سیاسی منظرنامہ: جنگلی ہانڈی

پاکستان کے سیاسی منظرنامے کی بات کی جائے تو نومبر 2012ء تک سب کچھ پُرسکون انداز میں چل رہا تھا۔ انتخابات کی آمد قریب ہونے کے باعث اگرچہ سیاسی جلسوں، سیاسی نعروں اور سیاسی شعبدہ بازیوں میں کچھ اضافہ نظر آرہا تھا، کراچی میں نئی انتخابی حلقہ بندیوں پر بھی تھوڑی بہت گرما گرمی پائی جاتی تھی لیکن یہ تمام منظرنامہ ایک ایسے گیت کی طرح تھا جس میں کچھ بول ہلکی اور مدھم موسیقی پر بج رہے ہوں۔ پھر دسمبر 2012ء آیا تو موسیقی میں معمولی سی شدت آنے لگی۔ کچھ اضافی آلات بجنے کی آوازیں بھی سنائی دی جانے لگیں۔ یہ تحریکِ منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری کی کینیڈا سے پاکستان آمد اور 23 دسمبر کو مینارِ پاکستان پر شان دار انقلابی جلسے کا اعلان تھا۔ پروفیسر صاحب کے جلسے سے قبل چہ مگوئیاں شروع ہوچکی تھیں لیکن اکثریت شکوک و شبہات کا شکار تھی۔ وہ ایسی فلم کے منظر کی مانند تھا جو اپنے تجسس کے اعتبار سے بلندی پر پہنچ گیا ہو اور تماش بین دلوں کو سنبھالے منتظر ہوں کہ اگلا منظر کیا غضب ڈھاتا ہے۔ لوگ اپنی اپنی توقعات کا اظہار کررہے تھے کہ  جلسے میں کس بات کا اعلان ہوگا اور پروفیسر صاحب کا ایجنڈا کیا ہے۔ کہیں سی ڈھکی چھپی حمایت تو کہیں سی دبی دبی مخالفت سرگوشیاں تھی۔ پھر اچانک تیز شور و غل برپا ہوگیا۔ ایسے جیسے گیت ایک دم راک (Rock) موسیقی پر آگیا ہو۔ طاہر القادری صاحب کے جلسے اور تقریر نے بڑے بڑے جغادریوں کو ایسے طاقت ور جھٹکے دیے ہیں کہ اول اول تو اُنھیں یقین بھی نہ آیا ہوگا۔
اب بھی صورتِ حال کا جائزہ لیں تو سیاسی پنڈت اور ماہرین بھی خاصے گومگو کی کیفیت کا شکار نظر آتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ پروفیسر صاحب زرداری کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں، کوئی کہتا ہے کہ غیر ملکی ایجنڈا لے کر آئے ہیں، کسی کا ماننا ہے کہ فوج کی حمایت حاصل ہے تو کوئی نواز شریف، کوئی زرداری اور کوئی عمران خان کے لیے اُنھیں سب سے بڑا خطرہ قرار دے رہا ہے۔ غرض، کوئی بھی حتمی نتیجے پر پہنچتا نظر نہیں آتا۔ خصوصاً الطاف حسین (رسمی معنوں میں متحدہ قومی موومنٹ) نے جب سے پروفیسر صاحب کو اپنا بڑا بھائی قرار دے کر اُن کے ہاتھ میں ہاتھ تھمایا ہے اور اُن کے ساتھ جس والہانہ محبت کا اظہار کیا ہے، یوں سمجھیے کہ یہ دوسرا طاقت ور جھٹکا ہے جو گزشتہ سال دسمبر سے ملا ہے۔ پروفیسر صاحب کی آمد سے لوگوں کو جو شکوک و شبہات لاحق تھے، متحدہ قومی موومنٹ اور مسلم لیگ ق کی حمایت کے بعد اب وہ یقین میں بدل چکے ہیں کہ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے، لیکن وہ کچھ کیا ہے، اس کے بارے میں کوئی بھی یقینی اور حتمی رائے دینے سے قاصر ہے۔ اکثر احباب نے پروفیسر صاحب اور ایم کیو ایم کے اتحاد کو غیر فطری قرار دیا۔ میرے خیال میں، یہ غیر فطری یا فطری کی بحث نہیں، اتنا جھٹکا صرف اس لیے لگا ہے کہ یہ اتحاد خاصا غیر متوقع تھا۔
پروفیسر صاحب کی آمد سے قبل اُن کے لیے عمران خان کا لہجہ خاصا معتدل تھا لیکن 23 دسمبر کی تقریر کے بعد اب پاکستان تحریکِ انصاف کے لیے اُن کی حمایت کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو سالہا سال کی جدوجہد کے بعد اب جاکر منزل کچھ قریب نظر آنا شروع ہوئی تھی اور پروفیسر صاحب کی اچانک آمد اور بہ ظاہر معاملات کا رخ انتخابات کے التوا کی طرف جانا اُسے کسی صورت قبول نہیں ہوسکتا۔ دوسری طرف نواز شریف بھی اچھی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ پانچ سال کے صبر کے بعد اب اقتدار کا ایک موقع قریب آیا ہے، لہٰذا اُن کے لیے بھی پروفیسر صاحب اچھا شگون نہیں۔ اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی ہلکی پھلکی تنقید پروفیسر صاحب پر ہوئی ہے لیکن زیادہ گرما گرمی دیکھنے میں نہیں آئی۔ شاید اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اپنی پوزیشن سے خاصی مطمئن ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ تو بہ ہر حال اپنی مدت پوری کرچکی۔ تیسری وجہ اکثر احباب یہ ذکر کرتے ہیں کہ اس ہنگامے کی آڑ میں جناب صدر دوسری مدت کے لیے منتخب ہوجائیں گے۔ قاف لیگ اور ایم کیو ایم کی "چلو تم اُدھر کو، ہوا ہو جدھر کی" والی پالیسی کے بارے میں اب کس ذی عقل کو شبہ ہے؟
ہمارے ہاں کراچی میں چودھری متین باورچی کا بڑا نام ہے۔ اُس کے ہاں کا ایک مشہور کھانا ہے جسے "جنگلی ہانڈی" کہتے ہیں۔ اُس ہانڈی میں سبزیاں، گوشت، سب کچھ پایا جاتا ہے۔ یوں ہی، پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر بھی ایک جنگلی ہانڈی تیار ہوچکی ہے۔ میرے خیال میں، صرف ایک مصالحے کی کمی ہے؛ اور وہ ہے "پرویز مشرف مصالحہ"۔

Comments

  1. جنگلی ہانڈی کی مثال شاندار دی
    مصالحہ اور کچھ تڑکے ابھی رہ گئے ہیں

    دیکھیے کیا نکلتا ہے

    ReplyDelete
  2. ہانڈی تو بن کے ہی رہے گی۔ دیکھیں کونسی والی بنتی ہے۔ بھاری بوٹوں والی یا کوئی اور۔

    ReplyDelete
  3. کچھ تو فائدہ ہوا کہ میں ایک اور کھانے کے نام سے واقف ہو گیا ۔ جنگلی ہانڈی ۔ مجھے زیادہ کھانوں کے نام نہیں آتے

    ReplyDelete
  4. ہا ہا جنگلی ہانڈی خوب نام ہے

    ReplyDelete

Post a Comment