قطار میں انتظار کی الجھن کے 8 اسباب

نیویارک ٹائمز کی بہترین فروخت ہونے والی نمبر 1 کتاب ’’The Happiness Project‘‘ کی ایوارڈ یافتہ مصنفہ گریچن روبن  کی تحریر۔ ترجمہ و تلخیص: عمار ابنِ ضیا

میں ایک انتہائی بے صبری انسان ہوں؛ اور دھیرے دھیرے آگے بڑھتے ہوئی قطار میں کھڑے رہنا میری زندگی کے ایسے پہلوؤں میں سے ایک ہے جو میرا دماغ خراب کردیتے ہیں۔ تاہم جب میں نے اپنے اس تجربے کے بارے میں مزید آگاہی حاصل کی تو یہ میرے لیے خاصا دل چسپ ثابت ہوا۔
مجھے ڈیوڈ میسٹر کا مقالہ ’’انتظار کرتی قطار کی نفسیات‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کا مخاطب وہ افراد تھے جو اسٹورز، ریستوران، ڈاکٹروں کے دفاتر اور دوسرے ایسے مقامات کو سنبھالتے ہیں جہاں لوگ انتظار کروائے جانے پر شور مچاتے ہیں۔ ظاہر ہے، ہم میں سے زیادہ تر وہ لوگ ہیں جو اُن مقامات کو سنبھالنے کے بجائے وہاں انتظار کرنے والوں میں شامل ہوتے ہیں، لیکن اس مقالے سے مجھے اپنی نفسیات میں جھانکنے میں دل چسپی ہوئی۔
میسٹر کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ ہم جتنی دیر انتظار کرتے ہیں اُس کا کچھ تعلق اس حقیقت سے بھی ہوتا ہے کہ دراصل ہمیں انتظار کا وقت کس قدر محسوس ہوتا ہے۔ دو منٹ پلک جھپکتے بھی گزر سکتے ہیں اور دو منٹ شیطان کی آنت بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔ درج ذیل میں 8 ایسے عوامل ہیں جن کے باعث ہمیں انتظار طویل محسوس ہوتا ہے۔
1۔ فارغ گزرنے والا وقت مصروف وقت سے زیادہ طویل ہوتا ہے۔ جب آپ کی توجہ کسی طرف مبذول ہوتی ہے تو آپ کا وقت تیزی سے گزرجاتا ہے۔ بعض ہوٹل لفٹ میں آئینہ نصب کرتے ہیں کیوں کہ لوگ اپنے آپ کو دیکھنا پسند کرتے ہیں۔
2۔ لوگ شروع کرنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریستورانوں میں آپ کو انتظار کے وقت میں منیو کارڈ تھمادیا جاتا ہے، اور ڈاکٹر آپ کو جانچ سے بیس/ پچیس منٹ پہلے ہی جانچ کے کمرے میں طلب کرلیتا ہے۔
3۔ بے چینی انتظار کو طویل بنادیتی ہے۔ اگر آپ یہ سوچنے لگیں کہ آپ سست روی سے آگے بڑھتی قطار میں کھڑے ہوگئے ہیں یا آپ جہاز میں جگہ ملنے کے بارے میں پریشان ہوں تو انتظار طویل لگنے لگتا ہے۔
4۔ غیر یقینی انتظار واضح اور محدود انتظار سے زیادہ طویل ہوتا ہے۔ لوگ اس صورت میں انتظار زیادہ بہتر برداشت کرلیتے ہیں جب اُنھیں بتایا جاتا ہے کہ ’’ڈاکٹر تیس منٹ میں آپ کو دیکھے گا‘‘ بجائے اس کے کہ اُنھیں کہا جائے کہ ’’ڈاکٹر جلد ہی آپ کو دیکھے گا‘‘۔ میسٹر ایک دل چسپ صورتِ حال کا نقشہ پیش کرتا ہے  جسے میں نے اپنی زندگی میں بھی نوٹ کیا ہے: اگر میں کسی جگہ تیس منٹ پہلے ہی پہنچ جاتی ہوں تو میں بہت صبر کے ساتھ انتظار کرلیتی ہوں؛ لیکن اگر میرے طے شدہ وقت سے تیس منٹ اوپر ہوجاتے ہیں تو میں برہم ہونا شروع ہوجاتی ہوں۔ میں سوچتی ہوں: ’’میں آخر مزید کتنا انتظار کروں؟‘‘
5۔ وضاحتی انتظار کے مقابلے میں غیر وضاحتی انتظار طویل محسوس ہوتا ہے۔ ہم طوفانی موسم میں پیزا لانے والا کا انتظار بہت صبر سے کرلیتے ہیں لیکن جب مطلع صاف ہو تو ہرگز نہیں۔ ہم جہاز میں صبر کے ساتھ بیٹھے رہتے ہیں جب ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ ابھی گیٹ پر اگلا جہاز موجود ہے۔
6۔ بے جا انتظار منصفانہ انتظار سے زیادہ ہوتا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ اُن کا انتظار منصفانہ ہو۔ مثال کے طور پر، پُرہجوم سب وے پلیٹ فارم پر انتظار کرتے ہوئے میں اُس وقت بے چین ہوجاتی ہوں جب کوئی منصفانہ اور واضح صورتِ حال موجود نہ ہو کہ اگلی گاڑی میں کون سوار ہوگا۔ ’’پہلے آئیے پہلے پائیے‘‘ کا اُصول بہترین اُصول ہے جب یہ کام کرے۔ لیکن بعض اوقات، مخصوص لوگوں کو فوری توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، یا مخصوص لوگ آپ کے زیادہ اہم گاہک ہوتے ہیں۔ تب یہ صورتِ حال گھمبیر ہوجاتی ہے۔ ایسے موقع پر کہ جب لوگوں کے ساتھ ترتیب کے بغیر برتاؤ کیا جارہا ہو تو بہتر ہوتا ہے کہ اُنھیں کسی علاحدہ جگہ برتا جائے۔ مثال کے طور، ٹیلی فون پر خدمات فراہم کرنے والوں اور افراد کو براہِ راست خدمات فراہم کرنے والوں کو ایک ہی کمرے میں نہیں ہونا چاہیے۔
7۔ خدمات جتنی اہم ہوں گی، گاہک اتنا ہی زیادہ انتظار کرے گا۔ آپ ایک سیلز کلرک سے بات کرنے کے مقابلے میں ڈاکٹر سے ملاقات کے لیے زیادہ انتظار کرلیں گے۔ آپ ایک ٹوتھ برش خریدنے کے مقابلے میں آئی پیڈ کی خریداری کے لیے زیادہ انتظار برداشت کرلیں گے۔
8۔ گروہ کی صورت میں انتظار کے مقابلے میں اکیلے انتظار کیا جانے والا طویل محسوس ہوتا ہے۔ لوگ جتنا زیادہ ایک دوسرے کے ساتھ مصروف ہوں گے، وہ اتنا ہی زیادہ کم وقت محسوس کریں گے۔ درحقیقت، بعض اوقات ایسے حالات میں انتظار کرنا تجربے کا حصہ ہوتا ہے۔ مجھے اپنے بچوں کے ساتھ ’’ہیری پوٹر اینڈ دی ڈیتھلی ہولو‘‘ کے نصف شب اجرا کے لیے قطار میں انتظار اب تک یاد ہے۔
یہ مقالہ پڑھنے کے بعد، اب قطار میں کھڑا ہونے کے حوالے سے اب میں زیادہ صبر کرنے والا ہوتی جارہی ہوں۔ میں قطار میں انتظار کرنے کے بارے میں اپنے تجربات کا تجزیہ کرنے والے خیالات سے بھرپور ہوں۔ کیا آپ نے قطار میں انتظار کو دل چسپ اور خوش گوار بنانے کا کوئی طریقہ ڈھونڈا ہے؟ یا ایک مختلف بات کہ کیا آپ نے کبھی ایسا محسوس کیا ہے کہ کسی تجربے کو سمجھنے کے بعد وہ آپ کے لیے مزید دل چسپ ہوگیا ہو؟

Comments

  1. میں نے لڑکپن کے زمانہ میں ریڈیو سے ایک گیت سنا تھا
    ملنے کی گھڑیا چھوٹی ہیں اور رات جدائی کی لمبی
    یعنی جدائی صرف لمبی ہی نہیں تاریک بھی ۔ قطار میں آدمی اپنے وصل سے دور ہوتا ہے

    ReplyDelete

Post a Comment