Namoone

جامعات میں بہت سے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں، اور میں بھی انہی میں سے شاید ایک ہوں۔ :D دنیا جائے جینز میں اور میں قومی لباس میں۔ زمانہ بھاگے انگریزی کی طرف اور میں حاضری لگتے ہوئے بھی "یس سر" یا "Present" کے بجائے پکاروں"حاضر"۔ :P

ہم جماعت لڑکے مجھے فضول خیال کرتے ہیں کیوں کہ میں ان کے معیار کا نہیں۔ میں ان کی طرح بات بات پر ماں بہن کی فحش گالیاں نہیں نکالتا۔ ان کے طعنوں سے تنگ آکر ایک دن میں نے سوچا کہ انہی کے انداز میں ان سے بات کرکے دیکھا جائے، شاید چپ ہوجائیں۔ میں نے ان کی فضول باتوں کے جواب میں چند شریفانہ گالیاں نکالنے کی کوشش کی لیکن میری آواز مجھ سے دور نہیں جاسکی اور میں نے سوچا، چپ ہی رہوں تو بہتر ہے۔ یہ اپنے بس کی بات نہیں۔ :nahi:

مضامین کو آخر حتمی شکل دے ہی دی۔ "تعلیم" کے مضمون کے ساتھ اب ضمنی مضامین "عمرانیات" (سوشیالوجی) اور "علم سیاسیات" (Political Science) پڑھ رہا ہوں۔ ساتھ لازمی مضامین میں اس سمسٹر مطالعہ پاکستان اور اسلامیات شامل ہیں۔ یہ میری زندگی کے مصروف ترین ایام ہیں۔ تھکن سے بھرپور۔

میں دیکھنے سے پٹھان کہاں سے لگتا ہوں؟ :roll: پتا نہیں۔۔۔ بہت سے لوگ دیکھتے ہی کہتے ہیں، پٹھان ہو نا؟ اللہ جانے میرے ماتھے پر لکھا نظر آتا ہے انہیں۔ ایک ہم جماعت لڑکی پوچھتی ہے، پٹھان ہو؟ میں نے کہا، ہمم۔۔ بولی، اثرات پتا چل جاتے ہیں۔ میں پوچھوں، کیسے؟ کون سے اثرات؟ تو بولے کہ بس پتا چل جاتا ہے۔ میں مانوں نہیں، اس سے کہوں کہ تم نے کہیں لکھا ہوا دیکھا ہوگا یا سنا ہوگا۔۔۔ تو وہ بحث کرنے بیٹھ گئی کہ مجھے کون بتائے گا، میں کہاں دیکھوں گی۔ :devil: آخر تنگ آکر کہا کہ اچھا بھئی، مان لیتا ہوں کہ تم نے خود ہی پہچانا ہوگا۔ :P لیکن پٹھان، مہاجر، پنجابی کچھ نہیں ہوتا۔ صرف پاکستانی ہوتا ہے۔

ایسے ہی کزن کو میرے ساتھ دیکھ کر اس کے محلے کی ایک لڑکی نے بات پھیلادی کہ وہ یونیورسٹی میں نجانے کس پٹھان لڑکے سے ملتی ہے۔ :dxx: بی۔بی۔سی لڑکیاں۔ :haha:
سیاسیات کے جماعت میں کسی نے ابراہم لنکن کی بیان کردہ جمہوریت کی تعریف پڑھی:
Democracy is the rule of the people, by the people and for the people.
سیاسیات کے استاد پروفیسر محمد کامران خان نے کہا کہ وہ اپنے ملک کی جمہوریت کے مطابق یہ تعریف یوں کریں گے کہ
Democracy is the rule off the people, buy the people and far the people.

میں دو ہم جماعت لڑکوں کے ساتھ مرکزی لائبریری کے پاس بیٹھا تھا۔ وہ دونوں سگریٹ پی رہے تھے۔ چند لڑکے آئے ان کی جان پہچان کے اور WOL کے دس روپے والے نیٹ کارڈز دے کر چلے گئے۔ مفت میں بانٹے جارہے تھے۔ میرے ساتھ والوں نے سوچا کہ لڑکیوں کو بانٹیں گے۔ ایک لڑکی جاتی دکھائی دی تو انہوں نے آواز دے کر اسے بلالیا۔ ایک نیٹ کارڈ اسے دیا۔ پوچھنے لگی، کیوں؟ کہنے لگے، بس انجوائے کرو۔ کہتی ہے، اچھا ایک یہ۔۔۔ لڑکے کے ایک ہاتھ میں سگریٹ اور دوسرے میں چند نیٹ کارڈز۔ ہم سمجھے کہ ایک اور نیٹ کارڈ مانگ رہی ہے۔ اس لڑکے نے بھی کنفیوژ ہوکر سگریٹ ایک طرف رکھ دی۔ لڑکی بولی، یہ نہیں، وہ۔۔۔ اور سگریٹ کی طرف اشارہ کیا۔ ہم حیران کہ اسے ہوا کیا ہے۔ :hayn: اس لڑکے نے شش و پنج کے عالم میں سگریٹ اٹھاکر اسے دی۔ اس لڑکی نے ایک کش لگایا اور شکریہ ادا کرکے واپس کرتے ہوئے بولی کہ میں پہلے بھی ایک لگاچکی ہوں۔ :-|

میں نے کہا تھا نا، جامعات میں بہت آزادی ہے۔۔۔ اتنی آزادی کہ کچھ لوگ اس آزادی کے قابل نہیں۔

خیر۔۔۔ فی الحال یہی۔۔۔ مزید وقت نہیں۔

Comments