Nellie Bly

گوگل ڈوڈل پر ۵ مئی کو نیللی بیلے چھائی رہیں۔ جی، یہ کسی موسمی کیفیت کا نہیں، بل کہ ایک موصوفہ کا نام ہے جو صحافت میں اپنے منفرد کردار کے باعث شہرت رکھتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ گوگل نے  ۵ مئی ۲۰۱۵ کا ڈوڈل اُن کی ۱۵۱ویں سال گرہ کے نام کیا ہے۔
۵ مئی ۱۸۶۴ کو پنسلوانیا کے مضافاتی علاقے میں پیدا ہونے والی نیللی بیلے (Nellie Bly) کا اصل نام الزبتھ جین کوچرن تھا۔ اُن کا تعلق ایک متوسط گھرانے سے تھا، اور والد ایک کارخانے میں مزدور تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اُنھوں نے بورڈنگ اسکول میں داخلہ تو لیا لیکن مالی مشکلات کے باعث اُسے جاری نہ رکھ سکیں اور جلد ہی چھوڑنا پڑا۔
۱۸۸۰ میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ پٹزبرگ (Pittsburgh) منتقل ہوگئیں۔ اس منتقلی نے اُن کی زندگی کی راہیں متعین کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک دن ’پٹزبرگ ڈسپیچ‘ نامی اخبار میں اُنھوں نے ایک مضمون، بعنوان ’’لڑکیاں کاہے کی اچھی ہیں؟‘‘ (What Girls Are Good For?)، پڑھا جو خواتین کے خلاف خاصا جارحانہ انداز میں لکھا گیا تھا۔ الزبتھ نے مضمون کا نہایت جوشیلا اور جذباتی رد لکھ کر ’تنہا یتیم لڑکی‘ (Lonely Orphan Girl) کے قلمی نام سے ایڈیٹر کو ارسال کردیا۔ ایڈیٹر کو مضمون نے خاصا متاثر کیا اور اُنھوں نے باقاعدہ ایک اشتہار کی اشاعت کے ذریعے ترغیب دی کہ مصنف اپنی اصل شناخت ظاہر کرے۔ الزبتھ کے سامنے آنے پر ایڈیٹر نے اُنھیں پیشکش کی کہ وہ مستقل بنیادوں پر اخبار کے لیے لکھ سکتی ہیں۔ جب الزبتھ نے اپنا پہلا مضمون ’معما لڑکی‘ (The Girl Puzzle) لکھا تو ایڈیٹر اتنا متاثر ہوئے کہ اُنھیں اخبار میں کُل وقتی ملازمت دے دی گئی۔ اُس زمانے میں خواتین صحافی اپنے قلمی نام سے لکھا کرتی تھیں چناں چہ الزبتھ کے ایڈیٹر نے اُن کے لیے نیللی بیلے کا قلمی نام تجویز کیا اور یہی الزبتھ کی پہچان بن گیا۔
شروع میں نیللی کی تحاریر کا مرکز کام کرنے والی عورتوں کی ابتر صورتِ حال رہی۔ لیکن ادارتی دباؤ کے تحت اُنھیں ’’صفحاتِ خواتین‘‘ کی ذمہ داری دے دی گئی جہاں اُن کا کام فیشن، سماج اور باغ بانی سے متعلق موضوعات کا احاطہ کرنا تھا۔ اس کام سے عدم اطمینان کے باعث نیللی نے میکسیکو جاکر غیر ملکی نامہ نگار کی حیثیت سے کام کرنے کی ٹھان لی۔ صرف ۲۱ سال کی عمر میں، نیللی آدھ سال میکسیکو میں گزار کر میکسیکو کے لوگوں اور اُن کے رسم و رواج کے بارے میں کئی تحاریر لکھ چکی تھیں جو بعد ازاں ’’میکسیکو میں چھ ماہ‘‘ (Six Months in Mexico) کے عنوان سے ایک کتاب کی صورت میں بھی شائع ہوئیں۔ اُنھوں نے اُس وقت کے میکسیکو آمر کی جانب سے مقامی صحافیوں کو پابند سلاسل کرنے پر ایک روداد میں احتجاج بھی کیا، جس کی اطلاع ملتے ہی میکسیکو کے حکام نیللی کی گرفتاری کے درپے ہوگئے۔ چناں چہ اُنھیں میکسیکو چھوڑنا پڑا۔
وطن واپسی پر نیللی کو ایک بار پھر تھیٹر اور آرٹس سے متعلق صحافتی ذمہ داریاں دے دی گئیں جن سے تنگ آکر اُنھوں نے ۱۸۸۷ میں پٹزبرگ ڈسپیچ کو خیرباد کہہ کر نیو یارک شہر کی راہ لی۔چار مہینے تک پائی پائی کو محتاج رہنے کے بعد اُنھوں نے ’دی نیو یارک ورلڈ‘ اخبار میں بات چیت کی اور ایک خفیہ ذمہ داری قبول کی جس کے تحت اُنھیں پاگل ہونے کی اداکاری کرتے ہوئے بلیکویل جزیرے پر قائم خواتین کے پاگل خانے میں پہنچنا تھا اور وہاں خواتین پر ظلم و ستم کیے جانے سے متعلق خبروں کی حقیقت جاننی تھی۔
آئینے کے سامنے ایک رات خوب مشق کے بعد نیللی نے ایک بورڈنگ ہاؤس میں چیک ان کیا، لیکن سونے کے لیے جانے سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہاں کے لوگ اُنھیں پاگل لگ رہے ہیں۔ اس حرکت سے وہ لوگ اس نتیجے پر پہنچے کہ نیللی خود پاگل ہے، چناں چہ اگلی صبح اُنھوں نے پولیس کو اطلاع کردی۔ کمرۂ عدالت میں نیللی نے خود کو نسیان کا مریض ظاہر کیا۔ کئی ڈاکٹروں سے جانچ کروائی گئی اور سبھی اس متفقہ نتیجے پر پہنچے کہ نیللی پاگل ہے۔ اُن کے پاگل پن پر جب بیلیویو ہسپتال میں شعبۂ دیوانگی کے سربراہ نے بھی جب مہرِ تصدیق ثبت کردی تو اُنھیں اُن کی منزلِ مقصود تک پہنچا دیا گیا۔
یوں، نیللی نے وہاں کی صورتِ حال کا مشاہدہ بذاتِ خود کیا۔ وہاں کھانا پتلے دلیے، خراب گوشت، گھٹیا ڈبل روٹی، اور ناقابلِ نوش آلودہ پانی پر مشتمل تھا۔ خطرناک مریضوں کو رسیوں سے کس کر باندھا جاتا، کھانے کی جگہ پر بچا کھچا کھانا بکھرا پڑا رہتا، چوہے ہر جگہ مٹر گشت کرتے پھرتے، کوڑے دان منھ تک بھرے رہتے، اور نہانے کا پانی یخ سرد ہوتا۔ ہسپتال میں مریضوں کے ساتھ نرسوں کا رویہ نہایت برا تھا، وہ اُنھیں خاموش رہنے کا کہتیں، اور اگر وہ خاموش نہ ہوتے تو اُن کے ساتھ مارپیٹ کرتیں۔
۱۰ دن بعد نیللی کو اخبار کی ایما پر رہا کردیا گیا۔ بعد ازاں اُن کی روداد ’’پاگل خانے میں دس دن‘‘ (Ten Days in a Mad-House) کے عنوان سے ایک کتاب کی صورت میں شائع ہوئی جس نے ہر جگہ تہلکہ مچا دیا اور نیللی کو شہرتِ دوام عطا کی۔
نیللی کی شہرت کا سفر یہیں ختم نہیں ہوا بل کہ اس کے بعد، ۱۸۸۰ میں نیللی کی ذہن میں ایک اور منفرد خیال آیا۔ فرانسیسی ناول نگار، شاعر اور ڈراما نگار، جولز ورن کے تحریر کردہ ناول ’’۸۰ دن میں دنیا کا سفر‘‘ (Around the World in Eighty Days) کا مرکزی کردار فلیز فوگ ۸۰ دن میں دنیا کے گرد چکر لگاتا ہے؛ اسی سے ترغیب پا کر نیللی نے ’نیو یارک ورلڈ‘ کے ایڈیٹر کو تجویز دی کہ کیوں نہ وہ فلیز فوگ کے خیالی سفر کو پہلی بار حقیقت کا روپ دیں۔ چناں چہ ایک سال بعد، ۱۴ نومبر ۱۸۸۹ کو صبح نو بج کر چالیس منٹ پر نیللی ۲۴ ہزار ۸۹۹ میل طویل اپنے اس انوکھے سفر پر روانہ ہوگئیں۔ اس سفر کے لیے اُنھوں نے اپنے ساتھ اپنی تقریباً تمام تر نقدی (۲۰۰ انگریزی بینک نوٹ، سونا، اور کچھ امریکی کرنسی) ایک چھوٹے بیگ میں رکھ کر اُسے اپنی گردن کے گرد لپیٹ لیا، اور انتہائی مختصر سامان اپنے ہمراہ رکھا۔
نیو یارک کے ایک دوسرے اخبار ’کوسموپولیٹن‘ نے بھی اسی طرز پر اپنی ایک نامہ نگار،  الزبتھ بسلینڈ کو اپنے خرچے پر دنیا کے سفر پر روانہ کیا تاکہ وہ فلیز فوگ اور نیللی، دونوں کو شکست دے۔ بسلینڈ نے نیللی کی مخالف سمت میں دنیا کا سفر کرنا تھا۔ اس تمام تر واقعے میں لوگوں کی دلچسپی برقرار رکھنے کے لیے ’دی ورلڈ‘ نے ایک انعامی مقابلے کا بھی اعلان کر ڈالا جس میں قارئین کو نیللی کی اگلی منزل پر پہنچنے کے وقت سے متعلق تکے لگانے ہوتے تھے اور صحیح جواب والے کو انعام ملنا تھا۔
دنیا کے گرد اپنے چکر کے دوران، نیللی برطانیہ، فرانس، برندیزی (اٹلی)، نہرِ سوئز، کولمبو، پینانگ، سنگاپور، ہونگ کونگ اور جاپان گئیں۔ فرانس میں اُنھوں نے جولز ورن سے بھی ملاقات کی جن کی کہانی نے اُنھیں یہ انوکھا خیال سجھایا تھا۔ نیللی نے سفر کے لیے بادبانی کشتیوں اور ریلوے نظام کا سہارا لیا۔ اُس وقت سب میرین کیبل نیٹ ورک اور برقی ٹیلی گراف اپنی ارتقا کی منازل طے کر رہے تھے، اور نیللی کے لیے صرف مختصر روداد بھیجنا ہی ممکن ہوتا تھا جو اکثر کئی کئی ہفتے تاخیر سے پہنچتی تھی۔
ایشیا میں ذرائع نقل و حمل کی تاخیر اور بحر الکاہل عبور کرنے کے دوران موسم خراب ہونے کے باعث نیللی کو مقررہ وقت سے کہیں زیادہ لگ گیا اور وہ دو دن تاخیر کے ساتھ، ۲۱ جنوری ۱۸۹۰ کو سان فرانسسکو پہنچیں۔ تاہم اُن کے اخبار کے مالک نے نیللی کو گھر لانے کے لیے خاص طور پر ایک ٹرین کے انتظامات کیے اور ۲۵ جنوری کو نیللی واپس آگئیں۔ یوں نیللی نے پہلی بار ۷۲ دن میں دنیا کے گرد چکر لگانے کا اعزاز اپنے نام کرلیا۔
دوسری طرف بسلینڈ اُس وقت تک بحرِ اوقیانوس عبور کر رہی تھیں اور ساڑھے چار دن کی تاخیر کا شکار تھیں۔ چند ماہ بعد جورج فرانسز ٹراین نے ۶۷ دن میں دنیا کا سفر کرکے یہ ریکارڈ توڑ دیا۔ ۱۹۱۳ میں جیگر شمٹ، ہنری فریڈرک اور جون ہنری میئرز نے ۳۶ سے بھی کم دن میں دنیا کے گرد چکر لگا کر ایک نیا ریکارڈ قائم کرلیا۔
۱۸۹۵ میں نیللی نے ایک ارب پتی صنعت کار روبرٹ سیمین سے شادی کرلی۔ شادی کے وقت نیللی کی عمر ۳۱ سال تھی جب کہ روبرٹ ۷۳ سال کے تھے۔ شادی کے بعد نیللی نے صحافتی دنیا کو خیرباد کہہ دیا اور آئرن کلیڈ مینوفیکچرنگ کمپنی میں کرسیِ صدارت سنبھال لی۔ ۱۹۰۴ میں اُن کے شوہر کا انتقال  ہوگیا۔ اس کمپنی سے منسلک رہتے ہوئے نیللی نے کئی چیزیں ایجاد کیں جو اُن کے نام سے پیٹنٹ ہیں؛ اگرچہ یہ ایجادات تنازعات کا شکار رہیں اور شکوک و شبہات ظاہر کیے گئے کہ دراصل یہ ایجادات دوسرے لوگوں نے کی تھیں اور نیللی نے رقم کے عوض انھیں خرید لیا تھا۔ ۱۹۲۲ میں نیللی وفات پاگئیں۔ موت کے وقت اُن کی عمر ۵۷ برس تھی۔

Comments