Main Aur Mera Pakistan - Book Review

نہ جانے یہ میری بدقسمتی ہے یا اس کتاب کی کہ میں اسے مکمل نہیں پڑھ سکا۔ ایسا نہیں کہ مجھے عمران خان یا اُن کی سوانحِ عمری سے دل چسپی نہ ہو؛ بل کہ میں تو چاہتا تھا کہ اُس راہ نما کی کتاب پڑھوں جسے دیگر پاکستانی راہ نماؤں پر میں ترجیح دیتا ہوں۔ کتاب طویل عرصے تک میرے سرہانے رکھی رہی، اور پھر میں نے فیصلہ کیا کہ اسے واپس طاق میں رکھ دینا ہی بہتر ہے۔
میں جو ہر قسم کی کتاب کو چٹ کر جاتا ہوں، یہ کتاب مکمل نہیں کرسکا تو اس کی دو، تین بنیادی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلی وجہ اس کے مترجم جناب ہارون رشید (پاکستانی صحافی) ہیں۔ ہارون صاحب کا ایک منفرد اندازِ بیان و تحریر ہے۔ وہ انداز اُن کے اپنے کالموں میں جچتا ہے اور یقیناً اُن کی پہچان بھی ہے۔ مگر موصوف نے اپنے مخصوص انداز ہی میں کتاب کا ترجمہ بھی کر ڈالا ہے۔ چناں چہ، دورانِ مطالعہ یہ کتاب عموماً آپ بیتی محسوس نہیں ہوتی۔ اُس میں عمران خان کا اپنا انداز نہیں ہے؛ اپنے الفاظ نہیں، اپنا بیان نہیں، اپنے جذبات نہیں؛ سب کچھ پرایا ہے۔
دوسری وجہ ہارون صاحب کی معروضات ہیں جو کتاب کے آغاز میں موجود ہیں۔ یقیناً ہارون صاحب نے حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی دیانت داری کا ثبوت دیا ہے کہ اس کتاب میں اُنھوں نے اپنی طرف سے بعض اضافے بھی کر دیے ہیں؛ یہاں تک کہ بعض اضافے عمران خان کے علم میں بھی نہیں لائے گئے ہیں؛ لیکن، اُن کے اس اعتراف کے بعد کتاب پڑھتے ہوئے بارہا یہی شبہ ہوتا رہا کہ یہ بات عمران خان لکھ رہے ہیں یا ہارون رشید۔
کتاب پسند نہ آنے کی تیسری وجہ واقعات کے بیان میں تسلسل کی عدم موجودگی ہے۔ ابھی عمران خان اپنے بچپن کا ذکر کر رہے ہیں، اُسی پیرے میں ایک دم ماضی سے حال میں آگئے اور کئی صفحات تک حال کا تذکرہ چلتا رہا، اور پھر اچانک وہ اُسی زمانے میں واپس لوٹ گئے جہاں دراصل پہلے موجود تھے۔ یوں، کتاب میں میری دل چسپی نہ ہونے کے برابر رہ گئی۔
مجھے افسوس ہے؛ اور شاید کتاب کو بھی ہو۔

Comments