’’ارے ارے۔۔۔ یہ کیا کررہے ہو؟‘‘
’’اونہہ ہوں۔۔۔ تم نے پھر وہی کردیا؟‘‘
’’اففف بے وقوف، تمھیں کتنی بار ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔‘‘
’’یہ تم چل کیسے رہے ہو؟‘‘
’’جاہل، تمھیں کھانا کھانے کی تمیز نہیں ہے؟‘‘
’’تم وہاں اتنی دیر کیوں لگارہے ہو؟‘‘
’’پاگل ہوگئے ہو؟‘‘
یہ اور ایسے بہت سے جملے ہیں جو بڑے عموماً چھوٹوں کو ٹوکتے ہوئے استعمال کرتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ بڑوں کا ٹوکنا صحیح ہوتا ہے، وہ درست راہ نمائی کررہے ہوتے ہیں؛ لیکن، اپنے سے بڑوں کا ایسا انداز بچوں کی شخصیت میں بہت سے چھید کرجاتا ہے، ان کی خود اعتمادی کو چھلنی چھلنی کردیتا ہے۔ بچہ اُس کام کو کرتے وقت گھبراہٹ کا شکار ہوجاتا ہے، اور یوں وہ ایسا کام ٹھیک طرح سے انجام نہیں دے پاتا جس پر اُسے بار بار ٹوکا جاتا ہو یا اُس میں سب کے سامنے خامیاں نکالی جاتی ہوں۔ آپ اُسے تنہائی میں لہجہ نرم رکھتے ہوئے سمجھا سکتے ہیں، آپ وہ کام خود ٹھیک طرح سے کرکے بتاسکتے ہیں؛ مگر، عام طور سے ہم اتنی بھی زحمت نہیں کرتے کہ اُس کام کو ٹھیک سے کرنے کا طریقہ بتادیں یا جہاں غلطی ہو، اُسے درست کرنے کی نشان دہی کردیں۔
ہم اپنی فکروں اور پریشانیوں کا اظہار دوسروں پر برس کر کرنے کے عادی ہیں۔ ہم اُن چھوٹے چھوٹے کاموں پر بھی مشتعل ہوکر چلانے لگتے ہیں، جنھیں ہم خود سب کی آنکھوں سے بچ کر کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حالات میں بہت سی اُلجھنیں ہمیں گھیرے رکھتی ہیں؛ لیکن، یہ ہمیں ایسے رویوں کا جواز قطعاً فراہم نہیں کرتیں۔ یہ مسئلہ یوں بھی بڑھتا جارہا ہے کہ ہم نے مطالعہ کرنا اور سوچنا/ غور و فکر کرنا چھوڑ دیا ہے۔ مطالعہ چاہے کسی بھی کتاب کا ہو (بس اخلاق سے گری نہ ہو)، وہ فائدہ دیتا ہے۔ پھر وہ چاہے کوئی معلوماتی کتاب ہو یا کہانی، ناول اور افسانہ ہو یا شاعری، نصابی کتاب ہو یا غیر نصابی، مطالعہ سوچ کا دائرہ وسیع کرتا ہے، شعور و آگہی دیتا ہے؛ جب کہ، آج ہمارے پاس اس کام کے لیے وقت نہیں۔ اور دوسری وجہ ہے، سوچنا۔ ہم سوچتے تو ہیں لیکن ہماری سوچ کا محور بیشتر اوقات ہماری اپنی ذات اور ہمارا اپنا نفع نقصان کا حساب کتاب ہوتا ہے۔ ہم اپنی سوچ کو خود احتسابی کی طرف لے کر نہیں جاتے۔ ہم ذرا سی دیر یہ نہیں سوچتے کہ ہم فلاں وقت فلاں شخص کے ساتھ اس طرح پیش آئے تھے، اگر ہم اُس کی جگہ ہوتے اور کوئی ہم سے اس طرح پیش آتا تو ہمیں کتنی تکلیف ہوتی۔ حسنِ اتفاق سے اگر ہمیں کبھی ایسا کوئی خیال آ بھی جائے تو ہم اپنی غلطی تسلیم کرنے کے بجائے خود کو مطمئن کرنے کے لیے اُس رویے کا جواز گھڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں، ہمارے معاشرے میں اشتعال، عدم برداشت، لڑائی جھگڑا، گالم گلوچ اور ہاتھا پائی کے نمونے جا بہ جا دیکھنے کو ملتے ہیں۔
کیا کسی انسان میں کتب بینی اور مطالعے کا شوق زبردستی بیدار کیا جاسکتا ہے؟ :(
آپ پاکستان میں ‘مس فٹ‘ ہیں
ReplyDeleteفورا کہیں باہر دوڑ جائیں
ورنہ بے وقوف ، سرپھرا، فلسفی، دیوانہ جیسے خطاب ملیں گے
جہاں تک کتب بینی کا شوق بیدار کرنے کا معاملہ ہےتو یہ زیادہ تر بچپن میں ہی بیدار ہوتا ہے
بڑے ہونے کے بعد یہ شوق لمبی تان کر اور گھوڑے گدھے بیچ کر سویا رہتا ہے
زبردست عمار....بہت اصلاحی پوسٹ....لکھتے رہا کریں ناں....بعض اوقات ہمیں اپنوں رویوں کا خود ہی احساس نہیں ہوتا اس طرح کی تحریر کچھ دیر کے لیے ہمیں ہماری خامیوں سے آگاہ کردیتی ہے...مجھے تحریر بہت اچھی لگی.
ReplyDeleteبہت اچھا لکھا ہے؛ فی زمانہ ہر شخص افلاطوں پنا ہوا ہے کسی کو سمچھنا ہو تو پہلے اس کی ٹھیک ٹھاک بےعزتی کی چاتی ہے پھر اپنی مشہوری اور فراست پر ایک طویل لکیچر دینے کے بعد جو چیژ بتای جاتی ہے وہ بھی غلط ہی ہوتی ہے-
ReplyDeleteکتب بینی کا شوق کیوں نہیں پیدا ہو ریا اس کی کی وچویات ہیں بڑا سبسب ویں ہے تعیلم کی کمی- سولہ کروڑ میں سے جو بیس فیصد ہیں وہ بچارے کھانے کمانے میں لگے ہیں اور کتب بیی ان کے لیے ایک عیاشی بن گیا ہے-
بہت خوب عمار بہت اچھا لکھا ہے ۔ معاشرے کے المیوں میں سے یہ ایک بڑا المیہ ہے کہ ہم اپنی فطرت سے زیادہ ماحول کے اسیر ہوگئے ہیں ۔
ReplyDeleteمیری دانست میں“ رویئے “ سوچ اور نظریات سے پیدا ہوتے ہیں ۔ سوچ اور نظریات ہماری معاشی ، تعلیمی اور سماجی تربیت کا آؤٹ پٹ ہے ۔ اگر اپنے معاشرے پر ہم ایک نظر ڈالیں تو ہمیں اپنی تربیت کا کہیں ابھی ایسا انتظام نظر نہیں آئے گا ۔ جس سے معاشرے میں کسی قسم کی جوہری تبدیلی کے آثار نمایاں ہوسکیں ۔ تعلیم بنیادی طور پر حصولِ رزق بن گئی ۔ تحقیق اور مکالمے کی فضاء ناپید ہوچکی ہے ۔ تعلیمی نصاب انگلش ، اردو اور مذہب میں تقسیم ہوچکا ہے ۔ جہاں ہر کوئی اپنی اپنی دوکان چمکانے میں مصروف ہے ۔
آپ نے “ رویئے “ پر لکھا ہے ۔ رویئے بھی ہماری اسی تقسیم کا نتیجہ ہیں ۔ آپ باہر نکل کر تعلیمی معیار کی ان تین درجوں کی صف بندی باآسانی دیکھ سکتے ہیں ۔ جہاں ایک مخصوص سوچ اور نظریات کی پرورش ان طبقات میں جاری ہے ۔ ایسے ماحول میں آپ ایسی تحقیق اور مطالعہ کی فضاء ہرگز قائم نہیں رکھ سکتے جو آپ کو ایک مخصوص سوچ کے دائرے سے باہر لائے اور پھر آپ سائنس ، ٹیکنالوجی ، طب اور آج کے دیگر دنیا کے اہم شعبہ جات میں آگے بڑھ سکیں ۔ دراصل “ رویئے “ ہمارا “ مسئلہ نہیں ہے بلکہ ہمارا مسئلہ وہ تعلیمی فرسودہ نظام ہے ۔ جس سے یہ رویئے پیدا ہو رہے ہیں ۔
پچھلے جمعہ ہماری مسجد میں خطبے کا موضوع بھی یہی تھا اور خطیب نے عمدہ بات کی کہ دو سال سے چار سال کی عمر کے بچے اپنے والدین کی ہر حرکت کی نقل کرتے ہیں چناچہ ہر وہ کام جو آپ چاہتے ہیں آپ کا بچہ کرے وہ آپ کو خود کرنا ہوگا اور ہر وہ کام جس سے آپ اپنے بچے کو روکنا چاہتے ہیں اس سے آپ کو خود رکنا ہوگا.. مطالعے کی عادت کا بھی یہی ہے کہ آپ اگر روز کتاب لے کر بچے کے سامنے پڑھیں گے تو پھر تلقین، نصیحت اور سختی کی ضرورت ہی نہیں رہے گی اور آپ کی نقل بچے میں مطالعے کی عادت کا بیج بودے گی.
ReplyDeleteجعفر کا تبصرہ بھی قابل توجہ ہے :)
اچھا، آپ جبھی اکثر ملک سے فرار رہتے ہیں :P
ReplyDeleteکتب بینی کا شوق ہمارے تعلیمی ادارے بیدار کرسکتے ہیں لیکن وہ اُس کے برعکس نتائج دیتے ہیں۔
شکریہ امن۔ اصل میں یہ تحریر لکھنے سے تھوڑی دیر قبل مجھے اپنے رویے کا خیال آیا تھا کہ بعض اوقات میں چھوٹی بہن کے کسی غلط کام پر مشتعل ہوجاتا ہوں اور جب وہ بعد میں میری ڈانٹ کے ڈر سے اس کام کو ٹھیک کرکے مجھے بتاتی ہے تو مجھے بہت شرمندگی کا احساس ہوتا ہے :( پھر میں دوبارہ سے تہیہ کرتا ہوں کہ آیندہ ایسا رویہ نہیں اپناؤں گا۔
ReplyDeleteآپ کے تبصرے کے دوسرا پیرا میں جو دو نکات ہیں، تعلیم کی کمی اور کتب بینی کا مہنگائی کے سبب عیاشی بن جانا، دونوں ہی بلاشبہ بہت زیادہ اہم اور مسئلے کی بنیادی وجوہات میں سے ہیں۔
ReplyDeleteآپ سے متفق ہوں، فلسفی صاحب :)
ReplyDeleteہمارے مشتعل ردِٓ عمل کا بڑا سبب ہمارا ذہنی دباؤ کا شکار رہنا ہے۔۔۔ ہم اتنی الجھنوں میں گھرے ہوتے ہیں کہ صورتِ حال کو ٹھیک طرح سے سمجھ کر درست ردِّ عمل کا اظہار نہیں کرپاتے۔ ترقی کے مواقع نہ ہونا، سیاسی عدم استحکام، شعور و آگہی سے ناواقفیت جیسے اسباب ذہنی دباؤ میں اضافہ کرتے ہیں اور تمام مسئلوں کی جڑ صرف اور صرف ایک مسئلہ ہے۔۔۔ تعلیم نہ ہونا یا دوسرے لفظوں میں صحیح تعلیمی نظام نہ ہونا۔
یہاں تو بچے کو سمجھاتے ہیں، بیٹا! جھوٹ بولنا بہت بری بات ہے۔ اتنے میں فون بجتا ہے، اوہو۔۔۔ یہ صاحب۔۔۔ بیٹا! ان سے کہو کہ ابو گھر پر نہیں ہیں، فون گھر پر چھوڑ گئے ہیں۔
ReplyDeleteویسے مساجد میں بھی صرف واقعات سنانے کے بجائے سماجی اور اخلاقی موضوعات پر باقاعدگی سے خطبات دیے جانے چاہئیں۔ اور جعفر کا تبصرہ۔۔۔ ہمم۔۔۔ قابلِ توجہ :)
"حد ہوتی ہے، آپ کو تحریر لکھنے کی بھی تمیز نہیں ہے!"
ReplyDeleteعمار میاں کیا لاجواب پوسٹ ہے. صاف ظاہر ہے کہ آپ وقت نکال کر معاشرتی معاملات پر خوب سوچتے ہیں. وقفہ وقفہ سے آپ کی جانب سے ایسی تحریروں کا سلسلہ قائم رہنا چاہئیے.
مجھے تو ميرے بزرگوں نے يا اساتذہ نے کبھی ايسا کوئی فقرہ نہں کہا تھا البتہ ميرے ہم عمر ساتھی آخری والا فقرہ مجھے بہت کہتے رہے
ReplyDeleteراشد ...< خطیب صاحب کی بات سو فیصد درست ہے...میری دوسالہ بیٹی میرے منہ سے نکلا ہر ہر لفظ ناصرف کاپی کرتی ہے بلکہ یاد بھی رکھتی ہے...میں کمیرے سے کبھی اس کی تصویربناتی تو وہ پوز ہلا کر خراب کردیتی تھی تب بے ساختہ میرے منہ سے نکل جاتا تھا شٹ سلی گرل....تو نور نے اس لفظ کو اس طرح سے یاد رکھا کہ کمیرہ ہاتھ میں لیتے ہی وہ شٹ سلی گرل کی گردان شروع کردیتی ہے...تب سے میں بہت محتاط ہوگئی ہوں.
ReplyDeleteہیںںںںںںں عمار آپ ڈانٹ بھی سکتے ہیں..؟؟؟؟ آئی ڈونٹ بلیو اٹ :( ویسے تو یہ پوسٹ آپ کو یاد دلاتی رہے گی لیکن پھر بھی آپ پرامس کریں کہ بہن کو آج سے بلکل بھی نہیں ڈانٹیں گے.
ReplyDeleteشکریہ۔ پہلی بار پڑھنے میں مجھے پہلے جملے نے چونکا دیا تھا :P
ReplyDeleteصرف سوچنے سے کام نہیں بنتا نا سعود بھائی، دعا کیا کریں کہ عمل کرنے میں بھی کام یاب رہوں۔
جی، وہ فقرہ تو اکثر اوقات تکیہ کلام کی صورت اختیار کر جاتا ہے۔
ReplyDeleteمیری بہنا، یہ وعدہ تو میں نے خود اپنے آپ سے کیا ہی ہوتا ہے۔ بس دعا کریں کہ خود پر قابو کرنا سیکھ لوں۔
ReplyDeleteرعب جمانے کی تم بھائیوں کو عادت ہوتی ہے ۔۔ چھوٹے بھائی بھی بہنوں پر رعب جما کے ڈانٹنے سے بعض نہیں آتے ۔۔ کافی دن بعد سب کے بلاگ پر تمھاری حاضری اچھی لگی ۔۔
ReplyDeleteاچھا، آپ بڑی بہنوں کو اتنا شریف ثابت کرنی کی کوشش نہ کریں۔۔۔ میں نے بڑی بہنیں بھی دیکھی ہیں اور توبہ، اپنے چھوٹے بھائی پر اتنا رعب تھا کہ کیا میرا رعب اپنی بہنوں پر ہوگا۔۔۔ :P
ReplyDeleteہمم۔۔۔ وقفے وقفے سے کوشش کرتا ہوں کہ سارے کام ایک طرف کرکے کچھ بلاگز پڑھ لوں اور تبصرہ کرلوں۔۔۔ لیکن ایسے ایسے بلاگز نظر سے گزرتے ہیں کہ دل برا ہوجاتا ہے۔۔۔ پہلے ہی ہزار الجھنیں ہیں، مزید بڑھ جاتی ہیں :(
عمار یقین کریں میرا بھی یہی حال ہے...اسی وجہ سے تو میں نے بلاگنگ چھوڑ دی تھی..پتہ ہے مجھے اب یوں لگتا ہے کہ بلاگ ہم اپنے لیے نہیں اوروں کے لیے لکھ رہے ہیں اور ہر وقت ایک ہی رویہ ایک ہی فکر کہ دوسروں پر ہماری دھاک بیٹھ جائے....عجیب سی افراتفری...مجھے تو خود الجھن ہونے لگتی ہے. :(
ReplyDeleteبالکل۔۔۔ اور کیا :(
ReplyDeleteایک جگہ پڑھا تھا کہ مطالعے کا شوق پیدا کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ بچوں کو خود کتابیں پڑھ کر سنائی جائیں۔ اور میرا اندازہ ہے کہ یہاں جتنے بھی مطالعے کے شوقین ہوں گے، ان کی ایک بڑی تعداد میں یہ شوق اسی طرح پیدا ہوا ہوگا۔
ReplyDelete