیریز دیکھی جائے جو اسی طرح تجسس اور ہیجان خیزی سے بھرپور ہو۔ یوں مزید سلسلوں سے آگاہی ہوئی جنھوں نے ایک نیا ’چسکا‘ لگا دیا۔
ہمارے ہاں کے ٹی وی ڈراموں اور انگریزی ٹی وی سلسلوں کا موازنہ کیا جائے تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ اس فرق کا سبب چند عوامل ہیں۔
1۔ موضوعات
ہمارے اور انگریزی ڈراموں میں سب سے بڑا فرق موضوعات کا ہے۔ جہاں ہمارے لوگ گنتی کے دو موضوعات کو پکڑ کر بیٹھ گئے ہیں، وہیں ان کے پاس موضوعات کا انبار لگا ہے۔ سیاست، معیشت، شخصیات، طب، سائنس فکشن، مافوق الفطرت، خوفناک، مزاحیہ، جاسوسی، ہیجان خیزی، کلاسیک، غرض کون سی صنف ہے جس میں وہاں ڈرامے نہیں بن رہے۔ وہ موضوعات جنھیں ہمارے ہاں فلموں کے لیے بھی تصور میں نہیں لایا جاسکتا، وہاں ان پر کئی کئی سالوں سے ڈرامے نشر ہو رہے ہیں۔
2۔ بجٹ
اگر کوئی پروڈیوسر یا پروڈکشن ہاؤس کسی منفرد اور اچھوتے خیال پر ڈراما بنانے کا تہیہ کر بھی لے، تو بجٹ کا سوال آ کھڑا ہوتا ہے۔ منفرد تصورات کی عکس بندی اور کمپیوٹر گرافکس استعمال کرنے کی ضرورت ڈرامے کے بجٹ کو کہیں سے کہیں پہنچا دیتی ہے۔ امریکی ڈراما نگاروں اور پروڈیوسروں کو یہاں یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ وہ مارکیٹ وسیع ہونے کے باعث یہ اخراجات وصول کرسکتے ہیں۔ چنانچہ ان کے ہاں ہمیں انتہائی مہنگے ڈرامے بھی نظر آتے ہیں۔ بعض ڈراموں کی تو ایک ایک اقساط اتنی مہنگی ہوتی ہیں کہ ہمارے ہاں اس بجٹ میں کئی کئی ڈرامے مکمل تیار کرلیے جائیں۔ مثلاً ’لوسٹ‘ (Lost) نامی ٹی وی سیریز کی ایک قسط کا بجٹ 4 ملین ڈالر تھا۔ یہی نہیں، مشہور ٹی وی سیریز، ’گیم آف تھرونز‘ (Game of Thrones) کی ایک ایک قسط کا بجٹ 6 ملین ڈالر تک ہوتا ہے۔ گزشتہ دو دہائی میں بے حد مقبول رہنے والی ٹی وی سیریز ’فرینڈز‘ (Friends) کی ایک قسط کا بجٹ 10 ملین ڈالر تک جا پہنچتا تھا کیونکہ اس کے ہر مرکزی کردار کو ایک قسط کا معاوضہ 1 ملین ڈالر دیا جاتا ہے۔ جی ہاں، ایک ملین ڈالر فی قسط۔ یہی نہیں، ’گیم آف تھرونز‘ کے مرکزی اداکاروں کو فی قسط ڈھائی ملین ڈالر سے زیادہ معاوضہ دیا جارہا ہے۔ ہماری مارکیٹ میں اتنے زیادہ اخراجات کو پورا کرنے کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
3۔ اندازِ فکر
موضوعات اور بجٹ کی اہمیت اپنی جگہ، ہمارا اندازِ فکر بھی ایسا ہے کہ گھسے پٹے موضوعات ہی کو مسلسل گھسیٹا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ اگر کسی ڈرامے کا بجٹ زیادہ بھی ہو تو وہ بجٹ منفرد تصورات پیش کرنے کی بجائے پُر تعیش طرزِ زندگی، مہنگے ملبوسات، اور انتہائی قیمتی زیورات کے استعمال پر خرچ کردیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال پاکستانی ٹی وی ڈراما، ’بشر مومن‘ ہے جسے پاکستان کی تاریخ کا سب سے مہنگا ٹی وی ڈراما قرار دیا جاتا ہے، لیکن اس کی کہانی میں بھی کوئی انفرادیت نہیں تھی۔
4۔ ناظرین
ٹھیک ہے کہ ہمارے ہاں ناظرین کی اچھی خاصی تعداد اب موضوعات میں تنوع دیکھنا چاہتی ہے اور اس کے لیے وہ انگریزی مواد کی طرف رجوع کر رہی ہے، لیکن ہمارے ملک کا ایک بڑا طبقہ ابھی بھی روایتی موضوعات پر مبنی کہانیاں دیکھنا پسند کرتا ہے۔ ہمارے ہاں گھروں میں اب بھی روایتی ساس بہو اور خاندانی جھگڑوں اور سازشوں کی کہانیوں کے ڈرامے یا پڑوسی ملک کے ’’طارق مہتا کا الٹا چشمہ‘‘جیسے کارٹون ڈرامے شوق سے دیکھے جاتے ہیں۔ گھریلو خواتین کی بڑی تعداد ایسے ہی ڈراموں کو ترجیح دیتی ہے۔ جب ڈراما سازوں کو یہ علم ہو کہ منفرد موضوع پر بننے والے ڈرامے ناظرین کی بڑی تعداد کو متوجہ نہیں کرسکتے تو وہ اس سے احتراز ہی برتتے ہیں۔ تاہم وہ اتنا ضرور کرسکتے ہیں کہ آہستہ آہستہ اپنے موضوعات میں تبدیلی لانا شروع کریں اور ڈرامے میں خواہ گھریلو ماحول کا عنصر ضرور شامل رکھیں لیکن اس کا کینوس بڑھائیں اور دیگر موضوعات کا احاطہ بھی کریں۔ ابتدا میں چند مقبول انگریزی ٹی وی سلسلوں کو اردو میں ڈب کرکے بھی پیش کیا جاسکتا ہے۔ جب ترکی ڈرامے چل سکتے ہیں تو انگریزی کیوں نہیں۔
یہ تو بات ہوئی اردو ٹی وی ڈراموں اور انگریزی ٹی وی سلسلوں کے مابین فرق کی۔ اگر اس چھوٹی سی تحریر نے آپ کو بھی اکسایا ہو کہ کیوں نہ آپ بھی کوئی انگریزی ٹی وی سیریز دیکھیں، لیکن آپ سوچ رہے ہوں کہ دیکھیں تو کون سا؟ تو ذرا انتظار کیجیے۔ میں آنے والے دنوں میں چند اچھی کہانیوں اور متنوع موضوعات پر مشتمل انگریزی ٹیلی ویژن ڈراموں کا تعارف پیش کرنے کی کوشش کروں گا جن سے آپ آغاز کر سکتے ہیں۔

نوٹ: میرا یہ بلاگ 11 مئی 2017ء کو ایکسپریس نیوز کی ویب سائٹ پر شائع ہوا۔

Comments

  1. میں بھی امریکی ڈراموں کا رسیا ہوچلا ہوں۔۔۔ بگ بینگ تھیوری،گیم آف تھرونز، سیلیکان ویلی،مسٹر روپوٹ کے تمام سیزن دیکھ چکا ہوں۔

    ReplyDelete

Post a Comment