جشنِ آزادی مبارک

آپ سب کو پاکستان کا جشنِ آزادی مبارک ہو... دیر ہوگئی نا تھوڑی؟ :sad: بس نہ پوچھیں کچھ... یہ جشنِ آزادی کافی مصروف گزرا اور انٹرنیٹ سے دور... لیکن یہ جشن میری زندگی کا یادگار ترین دن تھا. جامعہ کراچی میں 14 اگست کی چھٹی ہوتی ہے اس لیے 13 اگست کو جشن منایا جاتا ہے...11 اگست تک ہمارے شعبے میں کہیں سے جشنِ آزادی کا پتا نہ پڑتا تھا جب کہ دوسرے کئی شعبے کافی سج چکے تھے. اسی دن ٹیچر کی طرف سے ہر جماعت کے نمائندے کو بلاوا آگیا. حکم ہوا کہ ہر بچے سے 10 روپے اکٹھے کیے جائیں. 12 اگست کو فائنل ایئر کی طالبات نے شعبہ سجانا شروع کیا. ہمارا گروپ بھی انہی کے ساتھ شامل ہوگیا. تقریبا دو گھنٹے کی محنت سے شعبہ تعلیم کی عمارت کو جھنڈیوں اور سبز و سفید ربن سے کافی حد تک سجادیا گیا... فائنل ایئر کی چند ہی طالبات اور ایک دو لڑکے کام کررہے تھے. ہماری جماعت سے صرف ہمارا گروپ ہی تھا.

دو بجے ٹیچر کے آفس میں میٹنگ رکھی گئی تھی لیکن مجھے دفتر پہنچنا تھا اس لیے میں نے معذرت کرلی. جانے سے پہلے ان طلبا کے نام دیے گئے تھے جو جشنِ آزادی کے فنکشن میں کچھ پیش کرنا چاہتے تھے. میری جماعت سے میں نے اپنا نام نغمے کے لیے دیا، ایک طالبہ کو تقریر کی ذمہ داری ملی (مگر وہ عین وقت پر بیمار پڑنے کے سبب نہ آسکیں). فائنل ایئر کی ایک طالبہ نے نظامت (کمپیئرنگ) کے فرائض انجام دینے تھے جس کا ابتدائیہ مجھ سے لکھوایا گیا. سال دوم کی ایک طالبہ نے جشنِ آزادی پر تقریر کرنی تھی، وہ تقریر بھی میں نے ہی لکھی. :P

13 اگست کو ہر شعبے نے اپنا اپنا فنکشن کرنا تھا. میں بڑے آرام سے صبح تیار ہوکر جب پونے نو بجے کے قریب اپنے شعبے سے پہنچا تو مجھے دفتر کے شاہد بھائی نے اشارہ کرکے بتایا کہ ٹیچر کلاس میں موجود ہیں... میری تو آنکھیں کھلی رہ گئیں... ٹیچر آج کلاس لینے کیسے آگئیں. خیر سانس بحال کرکے کمرہِ جماعت میں پہنچا تو صرف ایک طالبہ موجود تھی جس کے سامنے ٹیچر کچھ ارشاد فرمارہی تھیں. پتا یہ چلا کہ ہم تک پیغام پہنچنے میں غلطی ہوئی تھی، 10 بجے تک پڑھائی جاری رہنی تھی، اس کے بعد فنکشن تھا. خیر، ہماری جماعت کے تو سارے طلبہ و طالبات ہی غایب تھے.

ہمارا فنکشن سیمینار لائبریری میں ہونا تھا جو کہ باقی شعبوں کے مقابلے میں کافی دیر سے یعنی ساڑھے بارہ بجے کے بعد شروع ہوا اور تقریبا دو گھنٹے جاری رہا. میں گھر سے دو نغمے لکھ کر لے گیا تھا. ایک ’’اے وطن پیارے وطن‘‘ اور دوسرا ’’چاند میری زمیں پھول میرا وطن‘‘. ارادہ تھا کہ ’’اے وطن پیارے وطن‘‘ پڑھوں گا لیکن فنکشن شروع ہونے سے پہلے جب مائک اور اسپیکر نصب کیے جارہے تھے، تب ایک طالبہ نے یہ نغمہ پڑھ دیا. اگرچہ اس وقت فنکشن باقاعدہ شروع نہیں ہوا تھا لیکن میں نے یہ نغمہ پڑھنے کا ارادہ ملتوی کردیا اور جب مجھے بلایا گیا تو میں نے ’’چاند میری زمیں پھول میرا وطن‘‘ پیش کیا. داد توقع سے زیادہ ملی الحمدللہ. ہمارے شعبے کے آفس میں عظیم بھائی ہوتے ہیں، انہوں نے تو اپنی کرسی سے کھڑے ہوکر کندھا تھپتھپایا اور شاباش دی. بعد میں پتا چلا کہ سال دوم کے ایک بے چارے طالب علم نے بھی یہی نغمہ پیش کرنا تھا. جب اس کی باری آئی تو اس نے بھی یہی پڑھا.

افسوس کی بات یہ کہ جس طرح شعبے کو سجانے میں ہر جماعت سے چند طلبا پُرشوق نظر آئے، اسی طرح فنکشن میں بھی فائنل ایئر کی وہی چند لڑکیاں اور ہماری جماعت سے بس ہمارا ہی گروپ موجود تھا. :( باقی کسی کو جشنِ آزادی سے شاید دل چسپی نہیں تھی. تاہم جشنِ آزادی پر جامعہ کراچی میں جو سماں تھا، میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا. عید کا منظر لگتا تھا، مجھے یہ سب دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی.

شعبے کی لائبریری کو سجانے کے دوران غبارہ پھلاتے ہوئے


پاکستانی جھنڈا اوڑھے ہوئے

Comments

  1. السلام علیکم

    جشنِ آزادی مبارک !

    اتنا مختصر لکھا عمار کچھ تفصیل سے لکھنا تھا ناں ۔ اسکول ، کالج اور یونی میں آزادی کی تقریبات بہت اچھی لگتی ہیں ، اتنا اچھا سماں ہوتا ہے ۔
    .-= شگفتہ´s last blog ..ہفتہ بلاگستان : دعوتِ شرکت =-.

    ReplyDelete
  2. جامعہ کا جشن آزادی بہت ہی یادگار ہوتا ہے..

    ReplyDelete
  3. عبد القدوس!
    مہربانی ہے آنجناب کی.

    شگفتہ!
    وعلیکم السلام آپی. آپ کو بھی مبارک. لیجیے، میں نے تحریر میں خاصا اضافہ کردیا ہے. لکھنی تفصیل ہی سے تھی لیکن جب لکھنے بیٹھا تو دیر ہوچکی تھی اور موڈ نہیں تھا اس لیے مختصر لکھ کر چھوڑ دی تھی.

    راشد کامران!
    میری تو آپ سے یہ فرمائش ہوگی کہ جامعہ کے حوالے سے اپنی یادیں اور مشاہدات و واقعات شیئر کریں.

    ReplyDelete

Post a Comment