'Team 1' and Expectations from SEE TV


ایکشن تھرل ڈراموں کا شوقین ہونے کے ناتے گزشتہ دنوں جب میں نے سی ٹی وی (See tv) پر ’ٹیم 1‘ نامی ڈرامے کی جھلکیاں دیکھیں تو میں نے سوچا کہ آئندہ دیکھنے والی ٹی وی سیریز کی فہرست میں اسے بھی شامل رکھنا چاہیے۔ میں فی الحال امریکی ڈراما ’دی بلیک لسٹ‘ کا تیسرا سیزن دیکھ رہا ہوں، جبکہ ٹی وی پر ان دنوں چوتھا سیزن نشر ہورہا ہے۔ مجھے امید ہے کہ میں چوتھا سیزن ختم ہونے سے پہلے اسے جا لوں گا۔ ویسے بھی افواہ سنی ہے کہ این بی سی والے ناظرین کی تعداد میں مسلسل کمی کے باعث دی بلیک لسٹ کو منسوخ کرنے پر غور کر رہے ہیں، لہٰذا اگلی ٹی وی سیریز کی تلاش ضروری تھی۔
اگلے دن میں نے حسبِ عادت ’ٹیم 1‘ کے بارے میں ابتدائی معلومات کی تلاش کا آغاز کیا۔ مجھے اتنا تو اندازہ تھا کہ یہ ترکی ڈراما ہے جسے اردو میں ڈب کرکے نشر کیا جارہا ہے۔ لیکن میں اسے اردو میں دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ اس کا سبب میں آگے چل کر بتاؤں گا۔
بہرحال، میں نے سب سے پہلے یہ کھوجنے کی کوشش کی کہ اس ڈرامے کا ماخذ یا ترکی نام کیا ہے اور ٹی وی چینل کی ویب سائٹ کی طرف رجوع کیا۔ سی ٹی وی کی ویب سائٹ خاصی دیدہ زیب ہے لیکن جب میں اس ڈرامے کے صفحے تک پہنچا تو وہاں صرف اس کی اقساط ہی موجود تھیں۔ اس کے علاوہ مجھے کوئی معلومات نہ مل سکیں۔  پھر میں نے ایک موہوم سی امید کے ساتھ ویکیپیڈیا کا رخ کیا۔ وہاں بھی صرف سی ٹی وی سے متعلق ایک مختصر سا مضمون موجود تھا جس کے مطابق اس چینل نے 2015ء میں اپنی نشریات کا آغاز کیا اور اس کا صدر دفتر استنبول، ترکی میں ہے۔ یہاں سے ناکامی کے بعد، میں نے مذکورہ ڈرامے اور ٹی وی چینل کے نام سے موجود فیس بک صفحات کھنگالے لیکن کوئی سرا ہاتھ نہ آیا۔ وہ صفحات بعض شوقین افراد اپنے ہی طور پر شوقیہ چلا رہے ہیں۔
پھر مجھے ایک خیال آیا اور وہ یہ کہ ڈرامے کے شروع یا آخر میں اداکاروں کے نام دکھائے جاتے ہیں۔ اگر وہ دیکھ لیے جائیں تو شاید اصل ڈرامے تک پہنچا جاسکے۔ چنانچہ میں نے ڈرامے کے کچھ اقساط کے ابتدائی اور آخری حصے دیکھے۔ سچ کہوں تو بے حد افسوس ہوا۔ ہر قسط کے آخر میں جو نام دکھائے جاتے ہیں، وہ صرف اردو میں ڈھالنے والی (یعنی ترجمہ اور ڈبنگ کرنے والی) ٹیم کے ہیں، اور قسط کے آغاز میں جہاں ترکی فن کاروں کے نام تھے، انھیں سیاہ رنگ سے چھپا دیا گیا ہے۔ یہ صریح ناانصافی محسوس ہوئی۔ اصل تخلیق کاروں کو ان کے کام کا کریڈٹ دینے سے بھلا کیا جاتا ہے؟
قصہ مختصر، مجھے انگریزی ویکیپیڈیا پر ترکی ڈراموں کی ایک طویل فہرست ملی۔ اس فہرست سے میں نے وہ ڈرامے چنے جن کی اقساط سو یا اس سے زائد تھیں کیونکہ سی ٹی وی سے اس ڈرامے کی سو سے زائد اقساط نشر ہوچکی ہیں۔ پھر باری باری ہر ڈرامے کا نام گوگل پر سرچ کیا تو بالآخر میں اصل ڈرامے تک پہنچ ہی گیا جس کا ترکی نام ’ Nizama Adanmış Ruhlar‘ یا ’ekip 1‘ (اردو ترجمہ ’ٹیم 1‘) ہے۔ ڈرامے تک پہنچا تو اس کی اقساط تک پہنچنا مشکل نہیں رہا۔ یوٹیوب پر اصل ڈرامے کی تمام اقساط موجود ہیں۔
بیشتر ترکی ڈراموں کی طرح ’ٹیم 1‘ بھی طویل دورانیے کا ڈراما ہے۔ اصل ڈرامے کی ہر قسط تقریباً پونے دو گھنٹے طویل ہے، سیریز چار سیزن پر مشتمل ہے اور اس کی مجموعی اقساط 121 ہیں۔ اگر ہر قسط اوسطاً سو منٹ (ایک گھنٹہ چالیس منٹ) کی بھی لگائی جائے تو یہ 12 ہزار سے زائد منٹ بنتے ہیں۔ گویا اگر آپ کو یہ ڈراما پسند آجائے تو اچھے خاصے عرصے کے لیے آپ کو کسی دوسرے ڈرامے کی تلاش کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ لیکن کیا یہ ڈراما آپ کو پسند آئے گا؟
میرے لیے ایک بنیادی منفی نکتہ اس کی اردو میں ڈبنگ ہے۔ جیسے کہ میں نے پہلے ذکر کیا، میں اس کا اردو ورژن دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ اردو میں ڈھالے گئے مکالمے اگرچہ کرداروں کے ہلتے ہونٹوں سے خاصی مطابقت رکھتے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ مکالموں کا سیدھا سیدھا ترجمہ کیا گیا ہے،  انھیں اردو قالب میں ڈھالا نہیں گیا ہے۔ بعض اوقات ایک کردار کی کسی بات کے جواب میں دوسرا کردار جو مکالمہ ادا کرتا ہے، وہ زبردستی کی بات لگتی ہے یا اس میں ہمارا مقامی تاثر نہیں آتا۔ پھر یہ کہ ترکی ڈراموں کی اردو ڈبنگ کرنے والی پوری ٹیم کا تعلق پنجاب سے معلوم ہوتا ہے۔ میں نے اب جتنے ترکی ڈراموں کی اردو ڈبنگ دیکھی ہے، تقریباً سبھی کرداروں کا لہجہ پنجابی ہے۔ وہ اردو کی بجائے اگر پنجابی میں ڈبنگ کرتے تو شاید زیادہ جان ڈال سکتے تھے۔ تمام صداکار بغیر تاثرات اور لہجے میں تبدیلی کے مکالمے بولتے چلے جارہے ہیں۔ جہاں انھیں سرگوشی کرنی چاہیے، وہاں بھی وہ معمول کی آواز میں بات کر رہے ہیں اور جہاں انھیں چیخنا چاہیے، وہاں بھی ان کی وہی ٹون ہے۔ جملوں کی ساخت میں جو مصنوعی پن اور کمزوریاں ہیں، ان کا ذکر تو رہنے ہی دیجیے۔
لیکن مجھے یہ ڈراما انگریزی میں ڈب نہیں مل سکا اور نہ ہی ڈرامے کے انگریزی سب ٹائٹلز ملے۔ مجبوراً میں نے اردو ہی میں ابتدائی چند اقساط دیکھنے کا فیصلہ کیا۔ پہلی قسط نے خاصا مایوس کیا۔ حالانکہ کہانی کا آغاز ہی دہشت گردوں کے ٹھکانے پر حملے سے ہوتا ہے۔ اسے سنسنی خیز بنایا جاسکتا تھا۔ شاید کوشش بھی یہی رہی ہوگی، لیکن اس کے برعکس یہ خاصا سست رفتار محسوس ہوا۔ پولیس کی ٹولی ایک گھر میں موجود دہشت گردوں کے صفائی کے لیے صرف دو اہلکاروں کو اندر بھیجتی ہے جبکہ باقی ڈھیروں اہلکار باہر ناکہ بندی کرتے ہیں۔ ایسے میں پوزیشن لیے ہوئے اہلکار کے پاس جب اس کے گھر سے بار بار فون آتا ہے تو وہ فون پر اپنی بیٹی سے بات کرنے لگتا ہے۔ کیا واقعی ایسا ہوتا ہے؟ یا مجھے انگریزی ڈراموں میں ایف بی آئی کی تیز رفتار کارروائیاں دیکھنے کی عادت ہوگئی ہے؟
میں نے ابھی ہمت نہیں ہاری ہے۔ میرا ارادہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ’ٹیم 1‘ کی مزید اقساط دیکھوں گا۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ پاکستان کا (غالباً) واحد ایچ ڈی انٹرٹینمنٹ چینل ہونے اور ترکی سے وابستگی کے ناتے سی ٹی وی ناظرین کو بہتر تفریح فراہم کرسکتا ہے۔ بس اسے خود کو عالمی پائے کا چینل ثابت کرنے کے لیے صرف ٹی وی پر مواد پر نشر کرنے اور انھیں ویڈیو اسٹریمنگ کی ویب سائٹس پر اپلوڈ کرنے کے ساتھ ساتھ دیگر کاموں کی طرف بھی توجہ دینی ہوگی۔

Comments

Post a Comment