Yes! We Did It! #UrduSMS

’’سمٹ کے اختتام پر، یا ہم خوشی سے قہقہے لگا رہے ہوں گے یا ایک دوسرے سے بھی منھ چھپا رہے ہوں گے۔‘‘ یہ بات فہد کیہر (ابوشامل) نے سمٹ سے دو روز قبل ملاقات میں کہی تھی۔
سمٹ کے ابتدائی اعلان سے لے کر آخری تیاریوں تک، میری شمولیت برائے نام ہی رہی تھی۔ پیشہ وارانہ اور گھریلو مصروفیات وقت ہی نہ دیتی تھیں کہ اپنے ساتھیوں کا بوجھ بانٹ سکوں۔ سمٹ کے حوالے سے جب جب کسی مصروفیت کی خبر ملتی، شرمندگی ہوتی کہ ایک بار پھر میں شامل نہ ہوسکا۔ صرف ایک پریس کانفرنس تھی، جس میں کسی نہ کسی طور شمولیت ممکن ہوسکی تھی۔ اور یوں ہی سمٹ کا دن آگیا۔
۸ مئی ۲۰۱۵ء، بروز جمعہ، پہلے بین الاقوامی اُردو سوشل میڈیا سمٹ ۲۰۱۵ء میں شرکت کے لیے شعیب صفدر (وکیل صاحب) کے ہمراہ جامعہ کراچی روانہ ہوا۔ نکلنے سے پہلے، فیس بک پر حتمی پروگرام دیکھا تو سب سے آخر میں اُردو سورس ایوارڈ کی میزبانی میں میرا نام لکھا ہوا تھا۔ دل کو تسلی ہوئی کہ یہ تو خیر کوئی مسئلہ ہی نہیں، صرف ایک ہی پروگرام تو ہے۔ نو بجے کے قریب سلیم الزماں صدیقی آڈیٹوریم (ایچ ای جے) پہنچے تو اسد اسلم انتظامات کو آخری شکل دے رہے تھے۔ باقی میزبان اور مہمان، سبھی جامعہ کراچی کے گیسٹ ہاؤس میں موجود تھے۔ عامر بھائی نے مجھے گیسٹ ہاؤس طلب کیا تھا، لہٰذا شعیب بھائی کی موٹر سائیکل لے کر روانہ ہوا۔ وہاں پہنچا تو زور و شور سے تیاریاں جاری تھیں۔ کوئی ناشتہ کر رہا تھا، کوئی غسل خانے میں تھا، اور کوئی غسل خانہ خالی ہونے کا منتظر۔ وہیں ناشتے کی میز پر ڈاکٹر اسلم فہیم، غلام عباس مرزا، غلام اصغر ساجد، مہتاب عزیز اور دیگر احباب سے ملاقات ہوئی۔ پھر بالائی منزل کے کمروں میں گیا تو فہد بھائی عجیب و غریب حالت میں نظر آئے۔ آنکھیں سوجی ہوئی، بال بکھرے ہوئے، لباس شکن آلود، اور چہرے پر کسی صورت سمٹ میں شریک ہونے کے آثار نہیں۔ کاشف نصیر ملے تو اُن کی آنکھیں بھی سرخ۔ کئی راتوں کی نیندیں اور آرام قربان کیے جانے کے آثار تمام منتظمین کے چہرے سے نہایت واضح تھے۔ غرض، گیسٹ ہاؤس کا سماں دیکھ کر کسی طرح یہ محسوس نہ ہوتا تھا کہ اب سے کچھ ہی دیر بعد ہماری اپنی کوئی تقریب ہے، ہم پہلا اردو سوشل میڈیا سمٹ منعقد کرنے جا رہے ہیں۔
وہاں تیاری تو خیر کیا ہوتی، کچھ سامان اُٹھا کر کاشف کی گاڑی میں رکھا، ڈاکٹر اسلم فہیم، غلام اصغر اور مہتاب عزیز بھی گاڑی میں سوار ہوئے اور ہم ایک بار پھر آڈیٹوریم پہنچے۔ وہ کوئی پونے دس بجے کا وقت تھا اور آڈیٹوریم میں خاصے شرکا موجود تھے اور مسلسل آمد جاری تھی۔ اس دوران مجھے یہ ہوش رُبا اطلاع دی جاچکی تھی کہ کسی ایک آدھ سیشن کی نہیں، مکمل سمٹ میں نظامت کے فرائض مجھے ہی انجام دینے ہوں گے، اور میری معاونت کے لیے جامعہ کراچی کی دو طالبات اور ایک طالبِ علم موجود ہوں گے۔ طلبا سے ملاقات کروائی گئی تو وہ صرف دو ہی تھے، عمیر اور عائشہ، اور وہ تلاوت و نعت، اور پروفیسر ڈاکٹر وحید الرحمان سے متعلق نشست کی ایک ساتھ میزبانی کا اسکرپٹ بھی لکھ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ یعنی، باقی تمام تقریب میری ذمہ داری تھی۔
اردو سوشل میڈیا سمٹ میں نظامت کے فرائض نبھاتے ہوئے
تقریباً دس بجے ہم سمٹ کا آغاز کرنے کے لیے پوری طرح تیار تھے؛ اگرچہ ہمارے بعض میزبان اور بعض مہمان اب تک آڈیٹوریم پہنچ نہ سکے تھے۔ تاہم عمیر انصاری (معلم، شعبۂ ابلاغِ عامہ، جامعہ کراچی) کا اصرار تھا کہ وائس چانسلر صاحب کی آمد کا انتظار کیا جانا چاہیے۔ مجھ سے کئی بار کہا گیا کہ ساڑھے دس بجے پروگرام شروع کرنے کا اعلان کردیں، لیکن اپنے سامنے اتنے سارے شرکا کو پہلے ہی انتظار کروانے کے بعد مجھ میں یہ ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ اُن سے پہلی بار مخاطب ہوں تو تب بھی اُنھیں مزید انتظار کا کہوں۔ کراچی بار کے جنرل سیکریٹری، منظور حمید آرائیں صاحب خاصے پہلے تشریف لے آئے تھے، دو سو سے زائد طلبا بھی موجود تھے۔ آخر، ہمت کرکے اعلان کر ہی دیا کہ کچھ ہی دیر میں سمٹ کا آغاز ہوگا۔
اِدھر ہم بار بار اپنے طے شدہ نظام الاوقات کا جائزہ لے کر یہ پریشان ہو رہے تھے کہ مہمان مقررین کی بڑی تعداد موجود نہیں، اُدھر جامعہ کراچی کے داخلی راستوں پر رینجرز کے اہل کاروں کی جانب سے کسی غلط فہمی کی بنا پر مہمانوں کو روکا جا رہا تھا اور منتظمین اس معاملے کو حل کرانے میں بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ آڈیٹوریم میں منتظمین کی جانب سے میرے ساتھ صرف کاشف موجود تھے اور ہم دونوں اس الجھن میں تھے کہ پروگرام کا آغاز کیسے ہوگا۔
دس بج کر بیس منٹ پر فیصلہ کیا کہ اب سمٹ کا آغاز ہوجانا چاہیے۔ عمیر اور عائشہ نے تلاوتِ قرآن کے لیے جامعہ ہی کے ایک طالبِ علم کو دعوت دی۔  بعد ازاں، نعتِ رسولِ مقبول پیش کرنے کے لیے اپنے ایک ساتھی جون علی کو بلایا۔ سبحان اللہ، کیا ہی خوب صورت آواز اور کیا ہی عمدہ انداز تھا۔ سماں بندھ گیا۔ اسی دوران، کاشف نصیر دوڑے آئے اور مجھ سے فوراً سمٹ کی نظامت سنبھالنے کو کہا۔
نعت کے بعد، میں نے اُردو سورس کی جانب سے تمام مہمانانِ گرامی اور محترم شرکا کو خوش آمدید کہتے ہوئے اُن کی آمد کا شکریہ ادا کیا اور پہلے مقرر، جناب ڈاکٹر محمود غزنوی صاحب کو دعوت دی جو شعبۂ ابلاغِ عامہ، جامعہ کراچی کے صدر نشین ہیں۔ بس، اُس کے بعد تو جیسے پروگرام رواں ہوتا چلا گیا۔ شروع شروع میں، اکثر یہ پریشانی لاحق ہوئی کہ پروگرام کے مطابق جس مہمان کو اب دعوت دینی ہے، وہ موجود نہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے ہمیں شرمندہ ہونے سے بچایا۔ ہر وقت دو سے تین مہمان مقررین موجود رہے۔ حتاکہ نمازِ جمعہ اور ظہرانے کے لیے وقفے سے پہلے نشست ختم کرنا ہمارے لیے مشکل ہوگیا کہ مقررین زیادہ باقی تھے اور وقت کی نہایت قلت۔ نہ چاہتے ہوئے بھی مقررین کو ’’وقت ختم‘‘ ہونے کی چٹھیاں بھجوانی پڑیں۔
ظہرانے کا اہتمام اس قدر عمدہ اور بڑے پیمانے پر تھا کہ مجھے دیکھ کر حیرانی ہوئی۔ مزیدار بریانی، چکن کڑاہی، روٹی و تافتان، کھیر، سوفٹ ڈرنک، کسی چیز کی کمی نہیں تھی اور ہر چیز بے حد لذیذ بنی ہوئی تھی۔ احباب کھانا تناول کرتے رہے اور بات چیت بھی چلتی رہی۔ تصویریں بھی خوب کھینچی گئیں۔
ظہرانے کے بعد کاشف حفیظ کی باری تھی۔ لیکن عین وقت پر پتا چلا کہ اُن کا لیپ ٹاپ مل کر نہیں دے رہا ہے اور لیپ ٹاپ پر موجود پریزنٹیشن کے بغیر وہ اپنا مدعا پیش نہیں کرسکیں گے۔ اس دوران ہم نے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے نائب صدر خورشید تنویر صاحب کو اظہارِ خیال کی دعوت دے دی۔ جب وہ اختتامی کلمات ادا کر رہے تھے تو میں اس الجھن میں مبتلا تھا کہ اب کیا ہوگا؟ کاشف حفیظ کا لیپ ٹاپ مل کر نہیں دے رہا تھا اور اگلی نشست کے لیے مہمان پورے نہیں تھے۔ وہ بڑا عجیب مرحلہ تھا۔ ایک عجب احساسِ ندامت۔ میں روسٹرم سے دور چھپنے کی کوشش کر رہا تھا کہ عمیر انصاری نے مائک میں میرا نام پکار لیا کہ عمار، یہاں آجائیں۔ تب تو جانا ہی پڑا۔ مرے ہوئے قدموں کے ساتھ جب پہنچا تو اُنھوں نے بتایا کہ کاشف حفیظ کا لیپ ٹاپ مل گیا ہے، یہیں ڈائس کی اوٹ میں رکھا تھا۔ جان میں جان آئی۔ کاشف حفیظ کو دعوت دی۔ اُن کا اندازِ تخاطب اتنا دلنشین تھا کہ پورے مجمعے کے ساتھ ساتھ میں بھی ذہنی دباؤ سے نکل آیا اور مطمئن ہوکر بیٹھ گیا۔
ظہرانے سے قبل، پہلی نشست کے اختتام پر مجھے یہ خیال ستا رہا تھا کہ جامعہ کے بیشتر طلبا اب چلے جائیں گے اور آڈیٹوریم خالی ہوجائے گا، لیکن یہاں بھی خدشات غلط ثابت ہوئے۔ اللہ کا شکر ہے کہ شرکا کی تعداد پہلے جیسی ہی رہی اور آڈیٹوریم بھرا رہا۔
اس موقع پر بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی ایڈیٹوریل سروس کے سربراہ، عامر احمد خان کے معاملے میں بھی ایک غلط فہمی پیدا ہوئی۔ ہوا یہ کہ جب عامر صاحب کو بلانا تھا تو اُن کے بالکل درست عہدے کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئی تھی، لہٰذا میں نے نہایت محتاط الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے اُنھیں بی بی سی کا نامہ نگار کہہ کر متعارف کروایا۔ خود عامر صاحب نے تو اپنی تقریر میں کوئی اعتراض نہیں کیا، بلکہ اُنھوں نے بہت عمدگی سے اپنا مدعا پیش کیا، لیکن اُن کے ساتھ آئے ایک صاحب نے خاصا شور مچایا اور کاشف سے کہا کہ عامر صاحب کا عہدہ غلط بتایا گیا ہے اور اس کی تصحیح لازمی ہے۔ کاشف نے مجھے بتایا کہ عامر احمد خان بی بی سی اردو کی سوشل میڈیا ٹیم کے سربراہ ہیں اور اس کی وضاحت کر دی جائے۔ چناں چہ اگلے مقرر کو بلانے سے پہلے میں نے اس غلطی کی وضاحت کر دی۔ جب واپس پیچھے آیا تو عامر صاحب کے ساتھ آئے ہوئے موصوف ایک بار پھر غصے کا اظہار کر رہے تھے کہ غلطی کی تصحیح کی بجائے ایک بار پھر غلطی کر دی گئی۔ عامر صاحب سے بات ہوئی تو اُنھوں نے بڑے آرام سے وضاحت کی کہ وہ بی بی سی اُردو کی ایڈیٹوریل سروس کے سربراہ ہیں۔ بہ ہر حال، وہ تو چلے گئے اور پروگرام آگے بڑھتا رہا۔ لیکن جب ’’روایتی میڈیا اور سوشل میڈیا ایک ساتھ‘‘ کے موضوع پر مہتاب عزیز نے نشست کا آغاز کیا تو بی بی سی اُردو سے وابستہ صحافی وسعت اللہ خان نے ابتدا ہی کاٹ دار جملوں سے کی اور اس میں سب سے پہلا اعتراض عامر احمد خان کا غلط تعارف کروانے کے بارے میں تھا۔ حتاکہ غلطیاں گنوانے میں وہ یہی بھول گئے کہ اُن سے اصل سوال کیا گیا تھا اور اُنھیں سوال دہرانے کی درخواست کرنی پڑی۔ لیکن، اس کے بعد وہ نشست بہت عمدگی سے آگے بڑھی، شریک مہمانوں نے کھل کر صحافتی مجبوریوں اور سوشل میڈیا کی آزادی کا تذکرہ کیا اور ہم سب پیچھے بیٹھے ہوئے خوش ہوتے رہے کہ مہتاب عزیز کتنے بہترین طریقے سے اتنا اہم سیشن پیش کر رہے ہیں۔
اس سیشن کے بعد، چوں کہ مجھے اگلے اور آخری مقرر یعنی آئی بی اے کے استاد پروفیسر ڈاکٹر نعمان الحق صاحب کو دعوتِ خطاب دینی تھی، لہٰذا وسعت اللہ خان کے سخت جملوں کی کاٹ کے ساتھ مجھے سب کے سامنے جانا ہی پڑا۔ لیکن تب تک میرے ذہن میں ایک بات پیش کرنے کا خیال آچکا تھا۔ مجھے بچپن میں ابو نے یہ مثال دی تھی کہ افواہ کیسے پھیلتی ہے۔ قصہ یوں تھا کہ ایک استاد نے اپنی جماعت کے طالب علموں کو افواہ پھیلنے کا طریقہ سمجھانے کے لیے کہا کہ وہ جماعت کے سب سے آگے بیٹھے ہوئے طالبِ علم کے کان میں ایک بات کہیں گے اور وہ اُسے پچھلے طالبِ علم کو بتائے گا، اور پچھلا طالبِ علم اپنے سے پیچھے بیٹھے ہوئے کو۔ جب بات سب سے آخری طالبِ علم کے کان میں پہنچے گی تو اُس سے اور سب سے آگے بیٹھے ہوئے طالبِ علم سے پوچھا جائے گا کہ وہ بات بتائیں جو اُنھیں بتائی گئی۔ چناں چہ، اُستاد نے سب سے پہلے طالبِ علم کے کان میں کہا کہ میری والدہ کی طبیعت خراب ہے۔ اُس نے یہ بات اپنے سے پیچھے بیٹھے ہوئے کو بتائی، اور اُس نے آگے بڑھائی۔ ہر طالبِ علم اس بات میں اپنی طرف سے مرچ مسالا شامل کرتا رہا، ایک نے کہا کہ طبیعت بہت خراب ہے، اگلے نے کہا کہ ہسپتال میں داخل ہیں، اگلے نے اُنھیں بسترِ مرگ پر بتایا، اور جب آخری طالبِ علم سے پوچھا گیا کہ اُس تک کیا بات پہنچی تو اُس نے بتایا کہ، سر، مجھے پتا چلا ہے کہ آپ کی والدہ کا انتقال ہوگیا ہے۔ یہ قصہ پیش کرکے میں نے وضاحت کی کہ عامر احمد خان کے معاملے میں یہی کچھ ہوا کہ ایک نے دوسرے سے کچھ کہا، دوسرے نے تیسرے سے کچھ کہا، اور وہ ’’کچھ‘‘ مجھ تک پہنچتے پہنچتے ’’کچھ اور‘‘ ہی بن گیا، جس پر معذرت خواہ ہوں۔
ڈاکٹر نعمان الحق صاحب نے بھی خاصی معلوماتی باتیں کیں۔ بعد ازاں اُردو سورس ایوارڈز دیے گئے۔ آخر میں ایک بار پھر حیرانی سے دوچار ہونا پڑا جب عصرانے کے اہتمام کی خبر سنائی گئی اور عصرانے میں چائے کے ساتھ ساتھ سوفٹ ڈرنک بھی موجود تھی۔ گویا اُردو سورس نے اپنی جانب سے کوئی کسر نہ چھوڑنے کا عزم کر رکھا تھا۔
فہد بھائی نے سمٹ سے پہلے کہا تھا کہ ’’سمٹ کے اختتام پر، یا ہم خوشی سے قہقہے لگا رہے ہوں گے یا ایک دوسرے سے بھی منھ چھپا رہے ہوں گے‘‘ اور جب ہم واپس لوٹ رہے تھے تو خوشی سے قہقہے لگا رہے تھے۔

وضاحت:

یہ تحریر اُردو سوشل میڈیا سمٹ ۲۰۱۵ء کی مکمل تصویر پیش نہیں کرتی۔ میں چوں کہ نظامت کی ذمہ داری میں الجھا ہوا تھا، اس لیے میری زیادہ تر توجہ اسی جانب مرکوز رہی اور میں باقی اُمور کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں دے سکا۔ درحقیقت، اُردو سورس کے گنتی کے چند منتظمین بیشتر وقت بھاگ دوڑ ہی میں مصروف رہے تاکہ باقی تمام شرکا محظوظ ہوسکیں۔ سمٹ کے بارے میں مزید تفصیلات جاننے کے لیے درج ذیل روابط کا مطالعہ مفید رہے گا:

Comments

  1. خوب عمار بھائی۔ آپ کی نظامت نے ہی اس تقریب کو چار چاند لگائے

    ReplyDelete
    Replies
    1. بہت شکریہ فہد بھائی۔ تقریب کی کامیابی میں میری نظامت کا حصہ بہت تھوڑا تھا۔ یہ دراصل آپ احباب کی محنت تھی۔

      Delete
  2. چلوکسی نے تو شادی میرامطلب ہے سمٹ کے کھانے کی تفصیل بھی بتائی مجھے تو پریس کانفرنس سے شادی کا ماحول لگنے لگا کیونکہ اُسی روز جہانزیب اشرف اور محب علوی سے تیاریوں اور دیگرامورپہ یوں بات ہوئی گویا ہم سب شادی کے گھرمیں مہمان بن کے جانے والے ہیں - اب ذکر آپ کی تحریرکا تو بھلا ہو اُس کا جس نے قصہ موٹرسائیکل کا میں ٹیگ نما جملہ ہم پہ کس کے آپ کی جانب متوجہ کیا- توبھائی آپ خُوب منظرنگاری کرتے ہیں ایسی کے پڑھنے والا خود کو وہاں پاتاہے اور آپ کےساتھ تمام معاملات میں شریک محسوس کرتا ہے -

    ReplyDelete
    Replies
    1. ہاہاہا۔۔۔ زبیر بھائی، کھانے کے عمدہ اہتمام کے پیشِ نظر اس کا حق تھا کہ تذکرہ کیا جاتا۔
      اندازِ تحریر پسند کرنے کا شکریہ۔ بس آپ چند احباب کی محبتوں نے ہی تو بگاڑ رکھا ہے کہ ہم ویب صفحات کالے پیلے رنگ برنگے کیے جا رہے ہیں۔ :) لکھے جا رہے ہیں۔

      Delete
  3. دلچسپ احوال، پڑھ کر مزہ آیا۔ ٹیم ورک کی عمدہ مثال۔ تقریب کی نظامت کا کام کافی ہمت کا متقاضی تھا جو خوب نبھایا، زبردست۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. بہت شکریہ خاور بھائی۔ واقعی یہ سمٹ ٹیم ورک کی عمدہ مثال تھی۔ ہر ایک فرد اُس دن انگوٹھی میں نگینے کی طرح جڑا ہوا اور خلوص و لگن کے ساتھ کام کرتا ہوا نظر آیا۔

      Delete

Post a Comment