وہ ہمارے دفتر کا چوکیدار ہے۔ مانسہرہ سے بھی دور کسی گاؤں سے تعلق ہے۔ مہینے گزرے کہ اپنے علاقے نہیں گیا۔ یہیں اکیلا رہتا ہے۔ پچھلے دنوں چائے کے برتن دھوتے ہوئے کہنے لگا، ایک وقت تھا جب ہم کہتے تھے کہ چائے جلدی دو، ہمیں کالی چائے نہیں چاہیے؛ اور اب خود چائے بناتے ہیں۔ کہتا ہے، ایک بار گھر پر کوئی کپڑا دھونے لگا تو گھر والوں نے ڈانٹا، منع کیا؛ تو میں نے اُن سے کہا کہ یہ تو چھوٹی سی چیز ہے، کراچی میں رہتے ہیں تو سب کام خود ہی اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔
کچھ دن پہلے دفتر میں کسی سے منہ ماری ہوگئی۔ میں نے اُسے چپکے چپکے اپنے آنسو صاف کرتے دیکھا۔ ایک عجیب سا احساس ہوا۔ اپنے گھر اور گھر والوں سے دور رہ کر بندہ کتنا کم زور ہوجاتا ہے۔ غریب الوطن صرف وطن سے غریب نہیں ہوتا، ہر چیز سے غریب ہوجاتا ہے۔
آہ غربت اور ہائے غریب الوطنی
ReplyDeleteہم غریب الوطن لوگوں سے بڑھ کر کون جانے گا یہ دُکھ
اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے کہ اُس نے مجھے آزاد آدمی کی زندگی عطا کی ۔ نوکر کو انسان سمجھنے والے لوگ بہت کم ہیں ۔ جس نوکر کو غلام یا اپنا قیدی سمجھا جاتا ہے اُس کی زندگی کیا ہے ؟
ReplyDeleteپنجرے کے پنچھی رے
تیرا درد نہ جانے کوئے
باہر سے خاموش رہے تو
بھیتر بھیتر روئے
تیرا درد نہ جانے کوئے
عمار بھئی خدا کی قسم پڑھ کر انکھیں نم ہوگئیں۔
ReplyDeleteعمار بھئی خدا کی قسم!!! آپ کی تحریر پڑھ کر انکھیں نم ہوگئیں۔
ReplyDeleteمنگو۔