From Karachi Board to AKU-EB

ماہِ رواں (اگست) کے پہلے ہفتے میں ثانوی تعلیمی بورڈ کراچی (میٹرک بورڈ) پر خاصی ہنگامہ آرائی رہی۔ وجہ میٹرک کے امتحانی نتائج تھے جو ماہِ جولائی کی آخری تاریخ کو جاری کیے گئے تھے۔ احتجاج کرنے والے بعض طلبا کو یہ شکایت تھی کہ جو پرچے اُنھوں نے دیے تھے، اُن میں اُنھیں غیر حاضر ظاہر کیا گیا ہے، اور بعض طلبا نے نتائج میں دیگر غلطیوں کی بھی نشاندہی کی۔ طلبا کے غضب اور توڑ پھوڑ کو دیکھتے ہوئے عملے کو وہاں سے جانا پڑا۔ بعد ازاں چیئرمین بورڈ انوار احمد زئی نے مطالبات حل کرنے کی یقین دہانی کروائی تو احتجاج ختم ہوا۔ چیئرمین بورڈ کے مطابق متاثرہ طلبا کی تعداد آٹھ سو سے زائد ہے۔ معاملہ حل کرنے کے لیے متاثرہ طلبہ و طالبات کی کاپیوں کی دوبارہ جانچ کے احکامات جاری کیے گئے، بورڈ میں خصوصی کاؤنٹر قائم کیے گئے۔  لیکن یہ کوئی نئی خبر تو نہیں۔
ہر سال ہمیں امتحانی نتائج کے اعلان پر ایسی ہی خبریں سننے کو ملتی ہیں۔ کبھی اسکول، کبھی کالج، اور حتاکہ کبھی کبھی جامعات کی سطح پر بھی امتحان اور جانچ پڑتال کے نظام پر اعتراضات اُٹھتے ہیں، خامیاں سامنے آتی ہیں، احتجاج ہوتے ہیں اور پھر مطالبات پورا ہونے کی یقین دہانی۔
خود مجھے انٹرمیڈیٹ کے امتحانی نتائج میں ایک مسئلے کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک مضمون جس کا میں نے امتحان دیا تھا، اُس کے نتائج درج نہیں تھے اور ایک وہ مضمون جسے میں نے منتخب ہی نہیں کیا تھا، اُس کے آگے مجھے غیر حاضر لکھا گیا تھا، چناں چہ مجموعی طور پر میں امتحان میں ناکام تھا۔ لہٰذا مجھے انٹرمیڈیٹ بورڈ کا رُخ کرنا پڑا۔ ایک دو دن تک تنگ کرنے کے بعد، جب متعلقہ اہلکار نے میرا کام کیا تو وہ بھی اس طرح کہ میرے سامنے ہی میری متعلقہ امتحانی کاپی نکالی، وہ رجسٹر کھولا جس میں تمام امتحانی نتائج ہاتھ سے درج کیے جاتے تھے، اور ہاتھ کے ہاتھ میرے امتحانی نتائج درست کر دیے۔ جی ہاں، کوئی کمپیوٹر ریکارڈ نہیں، کوئی جانچ پڑتال نہیں، کوئی نگرانی نہیں۔ ایسی صورت میں اگرچہ وضاحت کی ضرورت تو نہیں پڑتی، پھر بھی لکھ رہا ہوں کہ اس طرح کی لکھت پڑھت میں دو نمبری کرنے کے امکانات کے روشن ہونے میں کس احمق کو شبہ ہوسکتا ہے۔ اور وہاں دو تین دن آنے جانے کے دوران، میں نے مشاہدہ بھی کیا کہ کئی لوگوں کے کام بس یوں ہی ہو رہے تھے۔۔۔ سفارشیں، فون، پیسہ! سب کچھ!
تو، میٹرک بورڈ پر ہنگامے کی خبر پڑھ کر آغا خان یونیورسٹی ایگزامنیشن بورڈ کی ٹیم کے ساتھ ملاقات کی یادیں تازہ ہوگئیں۔ آغا خان بورڈ نے ماہِ جولائی کے آغاز میں میڈیا سے منسلک اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک افطار ڈنر کا اہتمام کیا تھا جس میں بحیثیت بلاگر مجھے اور کاشف نصیر کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ آغا خان بورڈ کے حوالے سے کئی باتیں اور سوالات ایک عرصے سے میرے ذہن میں تھے، اور اُس ملاقات میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ اس غیر رسمی دعوت میں کوئی لیکچر یا پریزنٹیشن یا تقریر نہیں تھی، صرف ہلکی پھلکی گفتگو تھی۔ بورڈ کے تقریباً سبھی شعبوں سے کوئی ایک نمائندہ موجود تھا؛ امتحانی پرچے مرتب کرنے والے، امتحانی پرچوں کی جانچ پڑتال کرنے والے، انتظام کرنے والے، مارکیٹنگ والے، سبھی تھے۔ یہاں تک کہ ایگزامنیشن بورڈ کے ڈائریکٹر جناب شہزاد جیوا بھی۔
یہ میری آغا خان یونیورسٹی ایگزامنیشن بورڈ کے ساتھ صحیح معنوں میں پہلی شناسائی تھی۔ اس سے پہلے صرف نام پتے ہی سے واقفیت تھی۔ آغا خان کمیونٹی پاکستان میں صحت اور تعلیم کے فروغ کے لیے جو خدمات انجام دے رہی ہے، اُن سے اور اُن کے اعلا معیار سے سبھی واقف ہیں؛ لیکن امتحانی بورڈ کے بھی اعلا معیارات کے بارے میں جان کر حیرانی بھی ہوئی اور فخر بھی۔
آغا خان بورڈ کا تمام تر نظام کمپیوٹرائزڈ ہے۔ ہر طالبِ علم کو ملنے والی ہر امتحانی کاپی کا ایک ایک صفحہ خاص طور پر اُسی کے لیے تیار ہوتا ہے۔ ہر صفحے پر ایک منفرد بار کوڈ ہوتا ہے جو اُس طالبِ علم سے منسلک ہوتا ہے۔ امتحانات کے بعد ہر امتحانی کاپی کو اسکین کیا جاتا ہے اور سوالات کے لحاظ سے ڈیجیٹل صفحات الگ کرلیے جاتے ہیں۔ بعد ازاں، ہر سوال الگ ممتحن کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ایک امتحانی پرچے میں دس سوال ہیں تو دس ممتحن بیٹھے ہیں۔ پہلا ممتحن صرف پہلے سوال کی جانچ کر رہا ہے، دوسرا ممتحن صرف دوسرے سوال کی، اور تیسرا ممتحن تیسرے سوال کی۔ چناں چہ،  ہر ممتحن کی تمام تر توجہ ایک ہی سوال پر رہے گی اور وہ نشانات لگانے (نمبر دینے) میں بہتر انصاف کرسکے گا۔ بعد ازاں، ہر صفحے پر موجود بارکوڈ ہی کی مدد سے ہر طالبِ علم کے تمام امتحانی پرچے اکٹھے کیے جاتے ہیں اور پھر امتحانی نتیجہ مرتب کیا جاتا ہے۔
امتحانی پرچوں کی جانچ کا یہ طریقہ میرے لیے نیا اور انوکھا ہی ہے، کیوں کہ ایم۔اے ایجوکیشن کرتے ہوئے ’’اسیسمنٹ اینڈ ایولیویشن‘‘ (Assessment & Evaluation) کے مضمون میں بھی میں نے یہ طریقہ کار نہیں پڑھا تھا۔ اس طریقے میں شفافیت یقینی بنایا جانا بھی ممکن ہوپاتا ہے کہ ہر مضمون کی کاپی ہی نہیں، بلکہ ہر کاپی کے صفحات کی جانچ کرنے والے بھی الگ الگ لوگ ہیں۔ ورنہ کراچی میٹرک بورڈ کے امتحانی نتائج میں خرابی پر کرپشن اور گھپلوں کا الزام فوراً سامنے آجاتا ہے، کیوں کہ سبھی جانتے ہیں کہ دیگر سرکاری اداروں کی طرح سرکاری امتحانی بورڈ کی کیا صورتِ حال ہے۔
اس طریقۂ کار کے تحت ’’ترس کھا کر‘‘ نمبر لینے کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔ ورنہ آپ نے سوشل میڈیا پر ایسی امتحانی کاپیوں کی تصاویر تو دیکھ ہی رکھی ہوں گی، یا اپنے زمانۂ طالبِ علمی میں ایسے طلبا کو جانتے ہوں گے جو امتحانی کاپی میں اپنے دُکھڑے لکھ کر آتے تھے اور اُمید کرتے تھے کہ اُن کی درد بھری کہانی پر ترس کھاکر ممتحن اُنھیں کسی صورت پاس ہی کردے گا۔
امتحانی نظام میں ’’اسکروٹنی‘‘ کا مرحلہ بھی بے حد اہم ہوتا ہے۔ اگر کوئی طالبِ علم سمجھتا ہے کہ اُس کا امتحانی نتیجہ درست نہیں ہے تو وہ دوبارہ جانچ پڑتال کی درخواست دے سکتا ہے۔ کراچی بورڈ کے برعکس آغا خان بورڈ اسکروٹنی کی درخواست پر صرف نمبر دوبارہ شمار کرکے نہیں بتادیتا، بلکہ ’ہیڈ ایگزامنر‘‘ سے کاپی کی دوبارہ جانچ کروانے کی سہولت بھی موجود ہوتی ہے۔ اس صورت میں کاپی کا ہر ہر سوال دوبارہ چیک کیا جاتا ہے۔ امتحانی نتائج کے علاوہ اسکول کو ایک خلاصہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ اسکول کی کارکردگی کیسی رہی اور دوسرے اسکولوں کی کارکردگی کیسی تھی، وغیرہ وغیرہ۔ غرض ایک مختصر رپورٹ پیش کی جاتی ہے۔
اعلا معیارات کا جب بھی ذکر ہوتا ہے، ہمیں فوراً حساب کتاب کا خیال آتا ہے۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ معیار اعلا ہے تو رقم بھی اچھی خاصی اینٹھی جا رہی ہوگی، اور جہاں رقم زیادہ ہو وہاں پھر طبقاتی تقسیم کو پروان چڑھانے کا اندیشہ سر اُٹھاتا ہے۔ لہٰذا ہم نے اس بارے میں بھی سوال کر ڈالا۔ آغا خان بورڈ کے تحت میٹرک کے امتحانات کی فیس آٹھ ہزار روپے وصول کی جاتی ہے۔ کراچی میٹرک بورڈ کی تقریباً ایک ہزار روپے امتحانی فیس کے مقابلے میں اگرچہ یہ کچھ زیادہ ہے لیکن اتنی زیادہ بھی نہیں، متوسط طبقہ بآسانی یہ رقم دے سکتا ہے۔
تعلیمی معیار کو بہتر بنانے کے لیے جہاں مختلف نصاب اور درسی کتب پڑھائے جانے کی اہمیت اجاگر کی جاتی ہے، وہیں مختلف نصاب اور درسی کتابوں کو طبقاتی خلیج میں اضافے کا سبب بھی ٹھہرایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں آغا خان بورڈ نے یہ پالیسی اپنائی ہے کہ وہ کسی مخصوص درسی کتاب کو پڑھائے جانے پر اصرار نہیں کرتا۔ ہر مضمون کے جاری کردہ سلیبس کی تدریس کے لیے چند کتابیں تجویز ضرور کی جاتی ہیں لیکن کتابوں کا انتخاب اسکول کی اپنی صوابدید پر چھوڑا جاتا ہے۔ وہ اسکول غیر ملکی کتب کے ذریعے بھی سلیبس کی تکمیل کرسکتا ہے اور ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتب سے بھی۔
آغا خان بورڈ کے مختلف احباب سے مختلف موضوعات پر گفتگو رہی؛ تعلیمی نظام میں بہتری کے راستوں، امتحانی طریقہ کار کی اہمیت، نتائج کو شفاف بنانے کی ضرورت، اور آغا خان بورڈ کی مارکیٹنگ ٹیم کے سوشل میڈیا پر متحرک نظر نہ آنے پر بات چیت ہوئی۔
آغا خان بورڈ امتحانات لینے کے ساتھ ساتھ اسکول کے اساتذہ کی تربیت کا اہتمام بھی کرتا ہے۔ پاکستان کے قومی نصاب کو اپنانے کے باعث بورڈ کے تحت امتحان دینے والے طلبا کسی بھی دوسرے تعلیمی ادارے میں بآسانی داخلہ لے سکتے ہیں اور دوسرے تعلیمی بورڈز کے برعکس ان طلبا کے امتحانی نتیجوں میں نمبروں کی کٹوتی نہیں ہوتی۔
بورڈ کے ڈائریکٹر، شہزاد جیوا نے ملاقات کے اختتام پر دفتر آنے کی دعوت بھی دی۔ چناں چہ ۷ اگست کو اُن کے دفتر میں دو گھنٹے طویل ملاقات رہی جس میں بورڈ کی امتیازی خصوصیات اور دیگر معاملات پر کھل کر گفتگو ہوئی۔ شہزاد جیوا کا انداز کچھ ایسا دوستانہ ہے کہ ملنے والے کو اجنبیت کا احساس نہیں ہونے دیتے اور بڑی اپنائیت سے کھل کر ہر پہلو پر گفتگو کرتے ہیں۔ ملاقات میں اُنھوں نے وہ رجسٹر بھی دکھایا جس پر، بورڈ کے دفتر آنے والے مختلف لوگ تبصرے درج کرتے ہیں۔ مثبت اور منفی تبصرے بھی پڑھ کر سنائے اور دلچسپ واقعات بھی۔
پاکستانی معاشرے میں بہتری لانے اور تعلیمی نظام کو سدھارنے کے لیے امتحانی نظام کو بہتر بنانے کے ضمن میں شہزاد جیوا اور آغا خان یونیورسٹی ایگزامنیشن بورڈ کا جو وژن ہے، قوی اُمید کی جاسکتی ہے کہ معاشرے پر واقعی مثبت اثرات مرتب کرے گا۔ 

Comments

Post a Comment