Dog Expenses

سال ہا سال پرانی بات ہے کہ پرچون کی ایک دکان پر دو سپاہی پہنچے اور حکم صادر کیا کہ کھاتا حاضر کرو تاکہ دیکھا جائے، تمہارا لین دین کا حساب ٹھیک ہے یا نہیں؟ اس نے کھاتا پیش کیا۔ دیکھنے لگے، دیکھتے دیکھتے ایک جگہ بہت ہنسے۔۔۔ وہاں لکھا تھا، کتے کے کھانے کا خرچ۔ 10 روپے۔۔۔ کچھ صفحوں بعد دوبارہ ایسا ہی درج تھا، کتے کے کھانے کا خرچ، 20 روپے۔ ایک سپاہی دوسرے سے بولا، اسے دیکھو تو۔۔۔ کتوں کو جو کھلاتا پلاتا ہے، اس کا بھی حساب رکھتا ہے۔ ہنسی مذاق کے بعد وہ کھاتا اسے واپس کیا اور سامنے پڑے مرتبان کا ڈھکن کھول کر اس میں سے چنے نکالے اور اپنی مٹھی میں بھر کے چل دیے۔ دکان دار نے کھاتا رجسٹر کھولا اور لکھا: کتوں کے کھانے کا خرچ: 10 روپے۔

گذشتہ دنوں کی بات ہے، میں دفتر سے گھر جانے کو نکلا۔ رات 10 بجے کا وقت ہوگا۔ چونکہ دیر ہوگئی تھی اس لیے بھوک شدید لگ رہی تھی۔ دفتر کے نیچے ہی سموسے اور کچوری والا کھڑا ہوا تھا۔ سوچا کہ گھر پہنچنے ہی میں ایک گھنٹہ لگے گا، تب کھانا نصیب ہوگا تو بہتر ہے تھوڑا بہت یہیں کھاکر سہارا کرلوں۔ لہٰذا اس کے پاس پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر میں ایک سپاہی آیا اور خاموشی سے ہاتھ باندھے کھڑا ہوگیا۔ ٹھیلے والے نے بیس، تیس روپے نکالے اور مور تروڑ کر سپاہیے کی مٹھی میں تھمادیے۔ وہ خاموشی سے چل دیا۔ میں نے ٹھیلے والے کو گھورا تو وہ مسکراتے ہوئے کچھ بڑبڑا کر رہ گیا۔۔۔ لیکن اس نے اپنا کھاتا کھول کر لکھا نہیں کہ کتے کا خرچ: 30 روپے۔

ہاں، ابھی صبح ناشتہ کرتے ہوئے اے آر وائی ون ورلڈ چینل پر ایک خبر نظر سے گذری۔۔۔۔۔۔ پاکستان کے غیر ملکی قرضے تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔۔۔ یعنی 50 ارب ڈالر۔۔۔ کیا ہمارے حکمرانوں اور پچاس، پچاس افراد پر مشتمل وفود کو قرضہ دینے وقت بھی غیر ممالک اپنے کھاتے میں یہی درج کرتے ہوں گے کہ کتوں کو دیے۔۔۔۔۔؟

Comments