Memories: Ludo Tournament in School

گزشتہ تحریر میں اپنے اسکول ٹیچر، سر اسامہ کے متعلق لکھا تھا۔ کچھ دن بعد ان سے رابطہ کرنے میں آخرکار کامیابی ہو ہی گئی۔ خوشگوار حیرت ہوئی کہ انھیں نہ صرف میں یاد تھا، بلکہ میرے بھائی بہن اور اسکول کے دنوں سے متعلق کئی لمحات اور باتیں انھیں نہیں بھولی تھیں۔ کوئی بارہ، چودہ سال بعد ہونے والی گفتگو میں ایک جس واقعے کا انھوں نے ذکر کیا، وہ لوڈو مقابلہ تھا۔
پبلک پیراڈائز ایک چھوٹا سا اسکول تھا جس کی فیس بھی معمولی تھی اور بجٹ بھی محدود۔ لہٰذا اسکول میں کئی سہولتوں کا فقدان تھا۔ تاہم، سر اسامہ طلبا کی خاطر اسکول کو بہتر بنانے میں مختلف کوششیں کرتے رہتے تھے۔ ایسی ہی ایک کوشش اسکول میں لوڈو مقابلے کا انعقاد تھا۔ ہر جماعت سے دو دو طلبا پر مشتمل ایک ٹیم نے اس مقابلے میں حصہ لیا، لیکن ہماری آٹھویں جماعت سے چونکہ حصہ لینے والے چار امیدوار تھے، لہٰذا دو ٹیمیں بنیں: ایک میری اور یوسف کی، اور دوسری دو لڑکیوں کی جن میں ایک جویریہ اور دوسری غالباً صبا نامی لڑکی تھی۔ ہمی چار لوگ ایک طرح سے مقابلے کے منتظم بھی تھے۔ چنانچہ جب دو ٹیموں کا مقابلہ ہوتا تو ہم میں سے کوئی ایک ٹیم ریفری کے فرائض انجام دیتی اور اگر ہماری ہی ٹیم کا کسی دوسری جماعت کی ٹیم سے مقابلہ ہوتا تو بھی دوسری ٹیم ریفری ہوتی۔ دوسری ٹیموں کے مقابلے تو بڑی ایمانداری سے کھیلے جاتے، لیکن جب ہم دونوں میں سے کسی دوسری ٹیم کا مقابلہ ہوتا تو ریفری بننے والی ٹیم بے ایمانی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ ذرا کسی کی نظر چوکی اور ایک گوٹ باہر نکال لی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ فائنل مقابلے کے لیے ہمی دو ٹیمیں کوالیفائی کرسکیں۔
اب بے ایمانی کا سوال پیدا نہیں ہوتا تھا، کیونکہ دونوں ٹیمیں ایسے ہر حربے سے واقف تھیں۔ اب جو مقابلہ شروع ہوا تو صاف نظر آنے لگا کہ میری اور یوسف کی جوڑی ہار جائے گی۔ وجہ یہ تھی کہ یوسف کی کوئی گوٹ کھلنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ اور اگر کوئی کھلتی بھی تو فوراً مات کھاجاتی۔ نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ مخالف جوڑی کی صرف ایک گوٹ بچی جو اپنی منزل کے بالکل قریب تھی۔ تبھی یوسف کی گوٹ باہر نکلی اور اس نے مخالف ٹیم کی آخری گوٹ کو پیٹ دیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے یوسف کی ہر گوٹ باہر تھی، اور دوسری ٹیم کی آخری گوٹ بار بار پٹتی رہی، یہاں تک کہ بازی پلٹ گئے۔ ہماری ٹیم میچ جیت گئی۔
مقابلہ جیتنے پر ملنے والی یہ ٹرافی شاید مقابلے سے ایک دن پہلے ہی میں اور یوسف پچیس روپے میں خرید کر لائے تھے۔ لیکن اس کا کم قیمت ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔ اس پورے ٹورنامنٹ کا انعقاد اور خوشگوار تفریح کا میسر ہونا ہی بہت بڑی خوشی تھی۔ یہ تصویر اب بھی اس مقابلے کی یاد دلاتی ہے۔
سر اسامہ میں بہت کچھ کرنے کا جذبہ تھا۔ انھوں نے اپنی کمپیوٹر لیب ہی میں طلبا کے لیے لائبریری قائم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ تمام طلبا سے کہانیوں کی کتب عطیہ کرنے کی اپیل کی گئی۔ ڈھیروں کتب جمع ہوگئی۔ سب سے زیادہ کتب دینے والوں میں سر فہرست میرا نام اور پھر میری ہم جماعت جویریہ کا نام تھا۔ لائبریری کی ممبرشپ فیس دو روپے ہفتہ رکھی گئی۔ انتظامی ٹیم کے کارڈ بنائے گئے۔ ممبرشپ فیس سے حاصل ہونے والی رقم اخبارِ جہاں اور دیگر رسائل خریدنے میں استعمال ہوا کرتی تھی۔ پھر مجھے اخبار نکالنے کا خیال آیا۔ چنانچہ میں نے ہفتہ وار اخبار تیار کرنا شروع کیا۔ جمعہ کے دن ایک سفید پوسٹر شیٹ لے لیا کرتا اور اس پر اسکول سے متعلق مختلف خبریں اور طلبا کی کہانیاں ہوتیں۔ ’’اندر کی خبریں‘‘ لانے میں ہمارا خفیہ ذریعہ سر اسامہ ہی ہوا کرتے تھے۔
انھی دنوں اسکول والوں نے سالانہ تقریب منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ سر اسامہ نے مشہور فلم ’’شعلے‘‘ کی پیروڈی ’’چھولے‘‘ کا اسکرپٹ لکھا اور طلبا کو ریہرسل کروائی۔ ایسے ہی کئی دیگر یادگار مواقع ہیں۔
اس اسکول میں، میں نے صرف ایک سال پڑھا۔ لیکن باتیں یاد کرنے بیٹھوں تو ایسا لگتا ہے کہ نجانے کتنا طویل عرصہ گزارا تھا اور کتنی خوشگوار یادیں وابستہ رہیں۔

Comments

  1. آپ کی تحریر پڑھ کر مجھے یاد آیا. انجینئرنگ کالج لاہور جو ہمارے بعد یونیورسٹی بن گیا تھا میں ایک استاذ صاحب نے ہمیں ایک سال پڑھایا. اس کے بعد اعلی تعلیم کیلئے دساور چلے گئے اور ہم انجنیئر بن کر کالج چھوڑ گئے. 15 سال بعد وہ انجنئیرنگ یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر بنے تو میں نے انہیں مبارکباد کیلئے ٹیلیفون کیا. میں نے کہا "سر. میں آپ کا فلاں سال میں سٹوڈنٹ تھا". ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ بولے "" اجمل تمہارا خیال ہے کہ میں پہچانوں گا نہیں. سناؤ پی او ایف میں ہی ہو کہ چھوڑ دیا ہے،؟ ". میں دنگ رہ گیا کہ نہ صرف مجھے آواز ہی سے پہچان لیا بلکہ یہ بھی معلوم تھا کہ کہاں ملازمت کر رہا ہوں.
    ایسے ہوتے ہیں اساتذہ

    ReplyDelete

Post a Comment