Na Maloom Afraad - Film Review

گزشتہ چند سالوں سے محسوس ہو رہا تھا کہ پاکستان میں فلم سازی کی صنعت ایک بار پھر لڑکھڑاتے ہوئے اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ شعیب منصور کی ’بول‘ (۲۰۱۱ء)، مینو گور کی ’زندہ بھاگ‘ (۲۰۱۳ء)، علی رضا اسامہ کی ’میں ہوں شاہد آفریدی‘ (۲۰۱۳ء)، اور بلال لاشاری کی ’وار‘ (۲۰۱۳ء) پاکستانی فلم شائقین کی توجہ اپنی طرف مبذول کروانے میں بڑی حد تک کام یاب رہی تھیں۔اس سال عید الاضحیٰ کے موقع پر نسبتاً ایک نئے اور غیر معروف ہدایت کار نبیل قریشی کی فلم ’’نامعلوم افراد‘‘ ریلیز ہوئی اور اسے دیکھنے کے بعد بلاشبہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستانی فلم انڈسٹری اب اپنے پیروں پر کھڑی ہوچکی ہے۔
پاکستان اور بالخصوص کراچی کے رہنے والے ’’نامعلوم افراد‘‘ کی اصطلاح سے یقیناً نامانوس نہیں ہوں گے۔ آئے دن شہر میں نامعلوم افراد کی مجرمانہ کارروائیوں کے بارے میں خبریں سامنے آتی ہیں۔ فلم ’’نامعلوم افراد‘‘ ایسے ہی تین افراد کی کہانی ہے، جو حالات کے  پیشِ نظر نامعلوم افراد بننے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
فرحان (فہد مصطفیٰ) آئی ایف یو انشورنس کمپنی میں ایک ناکام ایجنٹ ہے؛ جب کہ مون (محسن عباس حیدر) کراچی پاور سپلائی کمپنی میں ملازم ہے اور کمپنی کی خراب کارکردگی پر دن رات لوگوں کی جھڑکیاں سنتا ہے۔ فرحان اور مون، ادھیڑ عمر شکیل بھائی (جاوید شیخ) کے گھر ایک کمرے میں بطور کرایے دار رہتے ہیں۔ پیسوں کی اشد ضرورت اور اپنی اپنی مجبوریوں کے تحت وہ تینوں دولت کمانے کا ایک منصوبہ بناتے ہیں۔ منصوبے کے تحت ہر ایک، بینک میں ایک تجوری لیتا ہے اور پھر اُس کی تیس لاکھ کی انشورنس کروالیتا ہے۔ اس کے بعد وہ انتظار کرتے ہیں کہ کب شہر میں حالات خراب ہوں اور وہ نامعلوم افراد کی آڑ میں بینک کو آگ لگادیں تاکہ اُنھیں اُن کی انشورنس رقم مل سکے۔
پھر حالات بھی خراب ہوتے ہیں اور بینک کو آگ بھی لگتی ہے، لیکن کیا اُنھیں انشورنس رقم مل پاتی ہے اور کیا اُن کی زندگیاں سنورتی ہیں، اس کے لیے تو آپ کو یہ فلم ہی دیکھنی ہوگی۔
جاوید شیخ تو خیر تجربہ کار اور منجھے ہوئے اداکار ہیں، لیکن فہد مصطفیٰ، محسن عباس اور عروہ حسین کی یہ پہلی فلم تھی اور سب ہی کا کام بہت خوب صورت ہے۔ یہ فلم ان فن کاروں کے کیریئر میں ایک اہم اضافہ ثابت ہوگی اور انھیں مزید آگے جانے میں مدد دے گی۔
فلم کی ہدایت کاری اچھی ہے اور اسے عمدگی سے فلمایا گیا ہے۔ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ فلموں میں زیادہ تر مقامات ہمارے لیے اجنبی ہی ہوتے ہیں؛ لیکن ’’نامعلوم افراد‘‘ میں کراچی شہر کے جانے پہچانے مقامات (مثلاً: شاہراہِ فیصل، صدر، زیب النسا مارکیٹ، خاتونِ پاکستان کالج، رمپا پلازا، وغیرہ) دیکھتے ہوئے اپنے پن کا احساس ہوتا ہے۔ فلم میں کراچی کی ثقافت اور زندگی کے رنگ ڈھنگ واضح نظر آتے ہیں۔
فلم کی موسیقی شانی اور کامی، اور وکی حیدر نے دی ہے۔ صائمہ اقبال کا گایا ہوا آئٹم گیت ’’بلّی‘‘ اگرچہ کافی شہرت حاصل کر رہا ہے جسے مہوش حیات پر فلمایا گیا ہے، تاہم مجھے صابر ظفر کا لکھا ہوا گیت ’’دربدر‘‘ سب سے زیادہ پسند آیا؛ یہ گیت سارہ رضا خان نے اپنے سریلی اور دل کو چھولینے والی آواز میں گایا ہے اور اس کی موسیقی وکی حیدر اور نقاش حیدر نے دی ہے۔
میں یہ تو نہیں کہتا کہ فلم عالمی معیار کی ہے؛ لیکن ہمارے پڑوسی ملک کی فلم انڈسٹری کے پورے پورے مقابلے پر ضرور ہے۔ بالی ووڈ فلموں کے شائقین کو یہ فلم یقیناً پسند آئے گی؛ کیوں کہ اس میں کہانی بھی ہے، مزاح بھی ہے، اور مسالا بھی۔
میں نے یہ فلم گزشتہ سنیچر (۱۸ اکتوبر) کو سنی پلیکس (سٹی آڈیٹوریم، نزد عائشہ منزل) میں دیکھی اور میں اس فلم کو ۱۰ میں سے ۸ ستارے دیتا ہوں۔
(ہاں بالکل، ان ۸ میں سے ایک ستارہ پاکستانی فلموں کا معیار دیکھتے ہوئے اضافی ہے۔)

Comments