Ab Na Karenge

سوچا ہے کہ اُمیدِ وفا اب نہ کریں گے
تم لاکھ ستاؤ بھی، گِلا اب نہ کریں گے

تکلیف جو ہوتی ہے مِرے دل کو تو ہووے
تم جیسے مسیحا سے دوا اب نہ کریں گے

قسمیں بھی اُٹھاؤ تو نہ آئے گا یقیں اب
تم کہتے ہی رہتے ہو جفا اب نہ کریں گے

دیکھے ہیں تمہارے یہ ڈرامے بھی بہت بار
’’غلطی ہوئی، تم دے دو سزا، اب نہ کریں گے‘‘

ہر بار رُلاتے ہو مجھے، جانتے ہو نا؟
ہر بار ہی کہتے ہو خفا اب نہ کریں گے

عمار! مبارک ہمیں تنہائی ہماری
ہم ان سے محبت کی خطا اب نہ کریں گے

Comments

  1. بہت خوب! کیا کہنے !

    خوش رہیے۔
    .-= محمد احمد کے بلاگ سے آخری تحریر۔۔۔ غزل =-.

    ReplyDelete

Post a Comment