عامر لیاقت کی ویڈیو جیسی بے کار کی باتیں

آج کل عامر لیاقت حسین کی ایک ویڈیو کا بڑا چرچا ہے جو اُن کے ٹی وی پروگراموں کی ریکارڈنگ کے مختلف حصوں پر مشتمل ہے۔ اس ویڈیو میں عامر لیاقت پسِ پردہ نازیبا الفاظ کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ احباب کو اس پر اعتراضات ہیں۔ کچھ لوگ حیران ہیں کہ اسلامی پروگرام کرنے والا پسِ پردہ کس طرح کی زبان استعمال کرتا ہے۔ اُن کے پیشِ نظر شاید یہ پہلو نہیں رہتا کہ یہ کوئی عالمِ دین یا مذہبی پیشوا قسم کی شخصیت نہیں ہے۔ عامر لیاقت بھی اُن ہی اداکاروں اور اداکاراؤں کی طرح ہے جو ہر قسم کے کام کرنے کے بعد ماہِ رمضان میں پارسائی کا لبادہ اوڑھ کر ٹی وی اسکرینوں پر اللہ رسول اور اسلام کی پیاری پیاری باتیں کرتے نظر آتے ہیں۔

کچھ لوگ اپنے مطلب کی بات کرنے کے لیے اتنی دور کی کوڑی لاتے ہیں کہ مجھے حیرت ہوتی ہے۔ علمائے دین سے خار کھائے ہوئے اور جا بہ جا بلا وجہ اُن پر تنقید کرنے کا موقع ڈھونڈنے والوں کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو سے صرف عامر لیاقت ہی نہیں بل کہ علما کا اصل چہرہ بھی بے نقاب ہوگیا کہ کسی ایک عالم نے بھی اُسے روکنے کی کوشش نہیں کی۔ ان روشن خیالوں کے ذہن کی تاریکی اُنھیں عام شخص اور عالمِ دین میں امتیاز محسوس کرنے کے قابل ہی نہیں چھوڑتی۔ ان کی مثال بھی اُن ہی جہلا کی سی ہے جو سینما سے نکلتے ہوئے داڑھی والے ہر پٹھان بھائی کو دیکھ کر کہتے پھرتے ہیں کہ مولوی لوگ بھی فلمیں دیکھنے جاتے ہیں۔ اس ویڈیو میں اگر آپ دیکھیں تو علما کے سامنے عامر لیاقت نے کوئی گالی نہیں دی ہے۔ شروع میں جس شخص کے سامنے اُس نے گالی دی، وہ مذہبی عالم نہیں بلکہ قصیدہ بردہ شریف کی تلاوت کرنے والا ایک شخص تھا۔

بہ ہر حال، عامر لیاقت کی ویڈیو کوئی حیرت یا اچنبھے کا باعث نہیں، خاص کر ہم کراچی والوں کو تو بالکل حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ عامر لیاقت کا تعلق بھی اسی شہرِ کراچی سے ہے، نیز کراچی کی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ سے طویل عرصے وابستگی رہی ہے اور ماشاء اللہ اس سیاسی جماعت کے کارکنان کا جو خوش اخلاق لہجہ اور شیریں زبان ہوتی ہے، عامر لیاقت کی گفت گو اُس کا بہت ہی معمولی سا نمونہ ہے۔ باقی آپ کراچی میں عام افراد کی بات چیت بھی سن کر دیکھیے، لوگ ماں بہن کی گالی سے گفت گو کا آغاز اور انجام کرتے ہیں۔ مجھے لوگوں کو بات کرتے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنی بے ساختہ گالیاں دیتے ہیں اور فحش الفاظ اپنے جملوں میں بلاضرورت اس طرح ٹانکتے ہیں کہ اُن کی تعداد آسمان میں ستاروں کی تعداد سے بڑھ جاتی ہے۔ مجھ جیسا شخص جو ماں بہن کی گالیاں نہیں دیتا اور نہ گفت گو میں فحش الفاظ استعمال کرتا ہے، اُسے تو ایسی ویڈیو پر تنقید کرنے کا حق ہے لیکن وہ لوگ جو اس ویڈیو پر تبصرے کا آغاز ہی گالی سے کرتے ہیں، اُنھیں تو تنقید کا ہرگز حق نہیں۔

نوٹ: اس ویڈیو کے بارے میں شکوک و شبہات بھی ہیں کہ اس میں کچھ جملے الگ سے بھرے گئے ہیں۔

Comments

  1. السلام اعلیکم
    عامر کا تعلق کبھی متحدہ سے تھا لیکن اب وہ ان سے الگ ہوگئے ہیں ان کی کئی باتیں قابل گرفت ہوتی ہیں لیکن چونکہ ان کا تعلق میڈیا سے ہے اس لیے صاف بچ نکلتے ہیں

    ReplyDelete
  2. محترم، آپ نے بجا فرمایا کہ عامر لیاقت کوئی عالم دین نہیں، وہ پہلے سیاست میں سیکیولر نوٹنکی کرتے تھے اور اب مذہب کا لبادہ اوڑھ کر بھی وہی سب کرتے نظر آرہے ہیں۔

    اعتراض اس بات پر ہے کہ آپ نے کراچی کے عام افراد کی گفت و شنید کو فحش الفاظ سے مزین قرار دیا ہے۔ یہ بلینکٹ اسٹیٹمنٹ خوش گفتار، بذلہ سنج و خوش طبع اہلیان کراچی کے دل پر ناوک مژگاں کی طرح پیوست ہوئی ہے۔ امید ہے اس جملے کی وضاحت و اصلاح فرمائیں گے۔

    ReplyDelete
  3. آپ کی پوسٹ پڑھ کر نہ جانے کیوں مجھے شتر مرغ یاد آگیا۔ بوجھ اٹھانے کو کہا جائے تو وہ اپنا مرغ ہونا یاد دلائے اور اڑنے کو کہا جائے تو شتر ہونا یاد دلائے۔ کل ملاکے دونوں ہاتھ میں لڈ

    سعید

    ReplyDelete
  4. مطلوب!
    وعلیکم السلام۔ جی، میرے جملے کا مطلب یہی تھا کہ اُن کی وابستگی رہی ہے ایم۔کیو۔ایم سے، اگرچہ اب اُس سے علاحدہ ہوچکے۔

    عدنان مسعود!
    جناب، میں خود بھی کراچی والا ہی ہوں اس لیے امید ہے کہ اس جملے کو تعصب کی نگاہ سے نہیں دیکھا جائے گا۔ اب چاہے اسے جس لبادے میں بھی لپیٹ کر چھپانے کی کوشش کی جائے، لیکن حقیقت یہی ہے۔ میں سارے کراچی والوں کو ایسا نہیں کہہ رہا، میرے گھر میں کبھی گالی نہیں دی جاتی اور ہماری تربیت بھی اس طرح کی گئی ہے کہ ہم گالیاں نہیں دیتے لیکن مشاہدہ ہے کہ اکثر گھروں میں باپ اپنے بچوں کو ماں بہن کی گالیاں دینے سے نہیں چوکتے۔ نوجوانوں کی گفت گو کا تو کیا ہی کہنا۔ اللہ ہدایت دے۔ آپ سمیت میرے جن قارئین کا تعلق کراچی سے ہے اور اُن کی گفت گو گالیوں یا فحش الفاظ سے پاک ہوتی ہے، اُن سے بہت معذرت۔ میرا وہ جملہ عوام کی اکثریت کے بارے میں ہے۔

    سعید!
    میں سیدھا سادہ انسان ہوں، معذرت خواہ ہوں کہ آپ کا فلسفیانہ نکتہ سمجھنے سے قاصر رہا۔

    ReplyDelete
  5. اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی امان میں رکھے اور اپنی سمجھ بُوجھ اِستعمال کرنے کی توفیق دےآمین

    شاہدہ اکرم

    ReplyDelete
  6. نوٹ: اس ویڈیو کے بارے میں شکوک و شبہات بھی ہیں کہ اس میں کچھ جملے الگ سے بھرے گئے ہیں۔

    ایک طرف تو آپ باقائیدہ فتویٰ صادر کر رہے ہیں عامر لیاقت صاحب کے خلاف اور دوسری طرف آپ آخر میں یہ نوٹ بھی لکھہ رہے ہیں کے یہ معاملا متنازعہ ہے، میرا نہیں خیال کے متنازعہ معاملے پر اسطرح کسی کی کردار کشی جائز ہے۔

    ReplyDelete
  7. عام لیاقت کی بات کے علاوہ یہ جو آپ نے کراچی کی عام عوام کے بات چیت کے انداز کی بات کی ہے اس سے یقینا تعصب کی عینک پہننے والوں کو موقع مل جائے گا۔ جبکہ دیکھا جائے تو ملک کے اکثر علاقوں کے رہنے والوں کا یہی حال ہے۔
    ویسے دوستوں میں کراچی کا نہیں بلکہ میں پاکستانی ہوں اور مجھے جتنا اپنا گجرات اور لاہور پیارا ہے اتنا ہی اپنا کراچی بھی پیارا ہے۔
    پاکستان زندہ باد

    ReplyDelete
  8. شاہدہ اکرم!
    آمین ثم آمین۔

    فکرِ پاکستان!
    کیا میں نے اپنی تحریر میں عامر لیاقت کی کردار کشی کی ہے؟ میرے خیال میں، میں نے صرف اس ویڈیو پر حیرت کا اظہار کرنے والوں کو جواب دیا ہے۔ عامر لیاقت کو تو کچھ نہیں کہا۔

    م بلال م!
    بالکل، کراچی کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں میں بھی ایسی ہی بات چیت کا انداز ہوگا لیکن مجھے اس کا علم نہیں ہے اس لیے میں اُن پر کوئی تبصرہ نہیں کرسکتا۔ میں کراچی میں رہتا ہوں اس لیے یہیں کی بات کرسکتا ہوں۔ دوسرے شہر والوں کو کچھ کہا تو مجھ پر بھی تعصب کا الزام لگ سکتا ہے۔ :)

    ReplyDelete
  9. بھائی وہ عزت بچانے کی خاطر خودکشی والے سوال پر ہنسنا کیا کسی گالی سے کم ہے؟
    اور پھر دیوبند مکتب فکر کا سراسر کا مذاق اُڑانا کیا خیال ہے آپ کچھ زیادہ ہی ہاتھ ہولا نہیں رکھ رہے؟

    ReplyDelete
  10. جناب، بات کراچی کی نہیں پورے پاکستان کی ہے جہاں اکثریت گالی گلوچ کے بغیر اپنا مدعا ہی نہیں بیان کر سکتی۔
    اور پھر یہ اداکار عامر لیاقت علی، اس نے یقین جانیئے کچھ بھی غلط نہیں کیا، ہم نے اپنی شخصیت پرستی کی عادت سے مجبور ہو کر اس سے زیادہ توقعات قائم کر رکھی تھیں۔ ورنہ تو وہ وہی کچھ ہی کر رہا ہے جو اس قبیل کے لوگ کرتے ہیں
    یہ ویڈیو جس نے بھی شائع کی ہے اس نے عوام الناس کو مذہب کے نام ایک دھوکے باز سے بچایا ہے اللہ اسکو جزائے خیر دے۔
    اس معاملے پر ایک حقیقی تجزیہ پیش کرنے پر شکریہ قبول کیجیئے۔

    ReplyDelete
  11. غیر مذہبی وضع قطع مذہبی پروگرام پیش کرنے کا فائدہ ہی یہی ہے کہ دوران پروگرام جب فتوی دینے کی باری آئے تو دھڑلے سے فتوی دیا جائے یہ کہتے ہوئے کہ مذہب پر ملاؤں کی اجارہ داری تو نہیں ۔ اور اگر غلط حرکات کرتے ہوئے پکڑے جائیں تو یہ چور دروازہ کھول لیا جائے کہ پرزینٹر کوئی عالمِ دین یا مذہبی پیشوا قسم کی شخصیت تو نہیں

    سعید

    ReplyDelete
  12. بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی
    ویڈیو کی تشہیر اور اس پہ کئے جانے والے تبصروں کے بارے میں میرے بھی یہی خیالات ہیں۔ جہاں تک عامر لیاقت کی بات ہے تو اس بارے میں متضاد باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ کوئی بھی چینل اپنے آف دی ریکارڈ ویڈیوز کیونکر ایکسپوز کرے گا۔ اور ویڈیو میں جہاں بھی علماء کے ساتھ دکھایا گیا ہے وہاں تصویر اتنی دور سے ضرور ہے کہ آپ ہونٹوں کی حرکت نہیں دیکھ سکتے۔(وہ دیوبند والے نعرے میں بھی ویڈیو پورے سیٹ کی ہے)۔ عامر لیاقت پہلے بھی ایک متنازعہ شخصیت کا حامل ہے اور اب بھی کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ اس کی معافی اور ان حرکات سے شرمندگی کی ویڈیوز بھی گردش کر رہی ہیں۔
    اللہ ہی ہدایت دے ہم سب کو۔

    ReplyDelete
  13. اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ کراچی کی اسٹریٹ لینگویج بہت بری ہے. عامر کا تعلق بھی کراچی سے ہی ہے. بہت ممکن ہے یہ سب صحیح ہی ہو. ویسے کچھ جگہ پر مجھے بھی ایڈیٹنگ کا شبہ ہوا. ایڈیٹنگ ہو یا نا ہو ، یہ فوٹیج جاری جیو نے دشمنی میں ہی کی ہے. اور جنگ اور پیار میں تو سب جائز ہے نا؟

    ReplyDelete
  14. عامر لیاقت صاحب کا جواب-
    http://www.express.com.pk/epaper/index.aspx?Issue=NP_LHE&Page=Editorial_Page10&Date=20110819&Pageno=10&View=1

    احمر

    ReplyDelete
  15. عامر صاحب کی نئی ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ اے آر وائی چینل کی سکرین پر ہیں، وہ اس ویڈیو کو "کسی" چینل والوں کی "نفرت کا اظہار" بتا رہے ہیں، اور یہ بھی کہا ہے "آپ جانتے یہ چینل کونسا ہوسکتا ہے۔"

    ReplyDelete
  16. میں نے چاہا اس عید پر
    اک ایسا تحفہ تیری نظر کروں
    اک ایسی دعا تیرے لئے مانگوں
    جو آج تک کسی نے کسی کے لئے نہ مانگی ہو
    جس دعا کو سوچ کر ہی
    دل خوشی سے بھر جائے
    جسے تو کبھی بھولا نہ سکے
    کہ کسی اپنے نےیہ دعا کی تھی
    کہ آنے والے دنوں میں
    غم تیری زندگی میں کبھی نہ آئے
    تیرا دامن خوشیوں سے
    ہمیشہ بھرا رہے
    پر چیز مانگنے سے پہلے
    تیری جھولی میں ہو
    ہر دل میں تیرے لیے پیار ہو
    ہر آنکھ میں تیرے لیے احترام ہو
    ہر کوئی بانہیں پھیلائے تجھے
    اپنے پاس بلاتا ہو
    ہر کوئی تجھے اپنانا چاہتا ہو
    تیری عید واقعی عید ہوجائے
    کیوں کہ کسی اپنے کی دعا تمہارے ساتھ ہے

    ReplyDelete
  17. میں اس ویڈیو کو سچ نہیں مانتی
    یہ سیاست کا ہی ایک حصہ ہے
    یہ ثبوت کافی نہیں
    یہ ایڈٹنگ بھی ہو سکتی ہے

    اگر کوئی اتنا بدزبان ہو سکتا ہے تو کیا ہمارے عالم حضرات ان کی محافلوں میں جاتے؟
    یا سب ہی ایسے ہیں؟
    کیا سب ڈرتے ہیں ان سے؟
    ہمارے علما بھیِ؟
    آخر یہ ویڈیوز چینل چھوڑ جانے کے بعد ہی کیوں منظر پر آئین؟

    جیو کا پورا نیٹورک پہلے ڈرتا تھا کیا؟
    یا پہلے سب ریکارڈ پر نہ تھا؟

    یا اب کوئی خاص مقصد ہے؟

    ایک مسلمان پر کتنی آسانی سے ہم الزامات لگا دیتے ہین
    یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ جھوٹ بھی ہو سکتا ہے

    پر ہمیں کیا

    لکھنے کو کچھ ملا تو سہی سو لکھ ڈالا

    ایک شوشہ جو مل گیا

    ReplyDelete
  18. ایک صحافی خاتون کا کہنا ہے کہ وہ ایک جلسے کی ریکارڈنگ کر رہی تھی اور جینز وغیرہ پہنے ہوئے تھی۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے اسے دیکھ کر اپنے برابر بیٹھیے شخص سے کہا کہ مغرب نے اس حرامن کا کیا حشر کر دیا ہے۔ شاید آپ حرامن کو گالی نہیں سمجھیں گے یا ڈاکٹر اسرار احمد کو عالم نہیں سمجھیں گے۔
    یہ تو ایک مثال ہے گفتگو میں زور اور مزے کے لئے گالی استعمال کرنا پاک و ہند کی ثقافت رہی ہے۔ بعض جگہ اتنی زیادہ ہے کہ وہاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ لوگ فالتو وقت میں بیٹھ کر گالیاں ایجاد کرتے ہیں۔ دور کیوں جائیں مشتاق احمد یوسفی کی کسی کتاب میں انکے ایک کردار کے بارے میں پڑھ لیجئیے کہ وہ فارغ وقت میں نئ گالیاں گھڑتے تھے۔
    بات آپ کے خاندان کی نہیں ہو رہی ، نہ آپکی اور نہ آپکی پسند کے نظریات رکھنے والی شخصیات کے متعلق نہ آپکے نا پسندیدہ نظریات رکھنے والی شخصیات۔ بات رویوں کی ہے، یہ سب لوگ ہمارے ماحول سے تعلق رکھتے ہیں اور اگر انسان ایک کچحوے کی طرح اپنے خول میں زندگی نہ گذارے تو اسے بہت کچھ دیکھنے اور محسوس کرنے کو مل سکتا ہے۔
    لیکن آپ کا مسئلہ بھی اب وہی لگنے لگا ہے روشن خیالی اور تاریک خیالی۔ ایسی حالت میں اپنے سامنے کی بات نظر نہیں آتی اور دور کی کوڑی لانے والے کی فکر زیادہ رہتی ہے یوں انسان دوسروں کی فکر میں اپنے اپکو نظر انداز کرتا ہے۔ خدا آپکو اس مرض کی پیچیدگیوں سے بچائے۔ آمین

    ReplyDelete
  19. محترمہ عنیقہ ناز صاحبہ۔۔
    اس گفتگو میں حصہ لینے کا میرا دل نہیں چاہ رہا مگر آپ کی ایک بات کے جواب میں ایل سوال ضرور کرنا چاہوں گا۔ کہ اگر کوئی شخص باریک دھوتی باندھے بازار میں آ جائے جہاں پر خواتین کا رش ہو تو آپ یقینناً اس سے در گزر کرنے کے بجائے حرام زادہ الو کا پٹھا، بے غیرت، بے شرم کے وغیرہ ضرور کہیں گی۔۔ چاہے منہ پہ نہ کہیں۔ کیوں کہ اس نے ماحول خراب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسکی حرکت معاشرتی آداب خلاف ہے۔، اس کا عمل ہمارے مزہب اور اقدار سے با لکل الٹ ہے۔ بعینی کسی بھی عورت کا باریک، یا بے حیا لباس پہننا اسکا ذاتی مسلہ ہرگز نہیں۔ وہ بھی اتنی ہی جرم دار اور قابل نفرت و مذمت ہے جتنا کہ وہ شخص۔۔۔
    کوئی لفظ آپکی طبیعیت پر گراں گزرے تو پیشگی معزرت۔۔۔
    خدا میری بہن کو ہمیشہ خوش رکھے۔۔

    ReplyDelete

Post a Comment