Zuhair Abbas and Jahan-e-Science

حسبِ معمول، جب کام کرتے کرتے تھک گیا اور ذہن تر و تازہ کرنے کے لیے کچھ مطالعے کی ضرورت محسوس ہوئی تو بلاگستان کے ساتھ ساتھ اردو محفل کھول لی۔ عرصہ ہوا کہ اردو محفل پر آمد و رفت برائے نام ہے، لیکن جب انٹرنیٹ پر کچھ پڑھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور کچھ سمجھ نہیں آتا تو آف لائن رہتے ہوئے اردو محفل پر ایک نظر ڈال لیتا ہوں۔ اردو محفل نہ صرف معلومات کا خزانہ ہے بلکہ اردو زبان کے فروغ کے لیے کام کرنے والے مخلص افراد کا مرکز بھی ہے۔ اگر انٹرنیٹ پر اردو سے متعلق غیر جانب دارانہ تاریخ مرتب کی جائے تو اردو محفل (اردو ویب) کا ذکر نمایاں حروف میں لکھا جائے گا۔
بہرحال، اردو محفل کھولی تو گفتگو کے ایک عنوان پر نظر پڑی: ’’ڈسکوری چینل کے پروگرام How The Universe Works، سیزن 1 کا اردو ترجمہ‘‘۔ دلچسپی کے احساس نے یہ موضوع دیکھنے پر اکسایا اور پھر پڑھنا شروع کیا تو جیسے گم ہی ہوگیا۔ کوئی زہیر عباس نامی رکن تھے جو محفل پر نئے نئے وارد ہوئے تھے۔ اُنھوں نے ڈسکوری چینل کے مذکورہ پروگرام کا اردو ترجمہ کیا تھا، اور کیا ہی خوب ترجمہ تھا۔ دلچسپ موضوع، ڈھیروں معلومات، اور انداز عام فہم۔
افسوس اس بات پر ہوا کہ اس موضوعِ گفتگو پر دیگر اراکین کے تبصرے اور ریٹنگ کی تعداد توقع سے خاصی کم تھی۔ پھر زہیر صاحب کے ایک اور موضوع پر نظر پڑی۔ وہ بھی سائنس سے متعلق اور پہلے کی طرح دلچسپ۔ بس، رہا نہیں گیا۔ اردو محفل پر لاگ ان ہوا اور جناب کو نہ صرف مراسلہ ارسال کیا بلکہ بلاگنگ کی دعوت بھی دے ڈالی۔
مجھے اس حقیقت کے اعتراف میں کوئی جھجک نہیں کہ میں اچھا قائل کرنے والا نہیں ہوں۔ فیلڈ مارکیٹنگ کی ملازمت کو میں نے دو ہی دن میں خیرباد کہہ دیا تھا۔ لہٰذا، اگر زہیر عباس بلاگنگ کے لیے فوراً ہی تیار ہوگئے تو اس میں میرا کوئی کمال نہیں بلکہ درحقیقت وہ خود تیار بیٹھے تھے۔ ہماری ذرا سی بات ہوئی، بلاگنگ سے متعلق بنیادی باتیں طے ہوئیں اور بلاگ تیار ہوگیا۔
جہانِ سائنس بلاگ کا ایک منظر
فنون (آرٹس) کا طالبِ علم ہونے کے باعث سائنس سے متعلق میری معلومات کچھ زیادہ اچھی نہیں، اور میری خواہش ہے کہ کوئی آسان انداز میں مجھے سائنس سمجھائے اور کائنات کے بارے میں حیرت انگیز باتوں سے آگاہ کرے۔ زوہیر عباس کا کام دیکھ کر روشنی کی کرن نظر آئی ہے۔
ہر دور میں ایسے لوگ موجود رہے ہیں جن کا پیشہ تو کچھ اور تھا لیکن اُنھوں نے اپنے ہنر کے جوہر کسی مختلف میدان ہی میں دکھائے۔ زہیر عباس کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ یوں تو آپ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں، لیکن ہمیں سائنسی مضامین سے مستفید کر رہے ہیں۔
تو، اردو بلاگنگ کی دنیا میں بھرپور استقبال کیجیے بلاگ جہانِ سائنس کے +Zuhair Abbas  کا۔

Comments

  1. عمار بھائی یقین جانئے کہ آپ کے بلاگ پر اپنا ذکر دیکھ کر کس قدر خوشی ہوئی اس کو لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا. میں بلاگ پہلے بھی بنانے کی کوشش کررہا تھا لیکن بنا نہیں پایا سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ کس طرح سے شروع کروں. پھر جب آپ سے رابطہ ہوا اور آپ کی ہدایت و رہنمائی کی روشنی میں بنانا شروع کیا تو خدا کے شکر سے پہلی ہی مرتبہ میں کامیابی ہوگئی.

    آپ کا بہت شکریہ کا نہ صرف آپ نے رہنمائی کی بلکہ اس کو کافی نوک پلک بھی درست کی اور مجھے بھی سیکھاتے رہے.

    ReplyDelete
    Replies
    1. زہیر بھائی، اس سے کہیں زیادہ خوشی مجھے آپ کے بلاگ کو دیکھ کر ہوتی ہے۔ دن میں کئی بار آپ کا بلاگ دیکھتا ہوں۔ ماشاء اللہ آپ نے خود سے وہاں بہت کچھ بہتر کرلیا ہے۔ امید ہے کہ اسی طرح سائنسی موضوعات پر لکھ کر ہماری معلومات میں اضافہ کرتے رہیں گے اور اردو بلاگنگ میں ایک مفید اضافہ ثابت ہوں گے۔

      Delete
  2. ماشا اللہ

    واہ رے اللہ تیری شان کبریاُی...!

    عقل دنگ رہ گُی ہوشربا کہکشاوں کی سجاوٹ و رنگینیاں دیکھ کر.

    سبھان اللہ

    اتنی زبردست معلومات لیُے حضرت ظہیر عباس صاحب کہاں گمنامی میں بیٹھے تھے، یہ آپ نے اچھا کیا انکی لا جواب انسایکلوپیڈیا منظر عام پر لے آُے.

    البتہ ایک جگہ آپ نے یا ظہیر صاحب نے ، شاید آپ ہی نے یہ لکھا ہے کہ ہم کو دمدار ستارے یا کوئ اور ستارے کے بارے میں جاننا ضروری ہے جس کی وجہ سے ہم دنیاں میں آے ہیں.

    معاف کیجیے گا یہ سوچ اللہ پر کا مل یقین نہ رکھنے والے بہت سارے ساُینسدانوں کی تو ہو سکتی ہے مگر ایک مسلمان کی نھیں..!

    ""ہم ستاروں کے وجود میں آنے سے دنیاں میں نہیں آے ہیں. یہ ایک باطل نظریہہ یے.""

    بلکہ قرآن میں اللہ کہتا ہے کہ انسانوں کیلیے کہکشاُیں سجائ گئ ھیں.

    بشرٰی خان

    ReplyDelete
    Replies
    1. محترمہ بشریٰ خان صاحبہ!

      سب سے پہلے تو آپ کا شکریہ کہ آپ نے اس قدر دلچسپی اور گہرائی کے ساتھ اس مضمون کو پڑھا.

      دوسرے یہ مضمون ایک پروگرام کا ترجمہ ہے. اس کو بنانے والوں نے سائنسی نقطہ نظر سے بنایا ہے اور ان میں سے اکثریت ملحد ہے. میں نے تو صرف اس کو اردو کے قلب میں ڈھالا ہے.

      دوسرے خدا نے انسان کو خاک سے پیدا کیا ہے . یہ خاک بھی تو کہیں سے پیدا ہوئی ہوگی. سائنس دان اس خاک کو ستاروں کی خاک کہتے ہیں . میرے نقطہ نظر سے تو دونوں باتیں ایک ہی تصویر کے دو رخ ہیں

      زہیر عبّاس

      Delete
  3. Mohtram Ammar Ibne Ziya sahab

    Aap Ba khoobi waqif honge ke Science apni Research se ek Theory pesh karti hai. Phir kuch arse bad latest research se sabeqa theories ko galat batati hai ke baat youn nahi balke youn hai.

    Hosakta hai aur nahi bhi ho sakta ke kuch Shawahed miley hon Duniya men insan ke wajud ke talluq se un sitaron se judey hue.

    Anhoni baton ka hona is baat ki Daleel nahi banti ke Science ka Nazarya sahi hai ke Duniya men insan ka wajud us maqsus Sitare ki waje se hai. Chahe jitni mumaselaten paai jayn Science ka apna Nazarya her haal men Baatil hi rahega ke us Sitare ki waje se hum Duniya men aaye hain.

    Duniya men bhi hum dekhte aur sunte hain ke aksar ek dusre se judi Anhoni baten o waqyat hote rahte hain magar unka ek dusre se mumaselat haqiqat nahi hota balke etefaqiya hota hai. Ye ek choti si misal hui. Isi ko dumdar sitare per Qyas kar lijye.

    Shayd ke meri baat aap ki samajh men aai ho.

    Bushra khan

    ReplyDelete
  4. محترمہ بشریٰ خان صاحبہ!

    اصل میں دم دار تاروں کی اہمیت زمین اور انسانوں کے لئے اس لئے ہے کہ جب زمین وجود میں آئی تھی ا تو جس قسم کا ماحول زمین پر تھا اس میں زمین کی سطح پر موجود پانی زیادہ دیر تک نہیں قائم رہ سکتا تھا . زمین کے بننے کے بعد سیارچوں اور دم دار تاروں نے زمین پر برسنا شروع کیا اور زمین پر تباہی پھیلانے کے ساتھ ساتھ پانی بھی چھوڑ گئے. اور یہ پانی وہ پانی ہے جو ہم اور آپ آج سمندروں کی شکل میں دیکھتے ہیں. اگر یہ پانی ذرا سا بھی زیادہ ہوتا تو زمین ڈوب جاتی اور اگر ذرا سے بھی کم ہوتا تو سوکھ جاتی. وہ کون سی ذات ہے جس نے ان دم دار تاروں اور سیارچوں کو اتنے نپے تلے انداز میں زمین پر بھیجا جس سے سمندر قائم ہوسکے. اور اس پانی سے حیات نے نمو پائی؟

    کیا آپ کو معلوم ہے کہ پانی، چاند، دم دار تاروں، سیارچوں، مشتری اور اسی طرح کی ان گنت چیزوں کے بغیر زمین پر حیات سر نہیں اٹھا سکتی تھی؟ تو ان تمام چیزوں کو اتنی زبردست حکمت عملی کے ساتھ کس نے وقوع پذیر کیا؟ کیا یہ سب پڑھ کر آپ کے ذہن میں یہ صدا نہیں گونجتی کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے.؟

    ReplyDelete

Post a Comment