Theory of Motivation Cycle

ان دنوں سر امتیاز ہمیں ترغیب (Motivation) کے بارے میں مختلف نظریات (theories) پڑھارہے ہیں۔ ہم نے سب سے پہلے میسلو (Maslow) اور ہرزبرگ (Herzberg) کی تھیوری پڑھی۔ سر امتیاز اس بات پر بے حد زور دیتے ہیں کہ صرف کتابی باتوں تک محدود نہ رہا جائے بل کہ اپنی عقل استعمال کرتے ہوئے مختلف نظریات و مفروضوں کا اطلاق موجودہ زمانے میں مختلف صورتِ حال پر کرکے دیکھا جائے۔ ترغیب کے بارے میں دو مختلف نظریات پڑھ کر تیسرے نظریے نے میرے دماغ میں جنم لیا۔ ممکن ہے کہ اس میں کئی خامیاں ہوں لیکن بہ ہر حال، یہ ایک منفرد کوشش ہی صحیح۔


موضوع سے متعلقہ دیگر تحاریر:
میسلو کا نظریۂ وراثت (Maslow's hierarchy of need)
ہرزبرگ کا نظریہ (Two-Factor Theory)
سر امتیاز کے بارے میں میری ایک تحریر (ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے)


عمار کا نظریۂ دورِ ترغیب



Ammar's Theory of Motivation Cycle

Ammar's Theory of Motivation Cycle

دورِ ترغیب کی چار درجوں میں تقسیم یوں ہے:

پہلا درجہ:
پہلے درجے میں تین عوامل ہیں: حالت، ضرورت،ماحول۔ حالت سے مراد یہ ہے کہ انسان کی کیفیت کیا ہے۔ وہ کس صورتِ حال میں زندگی بسر کررہا ہے۔ اس کی جسمانی، ذہنی، نفسیاتی، سماجی، معاشی و معاشرتی کیفیات کس نوعیت کی ہیں۔ دوسری چیز ہے ضرورت، یعنی انسان جس مقام پر موجود ہے، وہاں اس کو کس قسم کی ضروریات محسوس ہوتی ہیں؟ کیا وہ ضروریات کے تحت اپنی حالت میں تبدیلی چاہتا ہے؟ پہلے درجے کے تین عوامل میں سے آخری ہے، ماحول۔ انسان کس ماحول میں رہ رہا ہے؟ آیا ماحول میں آنے والی تبدیلیاں اسے کسی تبدیلی کی ضرورت محسوس کروارہی ہیں؟ کیا ماحول اس کی طبیعت یا اس کی مطلوبہ تبدیلیوں کے موافق ہے؟

دوسرا درجہ:
دوسرا درجہ ’ترغیب‘ ہے جس کا مکمل انحصار پہلے درجے پر ہے۔ اگر انسان کی جسمانی، ذہنی و نفسیاتی کیفیت درست ہے تو وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے ماحول کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کسی نہ کسی قدم اُٹھانے کی طرف ضرور ترغیب حاصل کرے گا۔ البتہ اگر انسان ذہنی لحاظ سے تندرست نہ ہو تو ہوسکتا ہے کہ وہ ضرورت ہونے کے باوجود اپنے اندر کسی قسم کی ترغیب محسوس نہ کرے کہ اُسے کچھ سوجھ بوجھ ہی نہیں ہوگی۔


تیسرا درجہ:
پہلے درجے کی طرح تیسرے درجے کے بھی تین مراحل ہیں: فعل، نتائج اور امکانات۔ ’فعل‘ کا براہِ راست رابطہ پہلے درجے (یعنی حالت، ضرورت، ماحول) اور دوسرے درجے (یعنی ترغیب) سے ہے۔ انسان کو صورتِ حال کے مطابق کسی قسم کی ’ضرورت‘ کا محسوس ہونا اسے ’ترغیب‘ دلاتا ہے کہ وہ کوئی قدم اُٹھاکر اپنی ضرورت کو پورا کرے اور خواہش کی تسکین کرے (بہ شرط یہ کہ وہ ذہنی و نفسیاتی لحاظ سے تندرست ہو جیساکہ پہلے گزرا)۔ ترغیب اُسے کسی ’فعل‘ کی طرف راغب کرتی ہے، ایسا فعل جس کے ذریعے اُسے لگتا ہو کہ وہ یوں اپنی ضرورت پوری کرسکتا ہے۔ جب انسان کوئی ’فعل‘ انجام دیتا ہے تو اگلا مرحلہ ہوتا ہے ’نتائج‘ کا یعنی اس فعل کے کیا اثرات مرتب ہوئے؟ آیا اس کی ضرورت پوری ہوئی کہ نہیں؟ اس کی خواہش کو تسکین ملی یا نہیں؟ اس درجے پر تیسرا مرحلہ ہے ’امکانات‘ کا۔ امکانات سے مراد مستقبل کے ممکنہ نتائج ہیں کہ اپنے اس عمل میں انسان کس حد تک آگے بڑھ سکتا ہے اور اُسے مزید کیا فائدہ مل سکتا ہے؟ ہوسکتا ہے کہ اُس نے اس درجے پر جو کام کیا ہو، اس کے نتائج تسلی بخش نہ ہوں اور وہ مزید ایک کوشش کرنا چاہے یا ایک قدم بڑھنا چاہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اُس کی وقتی ضرورت تو پوری ہوگئی ہو لیکن وہ مزید اطمینان چاہتا ہو یا مزید آگے بڑھنا چاہتا ہو۔

چوتھا درجہ:
چوتھا درجہ بھی ’ترغیب‘ ہے لیکن اس درجے پر ترغیب کی نوعیت معمولی سی بدل جاتی ہے۔ پہلے اس کی ترغیب ایک ضرورت کے سبب تھی۔ اس درجے پر ترغیب کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ مثلاً اگر تیسرے درجے پر کیے جانے والے ’فعل‘ سے حاصل ہونے والے ’نتائج‘ نے فاعل کو مطمئن نہ کیا ہو یا اس کی ’ضروریات‘ پوری نہ ہوئی ہوں تو اسے مزید کوشش کرنے کی ’ترغیب‘ بھی ہوسکتی ہے۔ یا تیسرے درجے پر انجام پذیر ہونے والے ’فعل‘ کے ’نتائج‘ حوصلہ افزا ہوں اور وہ اُن سے مزید مستفید ہونا چاہے یا حاصل شدہ ’نتائج‘ کے بعد اس کے آگے بڑھنے کے ’امکانات‘ روشن ہوں اور فوائد متوقع ہوں تو وہ اس ’فعل‘ کو جاری رکھنے یا اس میں بہتری لانے کی طرف راغب ہوگا۔

ایک بار پھر:
چوں کہ یہ ایک دور یا چکر (Cycle) ہے لہٰذا یہ اس مرحلے پر آکر رُک نہیں جاتا بل کہ کچھ تبدیلیوں کے ساتھ مسلسل جاری رہتا ہے۔ ایک چکر مکمل کرنے کے بعد جب آپ دوبارہ پہلے درجے کی طرف بڑھتے ہیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ انسان کے ’افعال‘ اور ان کے ’نتائج‘ کے بعد آنے والے ’تغیرات‘ کے سبب اب انسان کی ’حالت‘، ’ضرورت‘ اور ’ماحول‘ میں تبدیلی آگئی ہے۔ اس مرحلے پر اس کی ضروریات بدل جاتی ہیں، ماحول بدل جاتا ہے۔ اب کی بار جو چیز اُسے دوسرے درجے ’ترغیب‘ کی طرف لے کر جاتی ہے، وہ کچھ بھی ہوسکتی ہے کیوں کہ انسان کی خواہشات کا سلسلہ لامتناہی ہے اور ایک ضرورت یا خواہش پوری ہوتے ہی اگلی جنم لے لیتی ہے۔ مثلاً پہلا چکر مکمل ہونے کے بعد اب جس مقام پر وہ پہنچا ہے، اس کی ضروریات پہلے کے مقابلے میں مختلف ہوگئی ہیں، ماحول بدل گیا ہے تو اب وہ ان ضروریات کو حاصل کرنے کے لیے ’ترغیب‘ پاتا ہے اور پھر کوئی ’فعل‘ انجام پذیر ہوتا ہے، اس کے ’نتائج‘ اور مزید ’امکانات‘ اسے آگے بڑھنے کی طرف ’ترغیب‘ دیتے ہیں اور یہ چکر چلتا چلا جاتا ہے۔


از
عمار ابنِ ضیا
اگست ۲۰۱۰ء


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نظریہ آج میں نے کلاس میں پیش کیا اور طلبہ سمیت سر امتیاز نے بھی بے حد سراہا اور اس کے مختلف مثبت پہلوؤں کو مزید اجاگر کیا۔

Comments

  1. چونکہ اختتامیہ میں اس سائیکل کے ریپیٹ ہونے کی بات کی گئی ہے اس حوالے سے میں اس میں ایک اضافے کی گنجائش سمجھتا ہوں کہ یہ سائیکل کسی بھی وقت اس پورے سسٹم کے محض ایک انسٹینس کو بیان کرتا ہے۔ جبکہ مختلف انسٹینسیز ہمہ وقت مختلف مراحلِ دور ترغیب میں ہوتی ہیں۔

    ReplyDelete
  2. اگر کوئی آدمی ترغیب یعنی موٹیویشن نہیں رکھتا تو اس کا کیا علاج ہے۔ ہم اس آدمی کی بات کر رہے جو سارا دن ادھر ادھر وقت ضائع کر دیتا ہے اور کوئی تعمیری کام نہیں کرتا۔ اس کے بعد سارا الزام قسمت کو دے کر سو جاتا ہے۔

    ReplyDelete
  3. کیا آپ یہ نظریہ انگریزی میں لکھ سکتے ہیں؟ اردو میں کچھ خاص سمجھ نہیں آئی۔

    ReplyDelete
  4. ترغيب دينے کيلئے منصوبہ بندی کرنا ہو توانسانی نفسيات کا مطالعہ ضروری ہے ۔ ميں نے اس گورکھ دھندے ميں اپنی جوانی کا کافی حصہ ضائع کيا تھا ۔ مندرجہ ذيل ربط پر ميں نے اس موضوع پر کچھ کاڑا باڑا لکھا ہوا ہے
    http://iabhopal.wordpress.com/8b-motivation/

    ReplyDelete
  5. سعد صاحب ميں نے انگريزی ميں لکھا ہوا ہے اسلئے آپ بھی پڑھ سکتے ہيں
    http://iabhopal.wordpress.com/8b-motivation/

    ReplyDelete
  6. صحیح فرمایا سعود بھائی۔ یہ چکر صرف ایک پہلو کو بیان کررہا ہوتا ہے اور ہر انسان کی زندگی کے بہت سے پہلوؤں میں ترغیب کے ایسے چکر مسلسل چل رہے ہوتے ہیں اور ہر ایک کی نوعیت مختلف ہوسکتی ہے۔

    ReplyDelete
  7. میں کوشش کرتا ہوں کہ انگریزی میں منتقل کردوں یا کروالوں۔ :)

    ReplyDelete
  8. اس صورتِ حال میں تو ہم اس چکر (cycle) کے پہلے ہی درجے پر رُک جاتے ہیں جو حالت + ضرورت + ماحول کو بیان کرتا ہے۔ اس درجے پر اس آدمی کی جسمانی، ذہنی، نفسیاتی حالت کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ لیکن جہاں معاملہ ایک قوم کا آجائے جو خوابِ غفلت میں پڑی ہو تو صورتِ حال گھمبیر ہوجاتا ہے۔

    ReplyDelete
  9. مفید ربط فراہم کرنے کا شکریہ۔

    ReplyDelete
  10. شووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووو
    :uff: :uff: :uff: :uff: :uff: :uff: :uff: :uff: :uff: :uff: :uff:

    ReplyDelete

Post a Comment