Men's Role in Housekeeping

اکثر مشرقی ثقافتوں میں کچھ کام عورتوں کے ساتھ ایسے مخصوص ہیں کہ مردوں کا وہ کام کرنا معیوب تصور کیا جاتا ہے۔ ان کاموں میں گھریلو نوعیت کے کام قابلِ ذکر ہیں، مثلاً: باورچی خانے کے کام، گھر کی صفائی، کپڑوں کی دُھلائی، وغیرہ۔ ان کاموں کے معیوب ہونے کا تصور، ہوسکتا ہے کہ کسی زمانے میں مردوں کا تخلیق کردہ ہو لیکن موجودہ دور میں ان تصورات کی پاس دار خواتین ہیں۔ سلیقہ شعاری اور سگھڑاپے کے نام پر لڑکیوں کے ذہنوں میں شروع سے یہ راسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ گھریلو نوعیت کے کام اُن کی ذمہ داری اور فریضہ ہیں، چناں چہ اُنھیں گھر کے مردوں (باپ اور بھائیوں) کی خدمت کرنی چاہیے اور اُنھیں گھر کے ایسے کام کرنے نہیں دینے چاہئیں۔ یہ تصورات گھر میں بہو آنے کے بعد زیادہ زور پکڑ جاتے ہیں اور اگر لڑکا ایسے کسی کام میں اپنی بیگم کا ہاتھ بٹانے لگے تو عورت اچانک ساس کا روپ دھار لیتی ہے اور بہو پر طنز کے تیروں کی برسات ہوتی ہے کہ ہم نے تو کبھی اپنے بیٹے سے ایسے کام نہیں کروائے، ہمارے ہاں لڑکے یہ کام نہیں کرتے، وغیرہ وغیرہ۔ یوں ہی اگر کسی مرد کے بارے میں خبر ملے کہ وہ گھر بھر کے کپڑے دھوتا ہے یا کسی دوسرے کام میں اپنی بیگم کا ہاتھ بٹاتا ہے تو بھی اسی طرح کی باتیں بنائی جاتی ہیں کہ نجانے کس قسم کی عورتیں ہوتی ہیں جو اپنے شوہروں سے ایسے کام کرواتی ہیں، اور الا بلا۔
ایک طرف عورت کا اپنی ہم صنف کے بارے میں یہ رویہ اور دوسری طرف صنفِ مخالف یعنی مرد کی یہ سوچ کہ اصل کام یعنی محنت مزدوری اور کمائی تو ہم کرتے ہیں، سارا دن گھر میں رہنے والی عورت کے پاس کام ہی کیا ہے۔چناں چہ گھر لوٹنے پر وہ یہ چاہتے ہیں کہ بیگم اُن کی خدمت میں جت جائے اور اُف تک نہ کرے۔
اس کے برعکس وہ معاشرے ہیں جہاں صرف شوہر اور بیوی ہی نہیں، اولاد بھی گھر کے ہر کام میں حصہ دار ہے۔ شوہر کماتا ہے تو بیوی بھی کماتی ہے، اس لیے کوئی دوسرے کو یہ طعنہ نہیں دے سکتا کہ اصل کام (کمائی) تو وہ کر رہا ہے۔ نتیجتاً گھر کے کاموں میں بھی دونوں ہی کو برابر حصہ ڈالنا پڑتا ہے۔ ساتھ ہی اولاد کو بھی، چاہے وہ لڑکا ہو یا لڑکی، شروع ہی سے گھر کے کام سونپے جاتے ہیں، کسی بچّے کے ذمے دوپہر کا کھانا، کسی کے ذمے صبح کا ناشتہ، کسی کے ذمے چھوٹے بہن بھائی کو تیار کرنا، وغیرہ، یوں کسی کے بھی ذہن میں برتری کے جذبات پیدا ہونے کا سدِّباب کرلیا جاتا ہے۔
جس طرح گھر کی دوسری ذمہ داریوں میں مرد اور عورت برابر کے حصہ دار ہیں، اُسی طرح اولاد کی پرورش کا معاملہ بھی ہے۔ صرف کماکر دینے سے باپ کے فرائض پورے نہیں ہو جاتے؛ اولاد کی تعلیم و تربیت، تفریح اور کھیل کود، اور زندگی کے ہر پہلو کی مناسبت سے ماں اور باپ، دونوں ہی پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ باپ صرف اس لیے نہیں ہوتا کہ اولاد کی روزمرہ ضروریات پوری کرنے کے عوض ولدیت کے خانے میں اُس کا نام لکھ دیا جائے۔
گزشتہ ہفتے کے اختتام پر، امریکی عمرانی انجمن (امیریکن سوشیولوجیکل ایوسی ایشن) کے سالانہ اجلاس میں جورجیا اسٹیٹ یونیورسٹی نے ایک تحقیق پیش کی ہے کہ مل جل کر اپنی اولاد کی پرورش کرنے والے ازدواجی جوڑوں کے تعلقات اور جنسی زندگی زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ نو سو (۹۰۰) سے زائد شادی شدہ جوڑوں کی معلومات پر تحقیق سے حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق بچّوں کی پرورش اور نگہداشت کی ذمہ داریاں بانٹنے سے جوڑے خوش رہتے ہیں، اور والدین جنسی اور جذباتی طور پر زیادہ اطمینان محسوس کرتے ہیں؛ جب کہ جہاں عورتیں بچّوں کی نگہداشت میں زیادہ حصہ ڈالتی ہیں، وہاں مرد اور عورت دونوں ہی کم مطمئن نظر آئے۔
تحقیق اگرچہ صرف اولاد کی نگہداشت کے حوالے سے مرد و عورت کی ذمہ داریوں سے متعلق ہے، تاہم میرا ماننا یہ ہے کہ ازدواجی تعلقات میں بہتری کے لیے صرف اولاد کی ذمہ داریاں نہیں، بلکہ دوسرے معاملات میں بھی مل جل کر کام کرنے اور ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانے سے معاملات خاصے بہتر رہتے ہیں۔ اگر مرد اپنی ہفتہ وار چھٹی کے دن صرف یہ سوچ کر، کہ عورت کو گھریلو کاموں سے کسی بھی دن چھٹی نہیں ملتی، گھر کے کاموں میں عورت کا ساتھ دینے لگے تو دونوں کے تعلقات میں خاصی خوش گوار بہتری آسکتی ہے۔ ایک طرف عورت کو یہ احساس ہوگا کہ شوہر کو اُس کا خیال ہے تو دوسری طرف مرد کو بھی یاد رہے گا کہ گھر کے کام معمولی نہیں ہوتے، اچھا خاصا تھکا دینے اور کبھی ختم نہ ہونے والے ہوتے ہیں۔
بچّے پالنے کا تجربہ رکھنے والے بخوبی جانتے ہوں گے کہ یہ کام کس قدر مشکل ہے۔ بچّے خواہ جتنے چھوٹے ہوں، سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور آپ کو تگنی کا ناچ نچا سکتے ہیں۔ بچّوں کی ضد سے متعلق ایک دلچسپ لطیفہ ہے کہ اکبر بادشاہ کے دربار میں اسی موضوع سے متعلق ایک بار گفتگو ہو رہی تھی۔ اکبر بادشاہ نے کہا کہ بچّوں کو پالنا ایسا کون سا مشکل کام ہے۔ ملّا دو پیازہ نے کہا، ٹھیک ہے حضور، کچھ وقت کے لیے میں بچّہ بن جاتا ہوں اور آپ میرے باپ بن کر مجھے بہلائیں۔ بادشاہ تیار ہوگیا۔ ملّا دو پیازہ نے فوراً رونا شروع کردیا۔ بادشاہ نے پوچھا، کیا چاہیے؟ کہنے لگے، اونٹ چاہیے۔ بادشاہ نے اونٹ منگوا دیا۔ اونٹ آیا تو ملّا دوبارہ رونے لگے۔ بادشاہ نے دریافت کیا، کیا چاہیے؟ بولے، سوئی چاہیے۔ لیجیے جناب، حکم پر سوئی بھی حاضر کر دی گئی۔ اب تو ملّا مزید مچل مچل کر رونے لگے۔ بادشاہ نے خواہش پوچھی تو بولے، اونٹ کو سوئی کے ناکے سے گزارو۔ بادشاہ نے بہت سمجھایا کہ سوراخ بہت چھوٹا ہے اور اونٹ اتنا بڑا، اس میں سے کیسے گزرے گا، لیکن ملّا مان کر نہ دیے۔ آخر بادشاہ کو ہار ماننی پڑی۔
تو، جب مرد دن بھر گھر سے باہر رہتے ہیں تو شام میں واپس آکر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ بچّے کے ساتھ کچھ باتیں کرلیں، کھیل لیے تو کافی ہے۔ بچّہ دن بھر کیا کرتا رہا ہے، اگر پڑھ رہا ہے تو پڑھائی میں کیسا ہے، زندگی میں کن مسائل کا سامنا کر رہا ہے، کوئی پروا نہیں۔ اور بچّہ ابھی ننھا ہو، رات میں تنگ کرتا ہو تو بھڑک جاتے ہیں۔ اپنی نیند اور آرام زیادہ عزیز رکھتے ہیں، غصّے میں چیختے چلّاتے ہیں، اور اگر زیادہ شرافت دکھائیں تو تکیہ چادر اُٹھاکر دوسرے کمرے کا رُخ کرتے ہیں۔ پھر بچّہ اپنی ماں کو جب تک ستائے جائے، جگائے جائے۔ ہاں، یہ توقع ضرور ہوتی ہے کہ بچّے کی ماں اگلے دن صبح صبح ان کی خدمت کے لیے تیار ہو اور ناشتہ بناکر دے سکے۔
ایسے میں بچّے کی ماں، جو دن بھر اُس کی دیکھ بھال کرکے تھک چکی ہوتی ہے، رات میں بچّے کے تنگ کرنے پر کبھی کبھی خود بھی قابو نہیں رکھ پاتی۔ بچّے کو ایک تھپڑ پڑتا ہے، پھر بچّہ بلک بلک کر روتا ہے، اور ماں سسک سسک کر۔
اللہ کا شکر ہے کہ حفصہ (میری بیٹی) رات میں زیادہ تنگ نہیں کرتی، لیکن کبھی اُس نے تنگ کیا بھی تو میں نے تھکن اور نیند سے چور ہونے کے باوجود کمرے سے باہر چلے جانا اولاد سے اپنی محبت کی توہین سمجھا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ عروسہ (اہلیہ) کی تھکن دیکھ کر میں نے اُسے سونے کا کہہ دیا اور خود حفصہ کو بہلاتا رہا۔ گھر میں دن بھر بچّے کی دیکھ بھال کرنے سے زیادہ تھکانے والا شاید کوئی کام نہیں، جسمانی اور ذہنی، ہر دو طرح کی تھکن ہوجاتی ہے۔ ایسے میں بچّہ اگر رات میں بھی ستانے لگے تو صبر کا پیمانہ لبریز ہوتے دیر نہیں لگتی۔ ایسے میں آپ کو کسی ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے؛ اور شوہر سے بہتر ساتھی کون۔
صرف اولاد کی پرورش ہی نہیں، گھر کے دیگر کاموں میں بھی میری کوشش ہوتی ہے کہ ممکن حد تک ہاتھ بٹاسکوں، خواہ دل چاہے یا نہ چاہے۔ عروسہ کی بیماری یا تھکن کی حالت میں، میں نے کپڑے دھونے، برتن دھونے، کھانا تیار کرنے، کپڑے استری کرنے میں کبھی کوئی عار محسوس نہیں کیا۔ یہ سب کام جتنے ایک عورت کے ہیں، اُتنے ہی مرد کے بھی ہیں۔ حقیقتاً ذمہ داری تو مرد ہی کی ہیں۔ کوشش کرتا ہوں کہ ایک اچھا شوہر اور ایک اچھا باپ بن سکوں۔
تحریر کا آغاز گھریلو ذمہ داریاں خواتین تک محدود رکھنے کے تصور سے کیا تھا، اختتام اس تصور کے خاتمے کے لیے اپنی معمولی کوششوں کے تذکرے پر۔

Comments

  1. تلُے لگنا۔۔۔۔۔
    ایک اس جملے نے ایک عرصے تک ہمارے معاشرے کو یرغمال بنائے رکھا کہ ۔۔۔۔لوگوں کو گھر والی کی اتنی پرواہ نہیں ہوتی تھی ۔۔۔بلکہ یہ پرواہ ہوتی تھی کہ لوگ اس کا لقب نہ دے ڈالیں اُسے۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اب پرُ امید ہوا چاہتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔یہ گھٹن والے جملوں سے جان چھوٹ رہی ہے ۔۔۔۔اور اب گاؤں ، دیاتوں وغیرہ میں بھی ۔۔۔۔۔لوگ آپ کی تحریر کے مطابق پیرائے عمل ہیں ۔۔۔۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. درست کہہ رہے ہیں۔ ہمارے اپنے ہی لوگوں کے طعنے ہمیں مار دیتے ہیں۔

      Delete
  2. گھر کے کام معمولی نہیں ہوتے، اچھا خاصا تھکا دینے اور کبھی ختم نہ ہونے والے ہوتے ہیں۔ میری نیٹی کی پیدائش پر پہلی بار گھر کے کام کی ذمہ داری اٹھائی اور سچ میں چیخیں نکل گئی اور پہلی بار یہی بات ذہن میں آئی تھی جو آپنے نے لکھا ہے۔

    بہت بہترین موضوع پر لکھا ہے۔۔۔۔۔میری طرف سے دل کی گہرائیوں سے خراج تحسین قبول کریں۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. شکریہ خورشید بھائی۔ واقعی گھر کے کام خاصے تھکادینے والے ہوتے ہیں۔ اور اس کا احساس تبھی ہوتا ہے جب وہ کام خود کرنے پڑتے ہیں۔ اس لیے مردوں کو لازمی ان کاموں میں ہاتھ بٹانا چاہیے۔

      Delete
  3. شیئر کرنے کا آپشن نہیں ہے؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. تحریر کے نیچے فیسبک، ٹوئٹر اور گوگل پلس پر شیئر کرنے کے بٹن موجود ہیں۔

      Delete
  4. دلچسپ اور مفید۔ خواتین خانہ تو دھڑا دھڑ شیئر کریں گی ;)

    ReplyDelete
    Replies
    1. شکریہ اسد۔ بظاہر تو خواتین کے فائدے کی بات ہے، لیکن یہ باتیں ازدواجی تعلقات میں جتنا فائدہ مند عورتوں کے لیے ہیں، اتنا ہی مردوں کے لیے بھی۔ لہٰذا اُنھیں بھی شیئر کرنا چاہیے۔ :)

      Delete
  5. یعنی آپ بھی ہماری طرح رن مرید ہیں
    ...... ہمیشہ خوش اور شاد رہیں گے انشاءاللہ

    ReplyDelete
    Replies
    1. جان کر اچھا لگا کہ آپ کا تعلق بھی اسی طبقے سے ہے۔ :)
      نیک خواہشات کے لیے شکریہ۔

      Delete
  6. بہت خوب اور اچھا موضوع عموما ہمارے یہاں ایسے موضوعات پر قلم نہیں اٹھایا جاتا
    اللہ آپ کے خاندان پر اپنی رحمتیں نازل کرے اور ہمارے دیگر خاوند حضرات اور انکے والدین کو عقل سلیم عطا کرے

    ReplyDelete
    Replies
    1. آمین۔
      فیضان، خود مجھے بھی اس موضوع پر لکھنے کے لیے بہت سوچنا پڑا۔ خیالات موجود تھے لیکن ان کے اظہار کے لیے الفاظ نہیں مل رہے تھے۔ پھر اتفاق سے جورجیا اسٹیٹ یونیورسٹی کی تحقیق کے بارے میں خبر پڑھ لی تو خیالات کو الفاظ بھی مل گئے۔ :)

      Delete
  7. بہت عمدہ تحریر ۔۔۔۔۔ توازن سے ہی کسی بھی رشتے میں نکھار آتا ہے ۔۔ آپ نے ٹھیک کہا کہ اب لوگوں میں تبدیلی آرہی ہے اور مرد گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانے کو انا کا مسلئہ نہیں بناتے جیسا کہ عموماِِ ہمارے بڑوں کے زمانے میں ہوتا تھا۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. جی، وقت کے ساتھ ساتھ لوگوں کے رویوں میں تبدیلی آنی شروع ہوئی ہے، لیکن یہ ابھی بہت چھوٹے پیمانے پر ہے۔ امید ہے کہ کچھ عرصے بعد صورتِ حال مزید بہتر ہوجائے گی۔

      Delete
  8. بہت ہی خوبصورت اور عمدہ تحریر ہے.

    ReplyDelete
  9. ہمیشہ کی طرح بہترین لکها حفصہ بیٹی کی آمد ہوئ اور ہمیں میرا مطلب مجهے پتہ بهی نہیں چلا ..بہر حال بے حد مبارک ہو بہت خوشی ہوئ ماشاءاللہ بہت پیاری بیٹی ہے اللہ تعالی ڈهیروں خوشیاں دے صحت اور تندرستی والی لمبی زندگی ہو آمین
    عروسہ کو اور آپ کو ننهی پری کی خوشیاں دیکهنا نصیب ہوں آمین

    ReplyDelete

Post a Comment