آزاد بچے آزاد والدین


مصنف: ظہور الدین خان
صفحات: 350
قیمت: 250 روپے
ناشر: اسلامک ریسرچ اکیڈمی، ادارہ معارفِ اسلامی، کراچی

اولاد کی تعلیم و تربیت والدین کے لیے ایک کڑا آزمائشی مرحلہ ہوتا ہے جس کے اثرات بچوں پر تاحیات کسی نہ کسی صورت میں قائم رہتے ہیں اور زندگی کے مختلف پہلوؤں میں بچپن کی تربیت کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔
دنیا کا کوئی بھی فن یا شعبہ اپنانے سے پہلے اُس سے متعلقہ معلومات اور تربیت حاصل کرنا لازمی خیال کیا جاتا ہے لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ والدین کے رتبے پر فائز ہوتے ہوئے کسی معلومات اور تربیت کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی۔ نہ ہی ہماری تعلیم اور نہ ہی خاندان کے بزرگ اس معاملے میں کوئی واضح راہ نمائی فراہم کرتے ہیں؛ بل کہ، ہر شخص جس طرح چاہتا ہے اپنے بچوں کی پرورش کرتا ہے۔ نتیجتاً مستقبل میں پیش آنے والی صورتِ حال کی کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی اور بعدازاں کئی والدین اپنی غلطیوں پر پچھتاتے نظر آتے ہیں۔
ظہور الدین صاحب کی تصنیف ’’آزاد بچے آزاد والدین‘‘ اس اہم موضوع پر گراں قدر تصنیف ہے لیکن یہ کوئی خشک کتاب ہرگز نہیں ہے بل کہ مصنف نے قاری کی دل چسپی برقرار رکھنے کے لیے ایک کہانی بیان کی ہے۔ یہ کہانی ایک ایسی عورت بیان کرتی ہے جو اپنے بچوں کو وہ سب دکھ اور مسائل دینا نہیں چاہتی جن سے وہ خود اپنے بچپن میں دوچار رہی ہے۔ لیکن کوششوں کے باوجود اُس کے بچوں کو اُس سے شکایتیں ہیں اور وہ گھر کا نظام بہتر طریقے سے چلانے میں اکثر اوقات خود کو ناکام تصور کرتی ہے۔ ایسے میں اُسے ایک  کہانی کے مختلف رنگ اور موڑ کتاب کو دل چسپ بناتے ہیں، طرزِ تحریر بے حد سادہ اور عام فہم ہے۔ غرض والدین کے لیے ایک ایسی کتاب ہے جس کا بار بار مطالعہ اُن میں اور گھر کے ماحول میں بہت سی خوش گوار تبدیلیاں پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے اور والدین اور اولاد کے مابین تعلقات مثبت طور پر پروان چڑھ سکتے ہیں۔
کتاب کے دو حصے ہیں۔ پہلا حصہ ’’بچے بھی انسان ہیں‘‘ بچوں کے احساسات، احساسات کے مابین فرق، خود اعتمادی، آزادی، تعریف و تحسین، کردار، موڈ وغیرہ سے متعلق ہے؛ جب کہ، دوسرا حصہ ’’والدین بھی انسان ہیں‘‘ والدین کے احساسات، احساسِ جرم، تکلیف، غصہ، کارروائی اور اس کی حدود وغیرہ جیسے اہم پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔
کتاب کے مطالعے کے دوران آپ ایسے نکات سے واقف ہوتے ہیں جنھیں آپ مطالعے سے پہلے بہ ظاہر معمولی سمجھتے رہے لیکن اُن کے اثرات کس قدر دیرپا اور مؤثر تھے۔ مثلاً کہانی کی ایک کردار ڈاکٹر ثرا بچوں کی تعریف و تحسین سے متعلق عورتوں کو سمجھاتی ہیں:
میں جو ذبان اور الفاظ استعمال کرتی ہوں وہ بچوں کی جانچ نہیں کرتے۔ میں اپنے جذبات کے اظہار میں ایسے اشاروں کنایوں سے گریز کرتی ہوں جو بچے کے کردار یا صلاحیت کی جانچ پڑتال کرتے ہیں۔ میں ایسے الفاظ سے بھی گریز کرتی ہوں مثلاً بے وقوف، بے ڈھنگا، برا اور یہاں تک کہ خوب صورت، اچھا، حیرت انگیز وغیرہ کیوں کہ یہ الفاظ قطعی مددگار نہیں ہیں۔ یہ بچے کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔ ان کے بجائے میں ایسے الفاظ استعمال کرتی ہوں جو وضاحت کرتے ہیں اور بیان کرتے ہیں۔ میں وہ بیان کرتی ہوں جو دیکھتی ہوں، میں وہ بیان کرتی ہوں جو محسوس کرتی ہوں۔
حال ہی میں ایک چھوٹی بچی نے مجھے ایک تصویر لاکر دکھائی اور پوچھا: ’’کیا یہ اچھی ہے؟‘‘ میں نے اس تصویر کو دیکھا اور بولی: ’’مجھے ایک جامنی گھر، لال سورج، دھاری دار آسمان اور بہت سارے پھول نظر آرہے ہیں۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں گاؤں میں ہوں۔‘‘ وہ بچی مسکرائی اور کہا: ’’میں دوسری تصویر بناکر لاتی ہوں۔‘‘
فرض کریں کہ اگر میں نے یوں جواب دیا ہوتا: ’’خوب صورت! تم تو مصورہ بن گئی ہو‘‘ تو میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ اُس دن یہ اُس کی آخری تصویر ہوتی ہے جو اُس نے بنائی ہوتی۔ آخرکار ’’خوب صورت‘‘ اور ’’عظیم‘‘ سے آگے کوئی کہاں جاسکتا ہے؟
اس کتاب سے میری واقفیت اتفاقاً ہوئی۔ کوئی ایک سال قبل، میں اپنے ایک استاد محترم کے ساتھ اسلامک ریسرچ اکیڈمی میں  اُن کے دفتر میں بیٹھا تھا۔ وہ کسی کام میں مصروف تھے تو میں نے میز پر رکھی کتابوں کے ڈھیر پر نظر ڈالی اور یہ کتاب اُٹھالی۔ کتاب کے اسلوب اور موضوع نے بے حد متاثر کیا۔ میری شادی کے بعد اُنھوں نے یہ کتاب مجھے اپنی پُرخلوص دعاؤں کے ساتھ تحفتاً عنایت کردی۔
اس کتاب کی ایک خامی جو مجھے محسوس ہوئی کہ بعض حالات و واقعات سے نمٹنے کے لیے جن طریقوں یا جملوں کی طرف راہ نمائی کی گئی ہے، وہ ہمارے معاشرے سے میل نہیں کھاتے۔ بعض جگہ مجھے یوں گمان ہوا جیسے کسی انگریزی کتاب سے ترجمہ کیا گیا ہو تاہم مصنف نے اس بات کی وضاحت کہیں نہیں کی ہے۔ ممکن ہے، مجھے ایسا اس لیے محسوس ہوا ہو کہ ہمارے معاشرے میں اب مہربان اور نرم الفاظ کا استعمال برائے نام رہ گیا ہے اور ہم اپنی غلطی کے باوجود معذرت خواہانہ انداز اپنانے کے بجائے سخت اور ترش طرزِ تکلم کے عادی ہوچکے ہیں۔ کتاب میں بعض پروف ریڈنگ اور رموز و اوقاف کی غلطیاں بھی ہیں۔ بہ ہر حال، یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کا مطالعہ صرف والدین ہی کے لیے نہیں بل کہ ہر شخص کے لیے مفید ہے کیوں کہ اس میں بیان کیے جانے والے اصول اور طور طریقے مختلف تعلقات میں کسی نہ کسی طرح استعمال کیے جاسکتے ہیں۔

Comments