Who Could That Be at This Hour? - Book Review

دورِ حاضر میں بچوں کے  لیے لکھے جانے والے انگریزی ادب کے قارئین ڈینیل ہینڈلر کے نام سے بھلے ناواقف ہوں، لیکن اُن کا قلمی نام لیمونی اسنیکٹ یقیناً غیر معروف نہیں ہوگا۔ ’’آ سیریز آف انفورچونیٹ ایونٹس‘‘ (بدقسمت واقعات کا سلسلہ) کی ۱۳ کتابوں کی اشاعت اور مقبولیت کے بعد لیمونی اسنیکٹ (ڈینیل ہینڈلر) نے ’’آل دی رونگ کوئسچنز‘‘ (تمام تر غلط سوالات) کے عنوان سے چار کتابوں پر مشتمل ایک نیا سلسلہ لکھنا شروع کیا، جو آ سیریز آف انفورچونیٹ ایونٹس سے پہلے کے واقعات بیان کرتا ہے۔ اس سلسلے کے تحت تین کتابیں شائع ہوچکی ہیں؛ جب کہ چوتھی (اور آخری) کتاب رواں سال ستمبر (۲۰۱۵ء) میں شائع ہوگی۔ Who Could That Be at This Hour? (اس وقت یہ کون ہوسکتا ہے؟) اس سلسلے کی پہلی کتاب ہے جو اکتوبر ۲۰۱۲ء میں لٹل براؤن پبلشرز نے شائع کی۔
یہ لیمونی اسنیکٹ (ایک فرضی کردار) کی خود نوشت سوانح ہے کہ کس طرح وہ ایک خفیہ تنظیم (وی ایف ڈی/ والنٹیئر فائر ڈپارٹمنٹ) کا حصہ بنتا ہے اور ایک اتالیقہ (chaperone) ایس تھیوڈورا مارکسن کی شاگردی (apprenticeship) میں آتا ہے۔ وہ دونوں ایک دور دراز علاقے پہنچ کر ایک خاتون سے ملاقات کرتے ہیں جو اُنھیں اپنے ایک چوری شدہ مجسمہ کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ کرتی ہے تاکہ وہ اُسے واپس لائیں۔ تھیوڈورا اور لیمونی اسنیکٹ مل کر کھوج نکالتے ہیں کہ  وہ مجسمہ لائٹ ہاؤس میں آباد گھرانے (موکسی اور اُس کے والد) کے سامان میں موجود ہے۔ تھیوڈورا منصوبہ بناتی ہے کہ کس طرح اُسے موجودہ مالک کے پاس سے چرا کر اُس کے حقیقی مالک تک لوٹایا جائے۔ نقب زنی سے پہلے وہ دونوں لائٹ ہاؤس میں ایک بہانے سے داخل ہوتے ہیں اور تھیوڈورا، لیمونی کو موکسی کے پاس چھوڑ کر خود موکسی کے والد سے بات کرنے چلی جاتی ہے۔ اسی دوران، جب لیمونی بہانے سے اس مجسمے کا تذکرہ چھیڑتا ہے تو موکسی بتاتی ہے کہ یہ مجسمہ اُن کے خاندان میں کئی نسلوں سے موجود ہے اور اس کی کوئی خاص اہمیت بھی نہیں ہے؛ یہاں تک کہ وہ مجسمہ  چرانے میں مدد کرنے کے لیے بھی تیار ہوجاتی ہے۔ لیکن جب وہ لائٹ ہاؤس میں کام یاب نقب لگانے کے بعد فرار ہو رہے ہوتے ہیں تو کچھ ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جن سے کہانی ایک ڈرامائی اور ہیجان خیز موڑ لیتی ہے۔
لیمونی اسنیکٹ کو پولیس والے نظر آتے ہیں اور وہ اُن سے بچنے کے لیے تھیوڈورا کو آگے بڑھتا چھوڑ کر خود پیچھے رہ جاتا ہے، جہاں وہ ایک نئے کردار ایلنگٹن سے ملتا ہے۔ اُس کردار سے ملنے کے بعد اُس پر نئے حیرت انگیز انکشافات ہوتے ہیں، جیسے یہ کہ وہ عورت جس نے ان سے حویلی میں ملاقات کرکے اس مجسمے کی  ملکیت کا دعوا کیا تھا، وہ درحقیقت وہ نہیں تھی جو وہ ظاہر کر رہی تھی، بل کہ وہ تو ماضی کی ایک اداکارہ تھی اور اُسے اس اداکاری پر مجبور کیا گیا تھا۔ اور وہ حویلی، جہاں اُن کی ملاقات ہوئی تھی، عرصہ دراز سے غیر آباد تھی لیکن انھیں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ یہ آباد ہے۔ تو وہ کون شخص تھا جس نے اُس اداکارہ کو اغوا کرکے اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا اور پھر مارنے کی کوشش بھی کی، وہ جس نے موکسی کو فون کیا اور لیمونی کی آواز میں بات کی، اور لیمونی کو فون کیا تو ایلنگٹن کی آواز میں بات کی، اور ایلنگٹن کے والد کو اغوا کیا اور ایلنگٹن سے اُس کے والد کی آواز میں بات کی۔ ہینگ فائر؟
یہ ہینگ فائر درحقیقت کون ہے؟
ان اُلجھے ہوئے سوالات کے سلجھے ہوئے جوابات کتاب کے آخری باب تک مطالعے کے بغیر نہیں مل سکتے۔ اور بعض سوالات کے جوابات کے لیے شاید سلسلے کی آخری کتاب تک کا مطالعہ کرنا پڑے۔
کتاب کے ابتدائی ابواب میں مجھے اپنا دھیان مرکوز رکھنے میں کچھ مشکل محسوس ہوئی، جس کی وجہ شاید اندازِ تحریر کا مختلف ہونا تھا؛ لیکن ایک بار جب کہانی نے اپنی گرفت میں لیا تو پھر اسے مکمل کرنے میں دو دن سے زیادہ نہیں لگے۔ اس ہیجان خیز جاسوسی ناول کی ایک منفرد بات مشکل الفاظ کے معانی کا بیان ہے جو کہانی کے مکالموں ہی میں شامل ہے۔ مثلاً
Theodora frowned. “That bell means we should don these masks. ‘Don’ is a word which here means ‘put on our heads’…”
یا پھر
“… We can rescue him without kowtowing to a villain like Hangfire.”
“What does ‘kowtowing’ mean?”
“To behave in an obsequious manner.”
“I could play this game all night, Mr. Snicket. What does ‘obsequious’ mean?”
نوجوان قارئین کے لیے لکھی جانے والی اس کتاب میں لڑکپن کے عمومی خیالات و تصورات بھی زیرِ  بحث لائے گئے ہیں، جیسے:
’’عموماً ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے،‘‘ میں نے کہا۔ ’’نقشہ علاقہ نہیں ہوا کرتا۔‘‘
’’اس کے کیا معانی ہیں؟‘‘
’’یہ بڑوں کا ایک محاورہ ہے ایسی ابتر حالت کے لیے جس میں ہم گرفتار ہیں۔‘‘
’’بڑے، بچوں کو کبھی کچھ نہیں بتایا کرتے۔‘‘
’’بچے بھی بڑوں کچھ نہیں بتایا کرتے،‘‘ میں نے کہا۔ ’’اس دنیا کے بچے اور اس دنیا کے بڑے بالکل الگ کشتیوں کے سوار ہیں اور صرف تبھی ایک دوسرے کے پاس آتے ہیں جب ہمیں کسی کی مدد کی ضرورت ہو یا کسی اور کو ہماری مدد درکار ہو۔‘‘ (ص:۱۱۳۔۱۱۴)
ڈینیل ہینڈلر منظر نگاری پر خصوصی توجہ دیتے ہیں۔ مقامات، ماحول، اور واقعات کی منظر کشی اتنی عمدگی سے کی گئی ہے کہ منظر قاری کی نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ اُنھیں الفاظ سے کھیلنے کا فن آتا ہے۔ مقامات اور کرداروں کے نام اس کی واضح مثال ہیں۔
کتاب کی پشت پر یہ عبارات درج ہیں:
اس سے پہلے کہ آپ ’’اس وقت یہ کون ہوسکتا ہے؟‘‘ پڑھنے کے بارے میں سوچیں، اپنے آپ سے یہ سوالات پوچھیں:
  1. کیا آپ کو تجسس ہے کہ ساحلِ سمندر کے کنارے آباد ایسے شہر میں کیا ہو رہا ہے جو اب سمندر کے ساتھ نہیں رہا ہے؟
  2. کیا آپ ایک ایسی چوری شدہ چیز کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں جو چوری ہوئی ہی نہیں تھی۔
  3. کیا آپ واقعی سمجھتے ہیں کہ ان سب باتوں سے آپ کا کوئی تعلق ہے؟ کیوں؟ آپ کس قسم کے انسان ہیں؟ کیا آپ کو یقین ہے؟
  4. آپ کے پیچھے کون کھڑا ہے؟
کتاب سے ایک آخری اقتباس کے ساتھ تبصرہ ختم کرتا ہوں۔
۔۔۔میں نے اپنا ماسک اتارا اور دیکھا تو موکسی اپنا ماسک پہنے ہوئے ہی نیند کی آغوش میں جا چکی تھی۔ میں نے اُس کا ماسک اتارا اور ایک کمبل ڈھونڈ کر اُس کے اوپر ڈال دیا،  اور پھر اُسی طرح ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگا۔ میں نے سوچا کہ شاید اگر میں زیادہ ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہوں تو میں اُس شہر کی روشنیاں دیکھ سکوں جسے میں کہیں بہت دور پیچھے چھوڑ آیا ہوں۔ یہ بے شک احمقانہ بات تھی، لیکن کبھی کبھی دریچے کو گھورتے رہنے اور احمقانہ باتیں سوچنے میں کوئی برائی نہیں، تب تک کہ جب تک یہ احمقانہ باتیں آپ کی اپنی ہوں۔ (ص:۱۱۸)

Comments