Sir Osama - A Remarkable Teacher


میں نے آٹھویں جماعت کی تعلیم نارتھ کراچی کے ایک چھوٹے سے اسکول پبلک پیراڈائز میں 2001ء میں حاصل کی۔ وہاں ہمیں کمپیوٹر کا مضمون ’’محمد اسامہ‘‘ نامی ایک استاد پڑھاتے تھے۔ کمپیوٹر پر اُن کی دسترس تو بہر حال تھی ہی, لیکن اُس کے علاوہ وہ بہت اچھے انسان بھی تھے۔ طلبا کے ساتھ گھل مل جانا اُنھیں خوب آتا تھا۔ صرف تدریسی ہی نہیں بلکہ دیگر معاملات میں بھی طلبا کی بہت راہ نمائی کیا کرتے تھے۔
اسکولوں میں کمپیوٹر کا نصاب خاصا بنیادی اور سرسری سا ہوتا ہے۔ سَر اُسامہ کو گرافکس ڈیزائننگ، اینی میشن اور دیگر پروفیشنل پروگراموں پر مہارت تھی۔ اسکول کے نزدیک ہی ہمارے ایک ہم جماعت، یوسف کا گھر تھا۔ اسکول سے نکل کر ہم اُس کے گھر کے پاس کھڑے ہوجاتے تھے اور سر جیسے ہی اسکول سے اپنے گھر جانے کے لیے نکلتے ہم اُنھیں روک لیتے اور اصرار کرکے اُس دوست کے گھر لے جاتے کہ پلیز سر دس منٹ ہمیں کچھ سکھادیں۔ اور وہ ہمیں کبھی گرافک ڈیزائننگ کے سوفٹ ویئر کی بنیادی معلومات دیتے تو کبھی اینیمیشن سوفٹ ویئر کی۔ گو کہ اُس زمانے میں کمپیوٹر اپنے گھر پر نہ ہونے کی وجہ سے میں اتنا زیادہ سیکھ نہیں سکا تھا لیکن اُن ہی کی رہنمائی کا نتیجہ تھا کہ کمپیوٹر کے بارے میں میری سوجھ بوجھ خاصی بہتر ہوگئی۔ اور بعد میں میرے لیے کمپیوٹر استعمال کرنا اور نت نئے سوفٹ ویئر از خود سیکھنا بہت آسان ہوگیا۔
 کبھی ہم سر کے ساتھ کھانا کھاتے، کبھی باتوں کا وہ دور چلتا کہ بس۔۔۔ اُن کے ساتھ ماہِ رمضان میں افطاریاں بھی یادگار ہیں۔ کبھی اُن کے گھر، کبھی میرے گھر، کبھی کسی دوسرے ہم جماعت کے گھر۔ محفل افطاری کی ہو یا دوسری، ہمیشہ کئی گھنٹوں پر محیط ہوتی تھی۔ ہم اپنی چھوٹی چھوٹی باتیں اُنھیں سناتے رہتے، اور وہ بھی بہت مزے سے سنتے اور ہنسی مذاق کرتے۔ میں وہ محفلیں کبھی نہیں بھول سکوں گا۔ جن دنوں امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا تھا، ان دنوں ہماری اور اُن کی جو جذباتی کیفیت تھی، وہ اب بھی یاد آتی ہے۔
مجھے کمپیوٹر سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ میں اَبّو سے ضد کرتا تھا کہ کمپیوٹر لے آئیں، اُنھیں گھر کے دیگر ضروری اخراجات پوری کرنے کی فکر تھی۔ سر اُسامہ کو اس بات کا اندازہ تھا۔ ایک دن اُنھوں نے مجھے کمپیوٹر لیب میں بلوایا۔ میں پہنچا تو اُنھوں نے ایک سفید لفافہ میری طرف بڑھایا اور کہنے لگے کہ تم کمپیوٹر لینا چاہ رہے تو میری طرف سے یہ تحفہ رکھ لو، تھوڑی سی رقم ہے۔ میں نے قطعی انکار کردیا لیکن اُنھوں نے اپنا اصرار جاری رکھا۔ مجھے لگا کہ ان کے خیال میں، میں کمپیوٹر لینے لگا ہوں تو مٹھائی وغیرہ کے لیے رقم دے رہے ہیں، شاید انھوں نے خود بھی ایسی ہی کوئی بات کہی۔ میں نے ان کے اصرار کرنے پر وہ لفافہ لے لیا، انھوں نے اس بارے میں کسی سے ذکر نہ کرنے کی تاکید کی۔ اور جب کلاس میں آکر چپکے سے اُسے کھولا تو پل بھر کے لیے میری سانسیں رُک گئیں۔ اُس لفافے میں چار ہزار روپے تھے۔ اُن دنوں اسکول میں اُن کی اپنی تنخواہ صرف دو ہزار روپے تھی اور وہ مجھے اپنی دو مہینے کی تنخواہ یوں دے رہے تھے۔۔۔ بغیر کسی رشتے ناتے کے۔ مجھے سمجھ نہیں آیا کہ میں کیا کروں۔ بعد میں بہت ضد کے بعد اُن سے یہ طے ہوا کہ میں ہر مہینے اُنھیں ہزار ہزار روپے کرکے لوٹادوں گا۔ یوں میرے گھر کمپیوٹر آسکا۔ میں اب تک سوچتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں کہ ایسا کون ہوتا ہے جسے اپنے طالبِ علم کی اتنی فکر ہو۔۔۔ طالبِ علم بھی ایسا جو اکلوتا منظورِ نظر نہ ہو۔ اور بھی کئی طلبا تھے جو اُنھیں بہت پسند تھے اور شاید مجھ سے زیادہ اُن کے قریب تھے۔ یا شاید ہر ایک طالب علم کی اُنھیں اتنی ہی قدر تھی اور ہر ایک کو ان سے اپنائیت کا ایسا ہی احساس تھا۔
سر اُسامہ نے اسکول میں اپنی معمولی سی تنخواہ کے باوجود ہمیشہ کوشش کی کہ اسکول کا معیار بہتر کرسکیں۔ اُنھوں نے طلبا کے گروہ بناکر اُنھیں مختلف ذمے داریاں دیں۔ اُن کی ترغیب پر طلبا نے اسکول میں ایک بہترین لائبریری قائم کی، سائنس لیب کا معیار بہتر کیا، میں نے ہفت روزہ ’’پھلجڑی‘‘ اخبار نکالنا شروع کیا۔ لائبریری کا پروجیکٹ تو بہت ہی بہترین تھا۔ افسوس ہمارے بعد اسکول والوں نے اسے ختم کردیا۔ اسکول کے فنکشنز میں سر اُسامہ کی نگرانی میں ہم طلبا پر مشتمل ٹیم نے بہترین کارکردگی دکھائی اور اسکول کی تقریبات کو چار چاند لگائے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک اسکول فنکشن میں انھوں نے ’’شعلے‘‘ فلم کی پیروڈی ’’چھولے‘‘ کے نام سے تیار کی تھی۔
ہماری قوم سازشوں اور سیاست سے کبھی باز نہیں آتی۔ سر اُسامہ کی اتنی محنت کے باوجود اسکول انتظامیہ (بالخصوص خواتین اساتذہ) کو اُن سے مسائل رہے۔ نتیجتاً وہ اسکول چھوڑگئے۔ آٹھویں جماعت مکمل کرکے میں نے بھی اسکول چھوڑ دیا۔ کچھ عرصہ ملاقاتیں رہیں، پھر اُنھوں نے کہیں ملازمت شروع کردی۔ بعد میں سنا تھا کہ اُن کی شادی ہوگئی ہے۔ اُن دِنوں موبائل فون اتنا عام نہیں ہوا تھا اس لیے اُن کا کوئی رابطہ نمبر بھی نہیں لے سکا۔ مجھے نہیں پتا کہ وہ اب کہاں اور کس مقام پر ہیں، لیکن میں آج جس مقام پر ہوں، یہاں تک پہنچنے میں بلاشبہ ان کا بھی اہم کردار ہے۔ اُن کے لیے ہمیشہ دل سے بہت ساری دعائیں نکلتی رہیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ پرانی تحریر دوبارہ شیئر کرنے کا خیال یوں آیا کہ طویل تلاش اور مسلسل کوشش کے بعد بالآخر سر اسامہ کی فیس بک آئی ڈی ڈھونڈنے میں کامیابی ملی ہے، لیکن علم نہیں کہ وہ اسے اب بھی استعمال کرتے ہیں یا نہیں۔ بہرحال، کچھ امید ضرور ہے کہ رابطہ بحال ہوسکے گا۔

Comments