BLOG TV - Mian Iftikhar (B.C., M.C.)

السلام علیکم حاضرین، ناظرین، سامعین (اور دراصل قارئین)
میں ہوں آپ کا جانا پہچانا میزبان اور آپ دیکھ (پڑھ؟) رہے ہیں بلاگ ٹی وی کی خصوصی نشریات ’’ایک تو چوری اوپر سے سینہ زوری‘‘۔
ناظرین! آپ نے بہت سے چوروں کو دیکھا یا اُن کے بارے میں پڑھا یا سنا ہوگا۔ بعض چھوٹی موٹی چیزیں چراتے ہیں، بعض تھوڑی بڑی، بعض پورے پورے انسان چرا لیتے ہیں، اور انتہا یہ ہے کہ بعض چور ملکی خزانہ بھی چرا کر رفوچکر ہوجاتے ہیں۔ چوری کے مختلف پیمانوں کی بنیاد پر چوروں کی اقسام بیان کی جاتی ہیں، لیکن اصلی اور خاندانی چوروں کی ایک نمایاں خصوصیت اُن کی سینہ زوری ہے۔ جی ہاں، چوری اور پھر سینہ زوری۔
آپ جانتے ہی ہیں کہ بلاگ ٹی وی کا یہ پروگرام نئے نئے چوروں کو بے نقاب کرتا رہا ہے۔ آج ایسے ہی ایک سینہ زور چور کو ہم نے اپنی خصوصی نشریات میں مدعو کیا ہے۔ یہ ایک منفرد قسم کے چور ہیں۔ یہ مال نہیں چراتے، یہ چیزیں نہیں چراتے، یہ انسان یا حکومتی خزانے نہیں چراتے؛ لیکن یہ سب نہ چرانے کی وجہ یہ ہے کہ ان کو یہ چیزیں چرانے کا موقع نہیں ملتا۔ ان کا بس نہیں چلتا ورنہ یہ سبھی کچھ چرالیتے۔ اپنی اوقات کے مطابق ان کا بس صرف دوسروں کی تخلیقات پر چلتا ہے۔ چناں چہ یہ دوسروں کی تخلیقات اور تحاریر چراتے ہیں۔ جہاں کسی تحریر پر ان کا جی آیا، وہ فوراً اٹھا کر اپنے نام سے شائع کردی۔ جہاں کوئی تحریر اچھی لگی، مصنف یا لکھاری کا نام مٹایا اور اپنا نام لکھ کر اُس کی تشہیر کرتے پھرے۔ تو بآوازِ بلند ’بی سی! بی سی!‘ کے نعروں میں استقبال کیجیے، میاں افتخار، بی سی، ایم سی کا۔ (بی سی یعنی بلاگ چور اور ایم سی یعنی مشہور چور، آپ کیا کچھ اور سمجھے؟ آپ کی مرضی ہے بھئی)

میزبان: کیسے ہیں آپ؟
افتخار چور: بہت مشہور و معروف۔ سبحان اُس کی قدرت کہ میرے بلاگ کے وزیٹرز کی تعداد صرف ایک سال میں چار لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔ بڑے بڑے بلاگوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے میں نے۔
میزبان: بی سی، آپ کے بلاگ کی مقبولیت کا راز کیا ہے؟
افتخار چور: دیکھیں جناب، دراصل میں اپنے بلاگ پر محنت بہت کرتا ہوں۔ آپ میرا بلاگ دیکھیے، روزانہ ایک سے دو نئی تحاریر موجود ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ میں ’ایس ای او‘ (S.E.O) ایکسپرٹ بھی ہوں۔ تو کچھ اس ہنر کا بھی استعمال کرتا ہوں۔
میزبان: گزشتہ دنوں کئی بلاگروں کی جانب سے یہ الزام لگایا گیا کہ افتخار چور اُن کے بلاگ سے تحاریر چرا کر اپنے بلاگ پر شائع کر رہا ہے۔ اس الزام میں کتنی صداقت ہے؟
افتخار چور: ہاہاہاہا! تحاریر کی چوری! بھئی، چوری سامان کی ہوتی ہے، دولت کی ہوتی ہے، تحاریر کی چوری کب ہوتی ہے؟ اگر ہوتی بھی ہے تو یہ جو ہوتی ہے وہ چوری ہے؟ ہاہاہا۔۔۔ یہ تو میں نے پہلی بار سنا ہے۔ میرے قہقہے نہیں رک رہے۔
میزبان: آپ آرام سے تشریف رکھیں، ورنہ کچھ دیر میں اوپر کے قہقہے رکنے کے بعد آپ کے نیچے سے جو قہقہے نکلیں گے، وہ بھی نہیں رکیں گے۔
(افتخار چور نے اپنے ہونٹوں پر ’مڈل فنگر‘ رکھ لی)
میزبان: گزشتہ دنوں آپ نے معروف بلاگر ڈاکٹر افتخار راجہ صاحب کے بلاگ سے ایک تحریر ’’ہنزہ، خوبانیاں اور کینسر‘‘ چرائی، پھر ایک اور اُردو بلاگر عمار ابنِ ضیا کے بلاگ سے ایگزیکٹ کے بارے میں نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ کااردو ترجمہ اور نیللی بیلے سے متعلق تحریر چراکر اپنے بلاگ پر شائع کی اور اُن کا حوالہ تک نہیں دیا، جس پر ان دونوں بلاگروں نے آپ سے شکوہ بھی کیا۔ آپ کے پاس اس کا کیا جواب ہے؟
افتخار چور: ہیں جی! آپ نے مجھ سے کچھ پوچھا ہے؟
میزبان: جی ہاں! آپ ہی سے پوچھا ہے، م ک ل۔ (م ک ل، یعنی ماں کا لاڈلا۔ باقی، اگر آپ نے کچھ اور سوچا تو وہ بھی ٹھیک ہی ہوگا)
افتخار چور: دیکھیں جی، میرا بلاگ روزانہ سیکڑوں لوگ پڑھتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں روز کے پیج ویوز ہیں۔ اگر میں نے کسی کی کوئی تحریر اپنے بلاگ پر لگا دی تو اس میں کسی کا کیا جاتا ہے۔ زیادہ لوگ اس سے مستفید ہوں گے۔
میزبان: لیکن وہ بلاگر جب خود نہیں چاہ رہے کہ آپ ایسا کریں،  اور آپ ان تحاریر پر اُن کا حوالہ بھی نہیں دے رہے، تو آپ انھیں اپنے بلاگ سے ہٹا کیوں نہیں دیتے؟
افتخار چور: ناں ناں! یہ بات بھی نہ کرنا۔ چلیں حوالہ دے دوں گا، لیکن ڈیلیٹ کوئی تحریر نہیں ہوگی۔ یہ کوئی سوچے بھی نہیں۔ چور ہوں اور سینہ زور ہوں۔
میزبان: آپ ان تحاریر پر حوالہ کب دیں گے؟ حوالہ دینے کی بات تو آپ نے عرصہ پہلے کی تھی۔
افتخار چور:  میرے پاس اب اتنا فالتو وقت تو نہیں ہے کہ سارا وقت لوگوں کے کام کرنے میں لگادوں۔ حوالہ بھی آجائے گا۔ ایک بار وہ تحاریر دوسری تحاریر تلے دب تو جانے دیں۔
میزبان: آپ خود سے تحاریر کیوں نہیں لکھتے؟
افتخار چور: کیا کروں بھئی، لکھنے کی کوشش تو بہت کرتا ہوں۔ کموڈ پر بیٹھ کر بہت زور لگاتا ہوں۔ لیکن جتنی بھی تحاریر آتی ہیں، سب فلش میں بہ جاتی ہیں۔
میزبان: آپ نے بلاگ کے ماتھے پر لکھ رکھا ہے، ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ کا پہلا اردو بلاگ ۔ اسلامی، معلوماتی، ادبی، تاریخی، مزاحیہ تحریریں اور میرے کالم‘‘۔ تو آپ کے بلاگ قارئین کو اسلامی، معلوماتی، ادبی، تاریخی، اور مزاحیہ تحاریر پڑھنے کو تو ملتی رہتی ہیں، جو کہ بآسانی آپ کسی بھی بلاگ سے کاپی پیسٹ کرلیتے ہیں، لیکن آپ کے کالم پڑھنے کو نہیں ملتے۔
افتخار چور: بھئی، میں نے کبھی لکھاری ہونے کا دعوا تو کیا نہیں۔ میں تو ایس ای او ایکسپرٹ ہوں۔ یہ تو میں نے بس شوقیہ بلاگ بنا ڈالا تھا۔ خود تعارف میں، میں نے اعتراف کیا ہے کہ صرف تعارف کا صفحہ لکھنے کے بعد مجھے ابتدا میں سمجھ ہی نہیں آ رہا تھا کہ مزید کیا لکھوں۔ وہ الگ بات ہے کہ تعارف کا صفحہ بھی میں نے کہیں سے کاپی پیسٹ ہی کیا تھا۔ لیکن جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو میں نے یہ کام شروع کردیا۔ وہ تو میں نے لوگوں کو آگ لگانے کے لیے ایویں ہی بڑی بڑی باتیں کی تھیں۔ اور لوگ میری شہرت سے گھبرا بھی گئے۔ حد ہے! باجی ڈر گئیں، باجی ڈر گئیں والا لطیفہ نہ ہوگیا۔
میزبان: یہ تو لوگ ہی بتا سکیں گے کہ باجی ڈر گئیں والا لطیفہ ہوا ہے یا آپ کی پھٹ گئی والا لطیفہ۔ ویسے آپ کا دعوا ہے کہ آپ ایس ای او ایکسپرٹ ہیں۔ اردو میں اس موضوع پر بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔ آپ ہمارے ناظرین (قارئین) کو کچھ بتائیں، کچھ مشورے دیں۔
افتخار چور: دیکھیں جی، یہ فن ہے بہت مہنگا۔ مفت میں تو نہیں بانٹا جاسکتا۔ اب اس کے بارے میں زیادہ تر لکھا بھی انگریزی میں گیا ہے۔ رحم کریں مجھ پر۔ کہاں سے کاپی پیسٹ کروں گا اُردو میں۔
میزبان: آپ سوشل میڈیا پر کبھی آسٹریلیا اور کبھی کسی دوسرے ملک میں رہنے کا دعوا کرتے ہیں، لیکن آپ کا موبائل نمبر (03113704269) پاکستان کا ہے۔ ایسا چمتکار کیسے ممکن ہوا؟
افتخار چور: ہیں جی؟ اچھا میں چلتا ہوں۔ بہت وقت ہوگیا۔ بہت زور سے کئی تحاریر آ رہی ہیں۔ میرے بلاگ کی بجائے کہیں آپ کا اسٹوڈیو ہی گندا نہ ہوجائے۔
میزبان: ارے رکیے! بھاگے کہاں جا رہے ہیں! وہ ’’کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے‘‘ والی بات کی تو باری آئی ہی نہیں۔ ابے سن، بی سی! م ک ل!

جی ناظرین! یہ تھے میاں افتخار چور، جو اپنی چوری پر سینہ زوری دکھا رہے تھے۔ آنکھیں کھلی رکھیں کہ ایسے کئی چور آپ کے اردگرد بھی ہیں۔ ان کی نشان دہی ضرور کریں، اور اُن کی صحبت سے بچ کر رہیں کہ کہیں آپ پر بھی سرقہ بازی کا رنگ نہ چڑھ جائے۔
ہمیشہ ہمیشہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ جب بھی کسی دوسرے کی تحریر کہیں پیش کریں، چاہے مختصر اقتباس ہی کیوں نہ ہو، حوالہ ضرور دیں۔ ورنہ یاد رکھیں کہ کل کو ہماری خصوصی نشریات کے مہمان آپ بھی ہوسکتے ہیں۔
نعرۂ افتخار چور کے ساتھ آپ سے اجازت چاہیں گے۔ مل کر نعرہ لگائیں!
سوشل میڈیا پر شور ہے
میاں افتخار چور ہے

پسِ نوشت:
ویسے میاں صاحب یہ تحریر چرا کر اپنے بلاگ پر ڈالیں تو مانوں۔

اعلان:
میاں افتخار رشید کو یہ تحریر اپنے بلاگ پر شائع کرنے کی عام اجازت ہے۔

Comments

  1. ہاہاہاہاہاہا بہت عمدہ ایسے لوگوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے

    ReplyDelete
  2. چور کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے

    ReplyDelete
  3. ویسے یہ پڑھ کے اسے بھی مزہ آئے گا کافی سارا

    ReplyDelete
  4. م ک ل کے علاوہ مجھے تو یہ سی کے ڈی بھی لگ رہے ہیں سی کے ڈی کا مطلب ہے چور کی داڑھی میں تنکا (آپ کیا کچھ اور سمجھے تھے، خیر میرا مطلب بھی وہی تھا جو آپ سمجھے تھے(

    ReplyDelete
    Replies
    1. یہ تھوڑا غلط ہوگیا۔ سی کے ڈی سے صرف چور کی ڈاڑھی بنتی ہے، م سے میں اور ت سے تنکا کہاں گیا؟ :P

      Delete
  5. یہ تحریر ان کو بھی بھیج دیں
    عبدالقدوس

    ReplyDelete
  6. بقول اپنے مرشد خوامحواہ جاپانی کے یہ "مطمعن بےغیرت" ہے ایسے کو ساتھ جو بھی کرلو انکو کچھ بھی فرق نہیں پڑنے والا۔
    اسکے ساتھ میری بھی بحث ہوچکی ہے، اسکا یہی موقف تھا کہ نیٹ سے چوری چوری نہین ہے۔ البتہ ایسوں کا یہ علاج تھیک ہے۔

    ReplyDelete
  7. ہاہاہا :D (Y)
    سئی طبیعت صاف کری آپ نے پر اس نے خوش ہونا اپنی تعریفیں پڑھ کے۔ کیا پتا اسے ہی اٹھا کے اپنے بلاگ پہ چھاپ لے :D

    ReplyDelete
  8. بات یہ ہے کہ ان صاحب کو اردو سیارہ سے نکالا کیوں نہیں جا رہا؟

    ReplyDelete

Post a Comment