ج سے جشن، جلوس، جلسہ اور جلن

ہر سال ماہِ ربیع الاوّل کی آمد سے ہی کچھ لوگوں کے پیٹ میں مروڑ اُٹھنا شروع ہوجاتے ہیں، بدعت اور محبت پر بڑی بڑی تقریریں جھاڑی جاتی ہیں، بارہ ولادت یا وفات کی بحث چھیڑی جاتی ہے، اس سال بھی یہی معمول رہا۔ لیکن احباب نے 12 ربیع الاوّل سے قبل اور بعد، اپنے دوغلے پن کا شان دار مظاہرہ کیا۔ 27 جنوری 2012ء کو ’’امامِ انقلاب‘‘ فضل الرحمان نے مزارِ قائد کے پاس ’’اسلام زندہ باد کانفرنس‘‘ منعقد کی جب کہ 12 فروری 2012ء کو دفاعِ پاکستان کونسل نے ’’دفاعِ پاکستان کانفرنس‘‘ کا انعقاد کیا جس میں بہت سی مذہبی و سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔ کانفرنس سے دو ہفتے پہلے ہی کراچی شہر میں جگہ جگہ کیمپ لگائے گئے تھے جن پر بلند آواز میں اعلانات اور گیت چلتے رہے۔ اور میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محافل پر بدعت کا الزام دھرنے والے اپنے کارِ بدعت کے لیے لوگوں کو دعوت دیتے نظر آئے۔ حضور، اب یہ نہ کہیے گا کہ بدعت سے مراد دین میں نئی اختراع نکالنا ہے، دنیاوی اُمور میں نہیں، کیوں کہ آپ تو ’’جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی‘‘ کے اقبالی فلسفے کے پرچاری ہیں، وہ الگ بات ہے کہ آپ کی سیاست سے دین جدا ہوا یا نہیں، لیکن آپ نے اپنے دین میں بھی سیاست کی آمیزش کرلی ہے۔ جلوسوں سے جلنے والے اور عوام کی پریشانی کا سب سے زیادہ درد رکھنے والے اپنی اپنی جماعتوں کے جلوسوں پر چپ سادھے رہتے ہیں، اُنھیں یہ بھی نظر نہیں آتا کہ اُن کی جماعت ہر بار شہر کی مصروف ترین شاہ راہ پر مصروف ترین اوقات ہی میں جلوس اور جلوسیاں نکال کر عوام کو مستقل پریشان کیے رکھتی ہے، اُنھیں یہ بھی دکھائی نہیں دیتا کہ اُن کی مذہبی سیاسی جماعت اپنے ہر جلسے کے لیے شہر میں جگہ جگہ بڑے کیمپ لگاکر لوگوں کے کان پھاڑنے کا ’’مذہبی‘‘ فریضہ بہ خوبی انجام دیتی رہتی ہے، انھیں جلن اُٹھتی ہے تو بس ایسے جلوسوں سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشی میں نکالے جائیں، جلن اُٹھتی ہے تو ایسے نعروں سے جن میں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہو۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایک بار بھی ایسا ہوا؟ کیا صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا عشق ہم سے زیادہ نہیں تھا؟ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ کیا ہمارے ملک عزیز پاکستان کی اہمیت مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر ہے؟ کیا صحابہ نے مدینے کی حفاظت کے لیے ایسے جلسے جلوس نکالے؟
یہ احباب اپنے مدارس کے سالانہ جلسۂ دستارِ فضیلت اور دیگر جلسوں کے انعقاد پر بھی چپ سادھے بیٹھے رہتے ہیں۔ کیا ان کے مدارس سے فارغ ہونے والے طلبہ صحابہ کرام سے زیادہ علم حاصل کرلیتے ہیں جو اُن کے لیے ایسے جلسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے؟ یہ صاحبان اپنی مساجد، مدارس، دارالعلوم کے یومِ تاسیس پر بھی محافل کا انعقاد کرتے ہیں، کیا رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں ایسی کوئی مثال ملتی ہے؟ 1980ء میں دارالعلوم دیوبند کا صد سالہ جشن منایا گیا جس میں مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے اندرا گاندھی نے شرکت کی جنھیں منبر پر بھی بٹھایا گیا، کیا دورِ نبوت و خلافت میں ایسی کوئی مثال ملتی ہے کہ کسی مسجد یا دارالعلوم کے ایک سال یا چند سال مکمل ہونے پر ایسی تقریبات کا انعقاد کیا گیا ہو؟ کیا مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیر کا ایک سال گزرنے کے بعد کوئی خصوصی محفل کا انعقاد کیا گیا تھا؟ تو پھر جناب کی آنکھیں اپنے بزرگوں اور جماعت کی طرف سے کیوں بند ہیں؟

آخر میں جماعتِ اہلِ حدیث کے ہفت روزہ رسالے سے مختصراً اقتباس پیش کرتا چلوں، جو مجھے ایک مضمون سے ملے۔ ہفت روزہ ’’اہلِ حدیث‘‘ لاہور 27 مارچ 1981ء کی اشاعت میں لکھتا ہے:
’’ملک میں حقیقی اسلامی تقریبات کی طرح یہ بھی (عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ایک اسلامی تقریب ہی شمارہوتی ہے اور اس امر واقعہ سے آپ بھی انکار نہیں کرسکتے کہ اب ہر برس ہی 12 ربیع الاول کو اس تقریب کے اجلال و احترام میں سرکاری طور پر ملک بھر میں تعطیل عام ہوتی ہے اور آپ اگر سرکاری ملازم ہیں تو اپنے منہ سے اس کو ہزار بار بدعت کہنے کے باوجود آ پ بھی یہ چھٹی مناتے ہیں اور آئندہ بھی یہ جب تک یہاں چلتی ہے آپ اپنی تمام تر (اہلحدیثیت ) کے باوجود یہ چھٹی مناتے رہیں گے ۔۔۔۔ خواہ کوئی ہزار منہ بنائے دس ہزار بار ناراض ہوکر بگڑے جب تک خدا تعالیٰ کو منظور ہوا یہاں اس تقریب کی کارفرمائی ایک امر واقعہ ہی ہے ۔۔۔۔
۔۔۔ حکومت اگر اپنے زیراہتمام تقریب کو سادہ رکھے اور دوسروں کو بھی اس بات کی پرزور تلقین کرے تو اس کااثر یقینا خاطرخواہ ہوگا ۔ انشاءاللہ ۔ اس تقریب کے ضمن میں جتنے بھی جلوس نکلتے ہیں اگر ان کو حکومت کے اہتمام سے خاص کردیا جائے تو یہ کام ہرگز مشکل نہیں ہے ، ہر جگہ کے حکام بآسانی اس کام کو سرانجام دے سکتے ہیں ، اگر ہر شہر میں صرف ایک ہی جلوس نکلے اور اسے ہر ہر جگہ کے سرکاری حکام کنٹرول کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ مفاسد اچھل سکیں اور مصائب رونما ہوں ۔۔۔۔
۔۔۔ اگر عید کے نام پر ہی آپ کا یوم ولادت منانا ہے تو رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کی طرف دیکھیں کہ آپ نے یہ دن کیسے منایا تھا ؟ سنئے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دن منایا پر اتنی ترمیم کے ساتھ کہ اسے تنہا عید میلاد نہیں رہنے دیا بلکہ عید میلاد اور عید بعث کہہ کر منایا اور منایا بھی روزہ رکھ کر اور سال بہ سال نہیں بلکہ ہر ہفتہ منایا ۔ ‘‘

اور جن صاحبان کو لفظ ’’عید‘‘ کے استعمال پر اعتراض ہے، اُن کے لیے عرض یہ ہے کہ عیدِ شرعی اور عیدِ مسرت میں بہت فرق ہے اور عیدِ میلاد کو کوئی بھی عیدِ شرعی نہیں کہتا اس لیے اس کی نماز اور خطبے کا سوال باطل ہوجاتا ہے۔ اور اگر آپ کو صرف لفظ ’’عید‘‘ ہی پر اعتراض ہو تو عید نہ سمجھ کر خوشی منالیں۔ ویسے جماعتِ اہلِ حدیث کے ترجمان ہفت روزہ ’’تنظیمِ اہلِ حدیث‘‘ لاہور نے 17 مئی 1963ء کی اشاعت میں لکھا ہے:
’’مومن کی پانچ عیدیں ہیں ، جس دن گناہ سے محفوظ رہے ، جس دن خاتمہ بالخیر ہو ، جس دن پل سے سلامتی کے ساتھ گزرے ، جس دن جنت میں داخل ہو اور جب پردردگار کے دیدار سے بہر ہ یاب ہو۔‘‘

وضاحت: اگر آپ میرے بلاگ کے پُرانے قاری ہیں تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ تحریر ’’نہ یہ طرز مِری نہ یہ رنگ مرا، ناچار اس راہ پڑا جانا‘‘ کی صورت ہے۔ میں عموماً ایسے موضوعات پر تحاریر لکھنے سے گریز کرتا ہوں لیکن اس بار اردو بلاگستان میں ایسی کئی تحاریر پڑھنے کے بعد میں نے یہ تحریر لکھی۔ اس کامقصد اردو بلاگنگ میں نئی بحث، جھگڑے اور گروہ بندی کا آغاز کرنا نہیں ہے جیسا کہ پچھلے سالوں میں مختلف وجوہات کی بِنا پر ہوتا رہا۔ باقی مجھ سے میری رائے پوچھیں تو میں جلوسوں کا مخالف ہوں چاہے وہ کسی بھی موقع اور کسی بھی نوعیت کے ہوں، اور وجہ صرف عوام کو پہنچنے والی تکلیف۔ اس لیے میں مذہبی یا سیاسی، کسی بھی جلوس میں شرکت نہیں کرتا۔ اور جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بھی میں یہی کہتا ہوں کہ جشن کے کسی انداز پر مناسب پیرائے میں اعتراض کیا جاسکتا ہے لیکن جشن پر اعتراض بے بنیاد ہے۔

Comments

  1. Very nice Jazak Allah.

    اللھم صل علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی اِبراھیم وعلٰی آل اِبراھیم اِنک حمید مجید ہ
    اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی اِبراھیم وعلٰی آل اِبراھیم انک حمید مجید

    ReplyDelete
  2. بہت خوب۔ آپ بھی گھی کو ٹیڑھی انگلیوں سے نکالنے کے فن میں عبور حاصل کرنے کود پڑے کیا؟ :)

    شاید کئی لوگوں کے دل کو ٹھیس پہنچنے والی یہی بات تھی جس کی وجہ سے میں نے اس موضوع پر کہیں بات کرنا مناسب خیال نہیں کیا۔

    ReplyDelete
  3. محترم میں بھی آپ کے ساتھ بارہ ربیع الاول کو آپ صلی اللہ و علیہ وسلم کی سالگرہ بناو گا لیکن اگر آپ یا کوئی بدعتی عالم یہ ثابت کردے کہ سرور کائنات اسی روز تشریف لائے۔ پہلے سالگرہ کی تاریخ کا فیصلہ کرلیں پھر سالگرہ بھی بنالیں گے۔ کاش قوم کو سرور کائنات کی سالگرہ کے جشن کو عام کرنے سے زیادہ سرور کائنات کی سیرت کو عام کرنے کی فکر ہوتی، کاش

    ReplyDelete
  4. آپ کو اپنے اعلی حضرت احمد رضا خان کی اصل کتاب کا سکین پیج دکھا کر ثابت کرکے دیا تھا کہ بارہ ربیع الاول حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا دن ہے، اسکا تذکرہ بھی فرما دیتے تو اچھا رہتا۔
    بھئی جشن عید میلاد النبی کی مولانا فضل الرحمان وغیرہ کے جلسوں سے نہ کوئی ظاہری یا باطنی مماثلت ہے اور نہ یہ کوئی شرعی دلیل ہے ، جشن ثابت کرنا ہے تو قرآن و حدیث و صحابہ کی زندگی سے کوئی دلیل لاؤ۔

    جس طرح آپ نے جشن عید میلا ثابت کرنے کے لیے دلیلیں دیں ہیں اس طرح کی دلیلیں چند دن پہلے آپ ہی کے ایک دوست نے دیں تھیں، انہوں نے فرمایا تم اپنے بچے کی محبت میں سالگرہ کرتے ہوں، جشن مناتے ہوں، کیک کاٹتے ہوں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سالگرہ کو ناجائز کیوں کہتے ہوں ؟
    ، میں ایسی دلیلیں دینے والوں کو انہی کے انداز میں جواب دیا کرتا ہوں میں نے اسے کہا اچھی دلیلیں پکڑتے ہو تم کل کہوں گے تم اپنی شادیوں میں کنجریوں سے ڈانس کرواتے ہوں، ہم اپنے جلوس میں بھنگڑے بھی نہ ڈالیں آخر کیوں ؟

    تم اپنے فنکشن میں میوزک والے گانے لگاتے ہوں اگر ہم حضور صلی اللہ وسلم کی ولادت کی خوشی میں میوزک والی نعتیں پڑھ لیں تو کیا مسئلہ ہے ؟

    صدر کے آنے پر سڑک پر روٹ لگ جاتا ہے اورگھنٹوں ٹریفک بلاک رہتی ہے اگر ایک دن نبی کے آنے پر رستے بند ہوگئے تو کیا ہوا، سارا سال کھلے بھی تو رہتے ہیں نا۔

    بدعتیوں کے پاس ایسی ہی دلچسپ دلیلیں ہوتیں ہیں ۔

    ReplyDelete
  5. محمد نعمان13 February 2012 at 22:14

    آپ نے بدعت کے لیے کی جانے والی تعریف کودہرانے سے منع کر دیا، ورنہ میں عرض کرتا کہ یہ ہماری یا آپ کی بنائی ہوئی تعریف نہیں یہ تو محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے صحابہ کی کی ہوئی تشریحِ حدیث ہے۔ جسے بیان نہ کر کے خیانت کے مرتکب ہونا ہم نہیں چاہتے۔ ویسے آپ نے جلسے جلوسوں پر تو بہت جامع بات کی جس کے اپ مخالف بھی ہیں، مگر عید پر آپ نے کچھ خاص بات نہ کی حالانکہ غم بھی اپ کو اس عید پر لوگوں کے اعتراض سے ہوا ہے۔

    آپ نے مشورہ دیا ہے کہ اگر کسی کو عید لفظ سے مسئلہ ہے تو وہ اسے عید نہ سمجھ کر خوشی منا لے، تو جناب نہ تو لفط عید سے ہی مسئلہ ہے نہ اس عید بمعنی خوشی کے منانے سے مسئلہ ہے۔ مسئلہ تو ہمیں اس عید کی تخصیص سے ہے۔ عید بمعنی خوشی منائیں مگر مروجہ تخصیص کے ساتھ نہیں۔ خدارا اسے دین کے اندر داخل کر کے اس پر اترائیں نہیں۔

    ReplyDelete
  6. سچ بات تو یہ ہے جناب، کہ ہماری قوم شغل میلے کی شوقین ہے۔۔۔ اب وہ چاہے کیسا بھی ہو۔۔۔ شرعی یا غیر شرعی کی تو بات ہی چھوڑ دیں۔۔۔ اب یہی عیدِ میلاد منانے والے کل کو شغل میلے کے طور پر "ویلنٹائن ڈے" بھی منائیں گے۔۔۔ یہی عاشقانِ رسولﷺ کسی اور سنت یا حدیث تو کجا فرض کی پرواہ اتنے شوق سے نہیں کرتے جتنی عیدِ میلاد پر سجاوٹ اور میوزک سسٹم پر کرتے ہیں۔۔۔ واللہ اگر اسی کو عشقِ رسول کہتے ہیں تو مجھے ایسے عشق سے مبرا ہی سمجھیے۔۔۔ میرے نزدیک یہ بدعت نہیں منافقت ہے۔۔۔ اور کچھ نہیں۔۔۔

    ReplyDelete
  7. اصطلاح میں بدعت اُس کو کہتے ہیں جسکا محرک موجود ہونے کے باوجود اصل خیر القرون میں موجود نہ ہو اور اُسکو دین میں ثواب کے نام پر کیا جاتا ہو ۔ آپ نے اپنے مخالفین کی جس جس چیز کو بدعت کہا ہے ، اُس کو اس تعریف پر لاگو کر کے دیکھیں ، اگر پوری اتری تو کرسی سے اُٹھ کر وہ دھمال جو آپ میلاد والے دن نہیں ڈال سکے تھے اب دگنی خوشی پر ڈال لیں ۔
    ویسے اقبالی فلسفے کو دین مین شامل کرنا ؟؟؟ وہی علامہ اقبال جن پر میلادیوں نے کفر کا فتویٰ لگایا ۔ اور اب کے میلادی اقبالی فلسفوں کو دین میں شامل کرنے کی بدعت سر انجام دیتے ہیں ۔

    بات ختم بخاری کی ہو گئی ، ختم بخاری گریجویشن سرمنی ہے ۔

    ختم بخاری کو فرض سمجھ کر کیا جاتا ہے ؟
    ختم بخاری نہ کرنے والوں کو گستاخ رسول سمجھا جاتا ہے ؟
    ختم بخاری کو ہر سال بارہ ربیع الاول کو کیا جاتا ہے ؟

    اوہ ہو ، بڑا زور لگا لیا ختم بخاری بدعت نہیں بنا ۔۔۔ چلو پھر بھی مان لیا کہ بدعت ہے ۔۔۔ تو اگر مخالف بدعت میں تقریر کرے تو آپکا دھمال ڈالنا جائز ؟؟؟ اویس قادری کے نچ مجاجن نچ مجاجن کی طرز پر کالوں کے ریپ میں بیک گراونڈ میوزک کی نقل میں اللہ اللہ کی آواز نکال کر شرک سے بھرپور نعت کی دھن پر ہر پگڑیاں پہن کر مائیکل جیکسن کے جانشین پیدا کرنا جائز ؟؟؟

    دارلعلوم نے صد سالہ جشن نہیں منایا تھا بلکہ اجلاس بلایا تھا ۔ بدعت تب ہو گا جب یہ کہا جائے کہ ہم ہر سو سال بعد اسکو فرض سمجھ کر کریں گے اور جو نہ کرے گا اُسکو گستاخ رسول سمجھیں گے اور جھنڈیا لگا کر محلوں کو مہندی لگا کر دلہن کی طرح سجائیں گے ۔
    اندرا گاندھی مہمان خصوصی ۔۔ واہ جناب واہ ۔۔

    اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو جناب کو معلوم ہو گا کہ اندرا گاندھی خود آئی تھی ، اور باوجود انتظامیہ کے منع کرنے کے ضد کر کے وہاں سٹیج پر چڑھی تھی ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت اور اُسکا حکومت میں ایک بڑے عہدے پر ہونے کو بھی مدِ نظر رکھیں ۔
    پھر آپ اُن میلادیون کو کیا کہیں گے جو نہ صرف اسکی پارٹی سے الیکشن جیت کر اُسکو عشائیوں کی دعوت دیتے رہے ، اور راجیو گاندھی کے مرنے پر قل کی محافل کا انعقاد بھی کرتے رہے ۔۔۔

    جناب ابن ضیا بھائی ، فرسٹریشن اور غصہ ایک فطری چیز ہے لیکن سر جی حلوہ خور میلادیوں کی اس قسم کی تحاریر سے اگر آپ اپنے مضمون کے لیے مواد لیں گے تو پھر آپ کی بھی ہنسی اُڑے گی ۔۔۔ لیکن جناب عشق رسول میں اگر موت بھی قبول ہے تو فضول اور قیاسی دلائل دے کر ہنسی اڑوانے میں کیا ہرج ہے ، ہیں جی ۔۔۔

    اور دوغلے پن کا طعنہ دیا آپ نے تو ہر وقت دہشت گردی کے طعنے دینے والوں کو کبھی سنی تحریک کے بھتہ خود نہ دکھے ؟؟؟ سچ کہا ، کہ غصے میں انسان سوچنا چھوڑ دیت ہے ۔ امید ہے اگر میرے کمنٹ کا جواب لکھیں تو سوچ کر لکھیں گے ۔

    ReplyDelete
  8. عمار، یار اسی لیے غصے کو حرام کہا گیا ہے
    ایسی دلیلیں دیں کہ آنٹی یاد آگئیں مجھے

    ReplyDelete
  9. Assalam Alaikum.
    Buhat maza aaraha he.
    Janab ne buhat acha kiya he blog likh kar.
    Magar jawab al jawab ke tu kiya hi kehne he.
    Aik bat he Huzoor ke name itni muhabbat he k sab jazbati hojate he chahe koi bhi ho, lajawab he ye, Tum sab ko Is Aajiz ka Salam he

    ReplyDelete
  10. دیکھیے صاحب اس بات سے قطع نظر کہ کونسا تہوار دینی اور کونسا بدعتی ہے بحیثیت مجموعی ہمارے منانے کے طریقے ایذا رسانی کے قریب قریب رہتے ہیں اور چند شرپسندوں کا شر اور کچھ جوشیلوں کا جوش ہمیشہ کسی بھی تہوار، رسم یا میلے کے مخالفین کو کافی مواد فراہم کردیتا ہے۔ پھر ایک طبقہ ٹھیکیداراں بھی موجود ہے جو جنوری میں سال نو کی آمد سے شروع ہوکر دسمبر میں جناح صاحب کی سالگرہ تک آپ کی ہر خوشی، غمی اور اظہار جذبات سے کفر برآمد کرتا رہے گا۔تو صاحب یہ مسئلہ گھمبیر اور محض ربیع الاول تک محدود نہیں :)اور اسکا حل مناظرے سے زیادہ مکالمے میں موجود ہے۔

    ReplyDelete
  11. بھائی ابن ضیاء آپ نے تحریر تو بہت اچھی لکھی مگر ہم مسلوں میں مرض یہ ہے کہ ہم اپنے گریبان میں جھانک کر نہیں دیکھتے،اور دسروں کی طرف ہم اپنی ۵ انگلیاں کر دیتے ہیں، اللہ سب کو ہدایت دیں۔آمین

    ReplyDelete
  12. ابن ضیاء صاحب اچھی تحریر لکھی آپ نے ۔اور تبصرے بھی میری توقع کے عین مطابق ہوئے ۔ عشق رسول کا دعوی کرنے والوں کے عشق کی انتہا نیچے دئے گئے لنک پر دیکھی جا سکتی ہے ۔ کیسے پورا ہال تالیاں بجا رہا ہے ۔
    http://www.youtube.com/watch?v=1IhjDimso54

    ReplyDelete
  13. ابوشامل!
    میں بھی اسی لیے خاموشی پسند کرتا ہوں۔

    کاشف نصیر!
    یہ عذرِ لنگ ہے۔ اگر آپ کے نزدیک بارہ ربیع الاوّل تاریخِ ولادت نہیں تو جو تاریخِ ولادت ہے کیا آپ اُس دن خوشی مناتے ہیں؟ یا کم از کم اتنا تو مانتے ہیں نا کہ ربیع الاوّل ہی ماہِ ولادت ہے تو کیا تاریخ کی تخصیص کے بغیر اس ماہ کے کسی بھی دن خوشی مناتے ہیں؟

    نامعلوم!
    تاریخِ وفات کا ذکر کرنا تھا لیکن رہ گیا۔ ہمارے لیے کسی کے وصال پر تین دن سے زیادہ سوگ نہیں۔ اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف اپنی حیات ہی میں رحمت اللعالمین نہیں تھے بلکہ تاقیامت رہیں گے۔ یہ رحمت اللعالمین کے مولود کی خوشی ہے، وفات کا غم وہ منائے جس سے نبی کی رحمت اُن کے وصال کے بعد چھن گئی ہو۔
    باقی جو دلائل ہیں، وہ جشنِ ولادت کے نہیں بلکہ معترضین کے دوغلے پن پر ہیں۔ دلائل پر بہت سی کتب لکھی جاچکی ہیں، اُن کے بعد میرے کچھ لکھنے کی گنجائش نہیں۔ آپ نے جتنی باتیں کی ہیں، اندازِ جشن پر کی ہیں اور میں اس خوشی کو منانے کے بہت سے مروجہ طریقوں کے خلاف ہوں اس لیے بھنگڑوں، میوزک والی نعتوں جیسے طعنوں سے بات گھمانے کی کوشش نہ کریں۔ اس کی گنجائش تو کسی نے نہیں دی۔

    محمد نعمان!
    میں نے ہرگز نہیں کہا کہ بدعت کی یہ تعریف ہماری یا آپ کی بنائی ہوئی ہے۔ اور عید کی تخصیص کسی نے فرض یا واجب قرار نہیں دی ہے۔ آپ بارہ کو نہیں مناتے، آٹھ/ نو کو منالیں۔ ایک سال چھوڑ کر منالیں یا پوری زندگی نہ منائیں۔ کوئی آپ کو اس بنیاد پر دائرۂ اسلام سے خارج نہیں کرسکتا۔

    عمران اقبال!
    یہ آپ جنرلائز کررہے ہیں۔ کچھ حد تک آپ کی بات درست ہے لیکن سب پر منطبق نہیں ہوسکتی۔

    انکل ٹام!
    ختم بخاری کی طرح جشنِ مولود بھی فرض یا واجب سمجھ کر نہیں کیا جاتا، یہ آپ کا اپنا مفروضہ ہے۔ ختمِ بخاری کی طرح جشنِ مولود نہ منانے والوں کو بھی گستاخِ رسول نہیں سمجھا جاتا لیکن حضور، اگر کوئی بخاری کی شان میں گستاخی کرے، اُس کی صحت کا انکار کرے، احادیثِ نبویہ کا منکر ہو، تب آپ کو کوئی تکلیف ہوتی ہے یا نہیں؟ منانا یا نہ منانا مسئلہ نہیں ہے، منانے کو فرض یا واجب سمجھ لینا، یا بدعت و گمراہی سمجھ لینا، دونوں انتہائی راستے ہیں۔ ویسے آپ کے ہاں ختمِ بخاری ثواب سمجھ کر کیا جاتا ہے یا نہیں؟
    ’’اگر تاریخ کا مطالعہ کریں تو جناب کو معلوم ہو گا کہ اندرا گاندھی خود آئی تھی ، اور باوجود انتظامیہ کے منع کرنے کے ضد کر کے وہاں سٹیج پر چڑھی تھی ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت اور اُسکا حکومت میں ایک بڑے عہدے پر ہونے کو بھی مدِ نظر رکھیں ۔‘‘ یہ آپ دبے دبے الفاظ میں معذرت خواہانہ انداز پر اُتر آئے ہیں۔
    باقی رہے دھمال ڈالنے اور گانوں کی طرز پر نعت پڑھنے پر اعتراضات۔۔۔ جناب میری کسی تحریر سے ایسی کسی چیز کی حمایت نہیں پائیں گے۔ نہ ہی سنی تحریک کے بھتوں کا جواز۔۔۔ لگتا ہے تبصرہ لکھتے ہوئے یہاں تک پہنچ کر آپ خود جذبات کی رَو میں بہہ گئے تھے۔

    جعفر!
    چلیں، آپ کو اُن کے پائے کی تحریر تو لگی۔ یہ دلائل نہیں ہیں، معترضین کا دوسرا رُخ ہے۔ دلائل کے لیے بہت سی کتب موجود ہیں۔

    راشد کامران!
    درست فرمایا آپ نے۔

    وسیم حبیب!
    بالکل متفق ہوں۔ آمین۔

    محمود الحق!
    شکریہ جناب۔

    ReplyDelete
  14. عمار ابنِ ضیا دل خوش کر دیا آپ نے۔چند لوگ واقعی میلاد میں غلط حرکات کرتے ہیں اور یہ واقعی قابلِ مزمت ہے لیکن اس سے پورے کے پورے مسلک ماننے والوں کو برا کہنا اور ان پر بدعت شرک اور الا بلا قسم کے فتوے لگانا یہ کہاں لکھا ہے؟بہر حال آپ نے اپنے حسے کی شمع جلائی اور اللہ تعالیٰ آپکو اسکا اجر دیگا انشااللہ

    ReplyDelete

Post a Comment