Riding A Motorcycle First Time

قصہ موٹر سائیکل چلانے کا

خدا گواہ، ہمیں موٹر سائیکل جیسی سواری سے کبھی شغف نہیں رہا۔ موٹر سائیکل چلانا تو درکنار، ہمیں صرف اس کی سواری بھی گراں گزرتی ہے اور منزل پر پہنچنے تک دل میں ہول ہی اٹھتے رہتے ہیں کہ دائیں جانب گری کہ بائیں جانب، آگے کسی کو ٹھوکر ماری یا پیچھے سے ٹھوکر کھائی۔ ہمیں موٹر سائیکل کی سواری پر جتنے دل کے دورے پڑتے پڑتے بچے ہیں، اگر اُن کا شمار کیا جائے تو شاید موت کے منھ میں جاکر واپس آنے والوں میں ہم سرِ فہرست ہوں۔ اکثر ایسا ہوا کہ ہم کسی کے ساتھ موٹر سائیکل پر سوار ہیں، موٹر سائیکل چلانے والا ہماری حالت سے بے خبر تیز رفتاری سے دوڑا رہا ہے اور ہم دل ہی دل میں دعائیں پڑھتے ہوئے اپنی نشست کو اس طرح زور سے پکڑے بیٹھے ہیں کہ اردگرد گزرنے والے لوگ اکثر ہمیں حیرت سے دیکھتے ہیں؛ لیکن، اس شرمندگی پر ہم نے ہمیشہ اپنی قیمتی جان کو ترجیح دیتے ہوئے تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کیے رکھیں۔
ہمیں موٹر سائیکل کی افادیت سے انکار نہیں۔ سفر کا اہم اور سستا ذریعہ ہے۔ پُر ہجوم مقامات پر بھی بآسانی راستہ بنا لیتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں آپ موٹر سائیکل فٹ پاتھ پر بھی چلا سکتے ہیں اور مخالف سمت میں بھی دوڑا سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں موٹر سائیکل چلانے کے ایک سو ایک فائدے بھی متاثر نہ کرسکے۔
جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے ویسے ویسے گھر والوں، رشتے داروں اور دوست احباب کے طعنوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ جب کہیں کوئی موٹر سائیکل موضوعِ سخن بنتی، ہم تیار ہو جاتے کہ اس سے اگلا موضوعِ محفل ہم ہی ہوں گے۔ فوراً پوچھا جاتا، بائیک چلانا سیکھ لی یا نہیں، اور انکار میں خوب مذاق اُڑتا۔ جو جان پہچان والے کچھ عرصے بعد ملتے، وہ چھوٹتے ہی پوچھتے کہ بائیک چلانا سیکھ لی؟ ہم یوں تو کبھی اس مذاق کو خاطر میں نہ لائے، لیکن کچھ عرصے بعد ایسا محسوس ہونے لگا جیسے قدرت ہمیں خود موٹر سائیکل چلانے کی تعلیم دینا چاہتی ہے۔ ہوا یہ کہ نیند میں متواتر خواب اور کشف کا سلسلہ شروع ہوگیا جس میں ہم موٹر سائیکل چلاتے نظر آتے۔ ہم اس سواری سے جتنا بیزار ہوتے گئے، خواب میں اس سواری پر ہمیں اُتنا ہی عبور حاصل ہوتا گیا۔ خواب کچھ اس تسلسل سے آنے لگے کہ ہم خود کو موٹر سائیکل چلاتے دیکھتے اور پھر سوچتے کہ شکر ہے یہ خواب نہیں ہے، پھر ہماری آنکھ کھل جاتی اور پتا چلتا کہ وہ خواب ہی تھا۔
خوابوں کا سلسلہ معمول کی موٹر سائیکل چلانے تک محدود رہتا تو شاید کسی نہ کسی طرح ہم اسے نظر انداز کر ہی ڈالتے۔ لیکن ایک دن ایسا خواب آیا جس نے ہماری زندگی بدل دی۔ دیکھتے ہیں کہ ہم تیز رفتاری سے موٹر سائیکل دوڑاتے چلے جا رہے ہیں، اچانک ایک گلی کے اختتام پر پھاٹک نما رکاوٹ سامنے آگئی۔ پھاٹک کی اونچائی اتنی تھی کہ اُس کے نیچے سے صرف موٹر سائیکل گزر سکتی تھی اور ہماری زور دار ٹکر یقینی تھی۔ مگر ہم خواب ہی خواب میں اتنی مہارت حاصل کرچکے تھے کہ یہ صورتِ حال ہمارے لیے زیادہ پریشان کن ثابت نہیں ہوئی۔ جیسے ہی موٹر سائیکل پھاٹک کے قریب پہنچی، ہم اُچھلے۔ موٹر سائیکل اُسی تیز رفتار میں پھاٹک کے نیچے سے گزری اورکسی ایکشن سے بھرپور فلم کی طرح کرتب (اسٹنٹ) انجام دیتے ہوئے ہم پھاٹک کے اوپر سے چھلانگ مار کر پھر اپنی نشست پر براجمان ہوگئے اور موٹر سائیکل دوڑاتے ہوئے لے گئے۔ اس عظیم الشان کارنامے نے ہمیں یقین دلا دیا کہ عالمِ رویا میں موٹر سائیکل چلانے کی ہماری تربیت مکمل ہوچکی ہے اور ہم مکمل مہارت کے حامل ہیں۔ اب ہمیں صرف اس موقع کا انتظار تھا جب ہم اپنی اس پوشیدہ مہارت کا عملی مظاہرہ کرکے طعنہ دینے والوں کو شرمندہ کرسکیں۔
کہتے ہیں کہ کراچی میں پان کا کھوکا اور دنیا میں انسان کو موقع کبھی بھی اور کہیں بھی مل سکتا ہے؛ چناں چہ ہمیں بھی جلد ہی ایک موقع ہاتھ آگیا۔ ایک دن والدِ محترم کے ساتھ سفر کر رہے تھے، وہ ایک مقام پر موٹر سائیکل کھڑی کرکے تھوڑی دیر کے لیے کسی کام سے گئے اور چابی لگی چھوڑ گئے۔ ہم نے ہونٹوں پر تبسم سجائے اپنے چاروں طرف ایک فاخرانہ اور فاتحانہ نظر ڈالی اور انجن چالو کردیا۔ اس سے اگلا کام ہم نے یہ کیا کہ کلچ کو دباکر پہلا گیئر ڈالا اور کلچ آہستہ آہستہ چھوڑنے کی بہ جائے یک لخت چھوڑ دیا۔ گاڑی نے ایک جھٹکا لیا اور بند ہوگئی۔ ہم ایک بار پھر مسکرائے اور لات مار کر دوبارہ انجن چالو کیا۔ ہلکی سی رفتار دیتے ہوئے (ایکسلریٹر دبائے) ہم نے گیئر بدل کر جو کلچ چھوڑا تو موٹر سائیکل جھٹکے سے تھوڑا آگے بڑھی اور اس سے پہلے کے ہمارے قابو سے باہر ہوتی، ایک بار پھر بند ہوگئی۔ تب ہمیں خیال آیا کہ خواب میں ہماری تربیت صرف موٹر سائیکل دوڑانے ہی کی ہوئی تھی اور اسے چالو کرنا اور دوڑانے سے پہلے والے تمام مراحل طے کرنا یا تو ہمیں خواب میں سکھائے نہیں گئے یا پھر ہمارے ذہن سے محو ہوچکے ہیں۔ لیکن اس خیال نے ہمارے آسمان کو چھوتے حوصلے کی پرواز میں ایک بالشت کی کمی بھی نہ آنے دی اور ہم نے ایک آخری کوشش کی ٹھان لی۔ آج ہم سوچتے ہیں کہ کاش پہلی کوشش ہی کو آخری سمجھ کر عقل کے ناخن لیے ہوتے۔
وہ کیا منظر تھا! خوش گوار صبح تھی، ہلکی ہلکی دھوپ نکلی ہوئی تھی، شہر کی مصروف شاہ راہ تھی، ہمارے سامنے فٹ پاتھ سے کچھ فاصلے پر ایک موٹر سائیکل کھڑی تھی اور ہماری موٹر سائیکل سے اُس کا فاصلہ چند ہی گز تھا۔ ہمارا دل خوشی سے ایسا اچھل رہا تھا جیسے ہم موٹر سائیکل پر پوری دنیا کا سفر کر آئے ہوں۔ اب کے ہم نے موٹر سائیکل شروع کرکے جو گیئر تبدیل کیا اور رفتار دیتے ہوئے حسبِ سابق کلچ ایک دم چھوڑا تو موٹر سائیکل تیزی سے ہمارے سامنے کھڑی موٹر سائیکل کی طرف لپکی؛ بل کہ یوں کہا جائے کہ حملہ آور ہوئی۔ ہم نے معطل حواس کے باوجود ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کسی اجنبی کا نقصان نہ کرنے کی بھرپور کوشش کی اور نتیجتاً ہم فٹ پاتھ اور موٹر سائیکل کے درمیان میں موجود معمولی فاصلے میں اپنی موٹر سائیکل کے ساتھ گھس گئے۔ اس تنگ جگہ میں گھستے ہوئے اپنا دایاں پیر بچانے کے لیے جو ہم نے پیچھے کیا تو وہ دہکتے ہوئے سائلنسر سے جاکر چپک گیا اور ہم موٹر سائیکل سمیت فٹ پاتھ سے ٹیک لگاکر ایسی حالت میں آگئے جسے نہ ہم کھڑا ہونا کہہ سکتے ہیں، نہ بیٹھنا اور نہ ہی لیٹنا۔ گھبراہٹ کے باوجود ہم نے جو ایک سبق خواب میں سیکھا تھا، اُس پر مکمل عمل کرتے ہوئے ایکسلیٹر کھینچے رکھا اور اگر موٹر سائیکل از خود بند نہ ہوجاتی تو یقیناً ہم نے اسی کرتب نما مضحکہ خیز کیفیت میں ایک طویل فاصلہ طے کر لینا تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب منظرنامے میں ہمارے والدِ محترم نمودار ہوئے اور ہمیں اس حالت میں دیکھ کر ہماری طرف دوڑ لگائی۔
اس تجربے کے بعد ہماری جو کھنچائی ہوئی، ہمارے زخم کی صفائی کرتے ہوئے ڈاکٹر نے جو ذرا زور آزمائی کی اور ہم بے ہوش ہوکر گر پڑے جس کے نتیجے میں ہمارا ہونٹ بھی پھٹ گیا، اور دوست احباب سے ملنے والے طعنوں میں جو اضافہ ہوا، یہ وہ جزیات ہیں جن کا بیان نہ کرنا ہی بہتر ہے۔

Comments