IB - Another Educational System in Pakistan

ایک مثالی استاد کیا ہوتا ہے اور روایتی طریقۂ تدریس کو مثالی کیسے بنایا جاسکتا ہے، یہ میں نے جامعہ کراچی میں حصولِ تعلیم کے دوسرے سال سیکھا۔ پہلے سال، جب ایک استاد نے طلبا سے سوال کیا گیا کہ شعبۂ تعلیم کا انتخاب اُن کا اپنا تھا یا جامعہ کا، تو تیس طلبا یعنی پانچ لڑکوں اور پچیس لڑکیوں کی جماعت میں سے شاید گنتی کے پانچ طلبا کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے داخلہ فارم پر تعلیم کا مضمون لکھا تھا، ورنہ باقی سب نے یہی کہا کہ وہ کسی دوسرے شعبے میں داخلہ چاہتے تھے لیکن گزشتہ امتحانات میں اچھے نتائج نہ ہونے کے باعث اُنھیں اس شعبے میں داخلہ ملا اور وہ مجبوراً یہاں پڑھ رہے ہیں، اُنھیں اگر موقع ملا تو وہ اپنا شعبہ تبدیل کروالیں گے۔ میرا  شمار اوّل الذکر طلبا میں ہوتا تھا۔ شعبۂ تعلیم میرا اپنا انتخاب تھا، اگرچہ ثانوی۔ پہلا انتخاب میں نے ابلاغِ عامہ رکھا تھا۔
اس پہلے پیرا میں بعض باتیں کئی قارئین کے لیے حیرت یا اُلجھن کا سبب ہوسکتی ہیں۔ مثلاً، شعبوں یا مضامین کا انتخاب طلبا خود ہی کرتے ہیں، جامعہ نے یہ انتخاب کیوں کیا؟ اور یہ کہ جامعہ کراچی کے داخلہ فارم پر کتنے شعبوں کے نام لکھے جاتے ہیں؟ طلبا میں لڑکے اور لڑکیوں کے تناسب میں عدم توازن پر پہلے بھی لکھ چکا ہوں، اس لیے اس سوال کو رہنے دیتے ہیں۔
جامعہ کراچی کے داخلہ فارم پر آٹھ مضامین/ شعبہ جات کے نام لکھنے درکار ہوتے تھے۔ طلبا اپنی ترجیحات کے مطابق شعبوں کے نام لکھتے تھے۔ مثلاً، میری پہلی ترجیح ابلاغِ عامہ، دوسری تعلیم، تیسری پولیٹکل سائنس، چوتھی اُردو، پانچویں عمرانیات تھی۔ باقی تین اب یاد نہیں کہ کیا لکھی تھیں اور لکھی بھی تھیں یا خالی چھوڑ دی تھیں۔ پھر داخلہ انتظامیہ ہر طالبِ علم کے فارم کا جائزہ لیتے ہوئے اُس کی گزشتہ تعلیمی کارکردگی دیکھتی تھی اور اُس کے حساب سے اُسے کسی  شعبے میں داخلہ دے دیتی تھی۔ شعبہ ابلاغِ عامہ میں داخلے کے لیے انٹرمیڈیٹ امتحان میں کم از کم ۷۵ فی صد نمبروں کا حصول لازمی ہے۔ میرے چوں کہ ۶۸ فی صد تھے، اس لیے اُس شعبے میں داخلے سے محروم رہا۔ اب سوچتا ہوں کہ یہ بہت ہی اچھا ہوا۔ (داخلے کے طریقہ کار میں اب شاید کوئی معمولی سی تبدیلی آئی ہے۔)
تو، بات شروع یہاں سے ہوئی تھی کہ جامعہ کراچی میں، مجھے دوسرے سال میں علم ہوا کہ مثالی استاد کیسے ہوتے ہیں اور تدریس دراصل کس طرح ہونی چاہیے۔ یہ کمال تھا ہمارے معلم، امتیاز احمد صاحب کا۔ اُن کے اندازِ تدریس نے مجھے اس بات کا شعور دیا کہ خدایا، ہم اب تک کتنے بکواس اور فرسودہ طریقے سے تعلیم حاصل کرتے آئے ہیں، اور خود رو پودوں کی طرح اُگ آنے والے نجی اسکولوں کے اساتذہ اپنے سر سے ذمہ داری کا بوجھ جیسے تیسے اُتارنے کی کوششوں میں سرگرداں ہیں۔ جامعہ کے تیسرے سال میں مزید دو قابل اساتذہ کا اضافہ ہوگیا۔ ایک جناب معروف بن رؤف، اور دوسرے محمد عاصم صاحب۔ یہ تین اساتذہ ایسے تھے کہ شعبۂ تعلیم کو ان پر فخر ہونا چاہیے تھا۔ (’’تھا‘‘ پر زور ہے جس کا بہت افسوس ہے۔)
جامعہ کراچی میں چار سال مکمل کرنے کے بعد میرے احساسات یہ تھے کہ ہمارے بیشتر نجی اسکولوں کے طلبا قابلِ رحم ہیں کہ بے چارے اتنے نالائق اساتذہ سے پڑھ رہے ہیں جنھیں تدریسی طریقوں کی الف بے تک کی خبر نہیں۔ اور حکومت کا نافذ کردہ میٹرک بورڈ نظام اب تک گویا ’’ڈارک ایج‘‘ میں ہے۔ وہ خالصتاً روایتی فرسودہ طریقۂ تدریس پر انحصار کرتا ہے جس میں طالبِ علم کو نہ مضامین کے انتخاب کا حق حاصل ہے، نہ طریقۂ حصولِ تعلیم کا۔ دنیا بھر میں ’’طلبا مرکز تعلیم‘‘ (چائلڈ سینٹرڈ ایجوکیشن) کا چرچا ہے اور ہم اب تک ’’استاد مرکز‘‘ اور کتاب مرکز‘‘ نظامِ تعلیم پر زندہ ہیں۔ ہمارے اسکولوں کی جماعتوں کا حال یہ ہے کہ فلاں مضمون کا استاد کمرے میں داخل ہوا، اس مضمون کی کتاب باہر نکل آئی، اُس نے ضروری کارروائیوں کے بعد بتایا کہ آج کون سا سبق پڑھیں گے، پھر اُس سبق کی بلند خوانی (ریڈنگ) کی یا کسی طالبِ علم سے کروائی، خاتمے پر ایک ایک سوال کا سبق کے متن میں سے جواب تلاش کرکے نشانات لگادیے، باقی کام گھر سے، چھٹی!
اس نظامِ تعلیم میں سب کچھ ہے؛ استاد، کتاب، اسکول، تعلیمی بورڈ، سیاست؛ بس ایک بے چارا طالبِ علم ہی نہیں ہے۔ اور مسئلہ یہ ہے کہ آپ صوبائی ٹیکسٹ بک بورڈ اداروں کے مقابلے پر جتنی اچھی درسی کتب سامنے لے آئیں، نویں اور دسویں جماعت میں آپ کا کوئی زور نہیں چل سکتا کیوں کہ ان درجات پر تعلیمی بورڈ امتحان لیتا ہے اور اُس کے امتحان کی بنیاد اُس صوبے کے ٹیکسٹ بک بورڈ کی شائع کردہ کتاب ہی ہوتی ہے۔ گزشتہ آٹھ سالوں میں طالبِ علم نے کتنے ہی اچھے نظامِ تعلیم سے کیوں نہ پڑھا ہو، آخر کے دو سال اُس نے ’’ڈارک ایج‘‘ ہی میں گزارنے ہیں۔
اس روایتی بورڈ امتحانات سے ہٹ کر دو راستے مزید ہیں۔ ایک کیمبرج امتحانات (او-لیول) اور ایک آغا خان بورڈ۔ کیمبرج امتحانات کے لیے پڑھانے والے اسکول اس لحاظ سے ضرور بہتر ہیں کہ اُن کی کتب خاصی عمدہ اور امتحانات کا انداز رٹّے کو فروغ دینے والا نہیں۔ آغا خان بورڈ نے آغاز میں ایک اونچی اُڑان بھری تھی لیکن پھر اُس کے بعد نجانے جیسے لہروں میں تلاطم نظر نہیں آیا اور سمندر پُر سکون ہوگیا۔ گزشتہ عرصے بہت کم اسکولوں کے بارے میں سنا کہ اُن کا الحاق آغا خان بورڈ سے بھی ہے۔ تاہم، اب ایسا لگتا ہے کہ اسکولوں میں آغا خان بورڈ کی طرف رجحان بڑھنا شروع ہوا ہے اور کئی بڑے اسکولوں نے آغا خان بورڈ سے الحاق کیا ہے۔ میں نے آغا خان بورڈ کی کچھ کتب دیکھی تھیں تو وہ بہت عمدہ تھیں۔
اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس سے منسلک ہونے کے بعد میں نے انٹرنیشنل بیکولوریٹ (International Baccalaureate)، مختصراً آئی بی، کا نام سنا لیکن یہ تعارف صرف اسی حد تک محدود رہا کہ یہ بھی ایک تعلیمی نظام ہے جو پاکستان میں اتنے محدود پیمانے پر ہیں کہ ناشرین یہاں کتابیں تیار کرنے کی بجائے بیرونِ ملک سے درآمد کرلیتے ہیں۔ [لفظ بیکولوریٹ (Bacculaureate) دراصل بیچلر ڈگری ہی کا مترادف ہے، اُردو میں ’’فاضل‘‘ کی سند۔]
اب بیکن ہاؤس اسکول سسٹم نے پاکستان میں آئی بی کو باقاعدہ متعارف کروانے کا عزم کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ۱۹۶۸ء میں تشکیل پانے والا یہ نظام پہلی بار پاکستان میں اب آ رہا ہے۔ جیساکہ میں نے پہلے ذکر کیا، گنتی کے چند اسکولوں میں یہ پہلے سے رائج تھا۔ بیکن ہاؤس کی انفرادیت یہ کہی جاسکتی ہے کہ یہ پہلا چین اسکول سسٹم ہے جو یہ نظام اپنا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس نظام میں ایسا کیا منفرد ہے؟ کیا یہ بھی کیمبرج اور آغا خان بورڈ جیسا ہی ایک نظام ہے؟
میں نے اپنی تحریر میں، اوپر جتنے نظامِ تعلیم و امتحانات کا ذکر کیا، اُن میں اور آئی بی میں چند ایک بنیادی امتیازی پہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ آئی بی صرف کتابیں، نصاب، اور امتحان کا نظام فراہم کرنے تک محدود نہیں ہے۔ آئی بی کی تنظیم پہلے ہر اسکول کی جانچ پڑتال کرتی ہے، آئی بی کا نصاب پڑھانے کے لیے رکھے جانے والے اساتذہ کی قابلیت کا معیار دیکھتی ہے، اسکول کا معیار دیکھتی ہے، اساتذہ کو تربیت کرواتی ہے، اُس کے بعد کسی اسکول کو اجازت ملتی ہے کہ وہ آئی بی نصاب پڑھا سکتا ہے اور اُس کے طلبا آئی بی کے امتحان میں قبول کیے جائیں گے۔ یہ شرط بھی ایسی کڑی ہے کہ ایک اسکول کو اجازت ملنے کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ اسکول کا مالک بعد ازاں جتنے بھی اسکول کھولے، سب میں آئی بی پڑھاسکے۔ ہر اسکول کے لیے الگ منظوری لینا لازمی ہے۔ اور ایک اسکول کو اجازت ملنے کا یہ مقصد بھی نہیں ہے کہ اب زندگی بھر کے لیے اسکول کا الحاق آئی بی سے ہوچکا۔ آئی بی تنظیم باقاعدگی سے اسکول کی کارکردگی پر نظر رکھتی ہے اور معیار سے نیچے آنے پر اسکول کا الحاق منسوخ بھی کیا جاسکتا ہے۔
دوسری امتیازی خصوصیات طلبا کو متنوع مضامین کا انتخاب کرنے کی آزادی ہے۔ طلبا کی دلچسپیوں اور رجحانات کے پیشِ نظر مضامین کو اس طرح زمروں میں رکھا گیا ہے کہ تعلیم کا حصول بھی ہو اور طلبا کی دلچسپی بھی قائم رہے۔
دیگر نظام ہائے تعلیم کی طرح آئی بی میں بھی تین درجات ہیں، پرائمری جسے ’آئی بی پرائمری ایئر پروگرام‘ کہا جاتا ہے (تین سے بارہ سال تک کے طلبا کے لیے)، سیکنڈری جسے ’آئی بی مڈل ایئر پروگرام‘ کہا جاتا ہے (گیارہ سے سولہ سال تک کے طلبا کے لیے)، اور ’ڈپلوما پروگرام‘ (۱۶ سے ۱۹ سال تک کے طلبا کے لیے)۔ ڈپلوما پروگرام روایتی تعلیمی بورڈ کے انٹرمیڈیٹ اور کیمبرج کے ’اے لیول‘ کے مساوی ہے۔ اس کے علاوہ آئی بی کیریئر سے متعلق بھی ایک پروگرام پیش کرتا ہے۔
آئی بی کے مثبت پہلو تو کئی ہیں، جیسے ہر پانچ سال میں نصاب پر نظرِ ثانی کی جاتی  ہے، کام یاب اور ناکام ہونے کا تصور دیگر نظاموں کی طرح نہیں ہے، بلکہ اگر آپ ایک مخصوص حد تک گریڈ لیتے ہیں تو آپ کو اختتام پر ڈپلومے کی ڈگری ملے گی، ورنہ کورس سرٹیفکیٹ دیا جائے، وغیرہ؛ لیکن ان سب کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر معاملات بھی ہیں۔
آئی بی اگرچہ مادری زبان کی اہمیت پر زور تو دیتا ہے، لیکن پاکستان میں تقریباً سبھی مضامین انگریزی میں پڑھائے جا رہے ہیں (سوائے کسی دوسری زبان کی تعلیم کے)۔ پاکستان میں مادری یا قومی زبان کے فروغ کے لیے آئی بی اسکولوں کا کردار صرف یہ ہے کہ وہ طلبا کو مادری زبان میں کتب خانے سے غیر نصابی کتب پڑھنے کی ترغیب دیں۔
ایک دوسری بات جس نے مجھے تھوڑا مایوس کیا، وہ بیکن ہاؤس کی جانب سے صرف ڈپلوما درجے کا پروگرام ہی پیش کرنا ہے۔  پرائمری اور مڈل درجے صرف ایک یا دو اسکولوں ہی میں موجود ہیں۔ اگرچہ بیکن ہاؤس کا موقف اپنی جگہ درست ہے کہ اس کے لیے اجازت نامے کا حصول اتنا آسان نہیں، لیکن میرے خیال میں کامیابی اُسی صورت میں مل سکے گی جب نظام کا ہر ہر حصہ دستیاب ہوگا۔ طالبِ علم کی بنیاد ابتدائی درجات ہی سے بنتی ہے۔
ایک اور پہلو، جس پر سب سے زیادہ خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے، وہ آئی بی اسکولوں کی ماہانہ فیس ہے جو تیس ہزار روپے سے زائد ہے۔ اس سے بعض لوگ یہ تاثر لیتے ہیں کہ اس طرح کے مہنگے نظامِ تعلیم ملک کے مختلف طبقوں کے درمیان حائل خلیج کو مزید وسیع کریں گے۔ یہ تاثر سو فی صد نہ درست ہے اور نہ غلط۔ میری رائے اس میں یہ ہے کہ تعلیم کی بنیادی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ ریاست چونکہ عوام سے ٹیکس لیتی ہے، اسی لیے وہ اس قابل ہوتی ہے کہ عوام کو تعلیم میں رعایت فراہم کرسکے۔ ایک نجی ادارے کا نہ یہ فرض ہے اور نہ ہی اُس کی استطاعت کہ وہ معیاری تعلیم کے لیے ماہانہ لاکھوں روپے خرچ کرے لیکن طلبا کو مفت یا برائے نام فیس میں تعلیم دے۔ کسی نجی ادارے کے لیے یہ ممکن ہی نہیں کیوں کہ اس کا ذریعۂ آمدنی اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ وہ نہ این جی او ہے کہ اُسے امداد ملتی ہو، نہ وہ ریاست ہے کہ وہ ٹیکس لیتا ہو۔
جب تک حکومت کے لال نیلے پیلے اسکول جاری رہیں گے اور وہاں سے غیر معیاری تعلیم دی جاتی رہے گی، نجی اداروں کی جانب سے بہتر نظامِ تعلیم کے لیے کوششیں کی جاتی رہیں گی اور طبقات کے درمیان خلیج وسیع ہوتی چلی جائے گی۔

Comments