ہفتۂِ طلبا میں خطاطی کا اسٹال

ہفتۂِ طلبا کے سلسلے میں 14 اور 15 اکتوبر کو اے۔پی۔ایم۔ایس۔او (آل پاکستان متحدہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) کے تحت جمنازیم میں میلہ لگایا گیا تھا۔ میرے دو ہم جماعت علی اور اویس بھی اسی تنظیم کے کارکن ہیں۔ 14؍ اکتوبر کو تذکرہ نکلا تو علی نے کہا کہ اگر وہاں میلے میں کسی چیز کا اسٹال لگانا ہو تو مفت میں لگوادوں گا (ویسے فی اسٹال ڈھائی سو روپے تھا)۔ میں اس دن میلے سے ہوکر آیا تھا، خاصا رش تھا۔سوچا کہ کیوں نہ ابو کی خطاطی کا اسٹال لگوالوں۔ ایسا ایک تجربہ پہلے ایک اسکول والے کرچکے تھے۔ میں نے علی سے بات کی تو اس نے کہا کہ فکر کی بات ہی نہیں، میں انتظام کردوں گا۔ میں نے اُسی وقت ابو کو اطلاع کردی تاکہ وہ بھی اس حساب سے تیاری کرلیں۔

اگلے دن میں تو صبح اپنے وقت پر جامعہ پہنچا کہ صبح اردو کی کلاس تھی۔ ابو سوا دس بجے کے قریب جامعہ پہنچ گئے۔ میں انہیں لے کر جمنازیم پہنچا۔ اویس نے ایک اسٹال کا بندوبست کردیا۔ ابو نے اپنا سارا سامان نکالا، خطاطی کے کچھ نمونے اور اپنی چند پینٹنگز بھی سامنے رکھیں۔ اسٹال یہ تھا کہ آپ اپنا نام خوبصورت انداز میں لکھوائیں، فی نام 20روپے۔ شروع میں تو ایسا لگا جیسے لوگ اس طرف توجہ نہ دیں گے لیکن علی نے کافی ساتھ دیا (حالانکہ ویسے اس سے اتنی زیادہ بنتی نہیں)۔ آدھ/ ایک گھنٹا وہیں کھڑا رہا اور لوگوں کو آواز دے دے کر اس طرف متوجہ کرتا رہا۔ کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہونے دی۔ بعد میں تو پھر ایسا رش لگا کہ ابو کو پانی پینے کا بھی مشکل سے وقت ملتا۔ میرے شعبے میں محفلِ میلاد بھی تھی۔ میری تین ہم جماعتوں تابندہ، اریبہ اور منیبہ کا اسٹال (Personality Test by Dr. Phills) برابر ہی میں لگا تھا۔ انہیں خیال رکھنے کا کہہ کر میں محفلِ میلاد میں چلا گیا کہ وہاں ایک نعت کے لیے نام لکھوایا ہوا تھا (اس کی موبائل سے بنی ہوئی ویڈیو مل سکی تو لگاؤں گا)۔ ان دوستوں نے واقعی کافی ساتھ دیا جس کی وجہ سے بے فکری رہی۔ وہاں سے ایک/ ڈیڑھ گھنٹے بعد واپس آیا تو ابو کام میں مصروف تھے۔۔۔ وہیں گھومتا پھرتا رہا۔ کافی سارے اسٹالز لگے تھے اور خوب ہلّا گلّا تھا۔ مختلف کھیل ہورہے تھے، مہندی لگ رہی تھی، گانے بج رہے تھے، عبایا اور چوڑیوں کی خرید و فروخت جاری تھی، اسکیچ کلب میں ایک نوجوان بیٹھا 15 منٹ اور 150 روپے کے بدلے لوگوں کے خاکے بنارہا تھا۔ دل تو بہت کیا کہ میں بھی بنواؤں مگر ڈیڑھ سو روپے نکالنے کی ہمت نہ ہوئی۔ جامعہ سے عنقریب شایع ہونےوالے میگزین ’’یوتھ ایکسپریس‘‘ کے اسٹال پر گیا تو وہاں اس کے ایڈیٹر ان۔چیف مرزا نادر بیگ سے پہلی ملاقات ہوئی۔ انہیں میں نے اپنی تحریر ’’انڈا‘‘ بھیجی تھی جس سے یہ خاصے متاثر لگتے ہیں۔

شام سوا چار بجے کے قریب جب رش چھٹنا شروع ہوا اور ہمارے پڑوسیوں نے اسٹال سمیٹا تو ہم نے بھی اپنی دکان بڑھائی اور چل دیے۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ لوگوں کا ردِّ عمل خاصا مثبت رہا اور خوشی خوشی گھر واپسی ہوئی۔

Comments

  1. میں تو یہ دیکھنے آیا تھا کہ تم نے شاید خطاطی کے نمونے یہاں پوسٹ کیے ہوں گے۔۔ :dxx:
    تم ابو کو کام میں مصروف کرکے خود مہندی رچاتے رہے ہو۔ :nahi:
    اور ڈاکٹر فلز نے تمہاری شخصیت کے بارے میں کیا کہا ہے؟

    ReplyDelete
  2. بہت خوب!!!
    یہ کام بہت اچھا کیاخطاطی کی ترویج و اشاعت کے ضمن میں
    .-= الف نظامی یہ´s last blog ..بہ گردِ مرکزِ خود صورتِ پرکار می رقصم =-.

    ReplyDelete
  3. خطاطی کے نمونے کی تصاویر بھی پوسٹ کر دیتے تو میری پوسٹ کی دلکشی میں اوراضا فہ ہو جاتا ۔ اپنے ابو سے میرا نام بھی خوبصورت انداز میں لکھوادیں مفت میں۔

    ReplyDelete
  4. "میری " :-| کی جگہ "آپ کی" لکھنا تھا ۔غلطی ہو گئی ہے درست کردیں

    ReplyDelete
  5. بہت بہت مبارک ہو بھائی جان

    آپ کے والد صاحب کی خطاطی تو پہلے ہی دیکھ چکا ہوں کس کافر کو پسند نہیں آئے گی
    ایک بار پھر مبارک ہو :-)
    @نبیل بھائی : :wel: :wel:

    ReplyDelete
  6. یار عمار۔ آپ بھی نا! :D

    ReplyDelete
  7. واقعی ایک دفعہ آپ نے اپنے والد محترم کے خطاطی کے نمونے اپ لوڈ کیے تھے اور وہ بہت شاندار تھے۔۔ ہفتہ طلبا کے بارے میں پوسٹ کرکے آپ نے دس سال پیچھے پہنچا دیا۔۔ کم و بیش اسی طرح‌ کا گزرتا تھا اور شاید سب سے مثبت ہفتہ۔

    ReplyDelete
  8. اچھا لگا احوال جان کر۔
    صاحب تبصرہ خانے میں ویب پیڈ نہیں چل رہا اس کا کچھ کریں۔
    .-= دوست´s last blog ..دل بولے ہڑپہ =-.

    ReplyDelete
  9. نبیل!
    جنہوں نے اپنے نام کی خطاطی کروائی، وہ تو اپنے ساتھ لے گئے. میں نے مہندی تو نہیں رچائی، ہاں پری چہروں کو ضرور دیکھتا رہا. :P اور ان کے نام ذہن نشین کرنے کی ناکام کوشش :wink: ایک نمونہ یہاں

    فرحان دانش!
    میرے پاس کافی فرمائشیں جمع ہوچکی ہیں۔ آپ کی بھی نوٹ کرلیتا ہوں۔۔۔ کسی چھٹی کے دن فرصت میں اگر ابو کا موڈ ہوا تو پوری کروادوں گا۔

    زین!
    بہت شکریہ چھوٹے بھائی۔

    عارف کریم!
    ہاں میں بھی نا کیا؟ :D

    راشد کامران!
    ویسے سچ کہوں تو میں ہفتۂِ طلبا میں زیادہ لطف اندوز نہیں ہوسکا۔ ایک وجہ تو یہ کہ ہمارا شعبۂِ تعلیم اس سلسلے میں خاصا ناکام رہا، دوسری وجہ دفتر پہنچنے کی جلدی۔

    دوست!
    بھائی! ویب پیڈ میرے پاس تو ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے۔ یہ کیا گڑبڑ ہے۔ :hmm:

    ReplyDelete
  10. اچھی روداد لکھی آپ نے۔ :wel:
    .-= خرم´s last blog ..تب و تاب جاودانہ =-.

    ReplyDelete
  11. خطاطی کے نمونے کی تصاویر بھی ہونی چاہیے تھی

    ReplyDelete
  12. یارا ایسی کوی کہانی ہو تو مجھے بھی بتانا ۔۔۔۔ میں نے کبھی کسی کالج وغیرہ میں ایسا نہیں دیکھا ،،،،ویسے آج مجھے عینک کی وجہ پتا چلی ،،، ایسے پری چہرے دیکھو گے تو پھر یہی ہونا ہے :haha:

    ReplyDelete
  13. یار میں کراچی آؤں تو کیا اپنے ابو سے ملاقات کروا دو گے؟
    پلی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ز

    ReplyDelete

Post a Comment