لاتفسدو

کراچی شہر کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال سے کون اب بے خبر ہوگا۔ ہر کچھ عرصے بعد شہر میں ہنگاموں کی لہر پھوٹ پڑنا، سیکڑوں افراد کا انسانی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھنا اور پھر چند نمائشی اقدامات اور امن قائم کرنے کے وعدوں پر مشتمل پریس کانفرنسوں کے بعد خاموش ہو بیٹھنا ایک معمول بن چکا ہے۔ لیکن یہ خاموشیاں بلاشبہ نئے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے اس دوران اگلے فسادات کی بھرپور تیاری اور منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔
اہلِ تشیع ہر سال محرم الحرام کے مہینے میں مخصوص تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں۔ دیگر تمام سیاسی و مذہبی حلقوں کی طرح یہ تمام تقریبات بھی شہر کے مصروف ترین علاقوں اور شاہ راہوں پر منعقد کی جاتی ہیں۔ درحقیقت یہ مذہبی عقیدت کا اظہار کم اور اپنی طاقت کا اظہار زیادہ لگتا ہے۔ صرف اہلِ تشیع کے ساتھ یہ امر مخصوص نہیں، بل کہ شہر کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں کا یہی حال ہے۔ ہر بار شہر کی اہم اور مصروف شاہ راہ محمد علی جناح روڈ کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہیں جلسے جلوس اور ریلیاں نکالی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں طاقت کے اظہار کا سب سے منفرد پیمانہ ہے۔ جو جماعت جتنے زیادہ افراد کی پریشانی کا باعث بن کر اُن کی لعنت کی مستحق ٹھہرے گی، بس وہی سب سے زیادہ طاقت ور ہے۔
لہٰذا اب بات محرم الحرام کی 9 اور 10 تاریخ کی چھٹیوں تک محدود نہیں رہی ہے بل کہ سات اور آٹھ محرم کو بھی شہر کی مرکزی شاہ راہوں کا وہ حال ہوتا ہے کہ افراد کی بڑی تعداد کے معمولات متاثر ہوتے ہیں۔
مخالف نے سوچا کہ دشمن کیوں آگے رہے؟ نتیجتاً اب تمام خلفائے راشدین کے ایام منانے اور اُس دن سرکاری چھٹی کا اعلان کرنے کا مطالبہ پیش کیا جانے لگا ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ مطالبات وہی طبقہ کرتا ہے جو محرم الحرام اور دیگر مخصوص ایام کی تقریبات کی شد و مد سے مخالفت کرتے ہوئے یہ دلیل دیتا ہے کہ ان کا حیاتِ طیبہ، دورِ خلفائے راشدین یا صحابہ کرام کے کسی عمل سے کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ یعنی مخالف کو جواب دینے کے لیے اُن ہی تمام افعال کا ارتکاب روا رکھا جاتا ہے جن کی دوسرے محاذ پر مخالفت ہوتی ہے۔
پھر شہر میں فسادات پھوٹ پڑتے ہیں، فرقہ وارانہ فسادات۔ لیکن حکومتی طبقہ اور ذرائع ابلاغ نہ جانے کیا سوچ کر عوام کو بے وقوف بنانا چاہتے ہیں۔ ذرائعِ ابلاغ کہتے ہیں کہ دو گروہوں میں تصادم؛ حکومتی اہل کار کہتے ہیں کہ تیسری قوت لڑانے کی سازش کررہی ہے۔ غالباً اعلا سطح پر اب تک عوام کو بھولا اور احمق سمجھا جارہا ہے۔
اور سیکڑوں انسانی جانوں کے نقصان کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دو فریق ایک پریس کانفرنس میں اکٹھے نظر آتے ہیں، ایک دوسرے سے ہاتھ ملاتے ہیں، امن کا وعدہ کرتے ہیں، بھائی چارگی اور اخوت کی بات کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ تیسری قوت کی تمام سازشوں کو ناکام بنادیں گے۔ جھوٹ بولتے ہیں! تیسری قوت کوئی نہیں، شیطان بھی نہیں۔ یہ سب خود ہی شیطان ہیں، کبھی مذہبی اور کبھی سیاسی راہ نما کے لبادے میں۔ جب ہاتھ ملاتے اور گلے ملتے ہیں تو سوچتے ہوں گے، ان ہی ہاتھوں سے مخالف کا گلا کاٹ ڈالیں گے۔
ہم کئی سالوں سے یہی تماشا دیکھ رہے ہیں؛ اور مستقبل میں بھی نشرِ مکرر جاری رہنے کا یقین ہے۔ عوام کو لاتفسدو، ان اللہ لایحب المفسدین کی آیت سنانے والے فساد فی الارض کرتے رہیں گے۔

Comments

  1. میں تو اب سختی سے اس بات پر عمل کر رہا ہوں۔
    ان فرقہ پرستوں کی مساجد کا رخ کرنا چھوڑ دیا جائے۔
    جب ان کے ریوڑ میں کمی واقع ہو گی تو یہ شیطان خو د بخود ناپید ہو جائیں گے۔
    نئی مساجد امام بار گاہوں وغیرہ کیلئے قطعی چندہ دینا بند کر دیا جائے۔
    ان جلسے جلوسوں میں جانا چھوڑ دیا جائے۔
    اگر یہ نہیں کر سکتے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    مارو اور مرو اور مذہب کے نام پر بہروپیوں کے چیلے بنے رہو۔

    ReplyDelete
  2. عمار بھائی اردو بلاگنگ پے کے تحاریر کا انتظار رہے گا۔۔۔

    ReplyDelete
  3. ہموطنِوں کی اکثریت نے نمود و نمائش کا جیسے مقابلہ شروع کر رکھا ہے ۔ مذہب ۔ شادی بیاہ ۔ بچوں کی تعلیم ۔ گھر ۔ لباس ۔ کھانا پینا ۔ حتٰی کہ بول چال سب میں اول ترجیح نمود و نمائش ہی ہی کو حاصل ہے ۔

    ReplyDelete
  4. جہاں تک کراچی کا تعلق ہے ۔ یہ سب کارستانی صوبائی حکومت میں شامل تینوں جماعتوں کی ہے ۔ آپ نے قرآن شریف ” لا تُفسِدُو“ استعمال کیا ۔ اس سلسہ میں ملاحظہ ہو اللہ کا فرمان سورت بقرہ آیایات 10 تا 12
    ان کے دلوں میں بیماری ہے پھر بڑھا دی اللہ نے ان کی بیماری اور ان کے لئے عذاب دردناک ہے اس بات پر کہ جھوٹ کہتے تھے
    اور جب کہا جاتا ہے ان کو فساد نہ ڈالو ملک میں تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں
    جان لو وہی ہیں خرابی کرنے والے لیکن نہیں سمجھتے

    ReplyDelete
  5. یاسر خوامخواہ جاپانی!
    کاش کہ ہماری "اھدنا الصراط المستقیم" والی دعا شرفِ قبولیت حاصل کرلے۔

    اسماعیل شاہ!
    مجھے یاد ہے :)

    افتخار اجمل!
    کراچی کی صورتِ حال تو اس قدر بگڑ چکی ہے کہ جب اس کی درستگی کے امکانات کا جائزہ لیتا ہوں تو عملی طور پر اب بہ ظاہر ناممکن ہی لگتا ہے۔
    فساد کرنے والوں کی جانب سے نام نہاد اصلاح کے دعوے پر یہ آیت بہت واضح ہے۔

    ReplyDelete

Post a Comment