Abhijeet's Tere Bina

میٹرک کے دو سالوں میں غالباً مجھے دو ہی میوزک البموں کی کیسٹیں تحفے میں ملی تھیں۔ دونوں ہی کنول ناز نے دی تھیں۔ ایک عدنان سمیع کی ’تیرا چہرہ‘، اور دوسری ابھیجیت کی ’تیرے بنا‘۔ ٹیپ کیسیٹوں کا زمانہ اب تو بس رخصت ہی ہوچکا، لیکن اُن دِنوں ایسی صورتِ حال نہیں تھی۔ کیسیٹوں کا کاروبار اچھا خاصا ہوا کرتا تھا کیوں کہ کمپیوٹر، ایم پی تھری پلیئر، ٹیبلٹ اور اسمارٹ فون اتنے زیادہ عام نہیں ہوئے تھے۔
مجھے یاد نہیں کہ پہلے ’تیرا چہرہ‘ البم ملا تھا یا ’تیرے بنا‘؛ لیکن یہ ضرور یاد ہے کہ اُس وقت ان دونوں ہی البموں کو اتنا سنا تھا کہ ایک ایک گیت ہی نہیں، گیتوں کے درمیان موسیقی کا اُتار چڑھاؤ اور سارے سُر تک حفظ ہوگئے تھے۔ ابھیجیت بھٹاچاریا کی آواز میں اب نئے گیت تو خال خال ہی سننے کو آتے ہیں، اور نئی گلوکاروں کی آمد سے وہ گم نامی کے گوشوں میں گم ہوتے جا رہے ہیں، لیکن اُس وقت وہ خاصے مقبول تھے۔ ہر دوسری فلم میں اُن کی آواز میں کوئی نہ کوئی گیت ضرور شامل ہوتا تھا۔ شاہ رخ خان کی فلم ’یس باس‘ میں ’سنیے تو‘ اور ’میں کوئی ایسا گیت گاؤں‘، فلم ’بادشاہ‘ میں ’بادشاہ او بادشاہ‘، فلم ’میں ہوں نا‘ میں ’تمھیں جو میں نے دیکھا‘، فلم ’چلتے چلتے‘ میں ’سنو نا سنونا سن لو نا‘، ’چلتے چلتے‘ اور ’توبہ تمھارے یہ اشارے‘، سنیل سیٹھی کی فلم ’دھڑکن‘ میں ’تم دل کی دھڑکن میں‘، ڈینوموریا کی فلم ’راز‘ میں ’پیار سے پیار ہم‘، فلم بوبی دیول کی فلم ’ترکیب‘ میں ’تیرا غصہ‘، اکشے کمار اور انیل کپور کی فلم ’بے وفا‘ میں ’عشق چھپتا نہیں چھپانے سے‘ وغیرہ، ابھیجیت کے مشہور و معروف گیتوں میں سے چند ہیں۔ ابھیجیت اپنی منفرد آواز کی وجہ سے الگ ہی پہچانے جاتے ہیں اور مجھے اسی لیے ’بطور گلوکار‘ وہ پسند رہے ہیں۔ ’بطور گلوکار‘ کی تخصیص اس لیے کہ موصوف اکثر اوقات پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں انتہائی متنازعہ رائے کا برملا اظہار کرتے ہیں، اور پاکستانی گلوکاروں کی بھارت آمد کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔ شاید اپنی قدر گھٹ جانے کا نتیجہ ہے۔
بہرحال، ابھیجیت کا میوزک البم ’تیرے بنا‘ ۲۰۰۳ میں جاری ہوا تھا۔ البم میں درج ذیل آٹھ گیت شامل تھے:
  1. کبھی یادوں میں آؤں
  2. دھیرے دھیرے دھیرے
  3. چلنے لگی ہیں ہوائیں
  4. کچھ تو کہو
  5. کبھی موسم
  6. نیندوں میں خوابوں کا سلسلہ
  7. مجھے کنہیا کہا کرو
  8. ہوگیا ہوگیا
البم کے تمام آٹھ گیتوں کو الفاظ کا جامہ نصرت بدر نے پہنایا جب کہ موسیقی سپتریشی ابھیجیت نے ترتیب دی۔ ۲۰۰۴ سے لے کر اب تک، میں نے اس البم کو نجانے کتنی ہی بار سنا ہے اور لطف اُٹھایا ہے۔ البم کا ہر گیت دیگر پاپ البموں سے الگ ہے۔ ہر گانا محبت کے احساس سے سرشار، دل لبھانے والا اور محبت کی وادی میں لے جانے والا ہے۔
مثلاً
کبھی یادوں میں آؤں، کبھی خوابوں میں آؤں
تیری پلکوں کے سائے میں آکر جھلملاؤں
میں وہ خوشبو نہیں جو ہوا میں کھو جاؤں
ہوا بھی چل رہی ہے، مگر تُو ہی نہیں ہے
فضا رنگیں وہی ہے، کہانی کہہ رہی ہے
مجھے جتنا بھلاؤ، میں اُتنا یاد آؤں!

جو تم نہ ملتیں، ہوتا ہی کیا بھول جانے کو
جو تم نہ ہوتیں، ہوتا ہی کیا ہار جانے کو
میری امانت تھیں تم، میری محبت ہو تم
تمھیں کیسے میں بھلاؤں!

یا پھر، محبوب کی یاد میں

چلنے لگی ہیں ہوائیں
ساگر بھی لہرائے
پل پل دل میرا ترسے
پل پل تم یاد آئے

اسی طرح ’کبھی موسم‘ بھی کہ

یہ پنگھٹ سونے سونے ہیں
وہ خالی خالی جھولے ہیں
لہراتا ساگر کنارا تم بن ادھورا لگے
لہر قدموں سے ٹکرائی
مجھے تم یاد آئے
کبھی موسم ہوا ریشم
کبھی بارش ہوئی رم جھم
مجھے تم یاد آئے

البم کے سبھی گیت بہت ہلکے پھلکے اور لطف دینے والے ہیں۔ شاعری میں کوئی عظیم الشان فلسفہ نہیں ہے، موسیقی میں کوئی عالی شان کمال نہیں دکھایا گیا ہے، گائیکی میں کوئی آسمان کو چھولینے والے سُر نہیں ہیں، لیکن ان میں محبت ہے۔ محبت کرنے والے ایک عام شخص کی کیفیات ہیں، حالِ دل کا بیاں ہے۔
مجھے یاد ہے کہ البم سننے کے ابتدائی دِنوں سے مجھے اس کا ایک گیت خاص کر پسند رہا، ’نیندوں میں خوابوں کا سلسلہ‘۔

ملے جب سے تم سے، خود سے جدا ہوگئے
خدا کی قسم تم پہ فدا ہوگئے
جاگی جاگی آنکھوں نے دیکھے خواب تمھارے ہیں
دیوانے تمھارے ہوئے جب سے ہیں ہم
سبھی یار ہم سے دیکھو خفا ہوگئے
خدا کی قسم تم پہ فدا ہوگئے
نیندوں میں خوابوں کا سلسلہ!
خوابوں میں یادوں کا سلسلہ!

کبھی میں سوچتا ہوں کہ ہوسکتا ہے اس البم میں ایسی کوئی خاص بات نہ ہو، اور ہوسکتا ہے کہ مجھے یہ البم صرف اس لیے پسند ہو کہ عمر کے ایک خاص حصے میں، ایک خاص شخص کی جانب سے، ایک خاص کیفیت میں دیا گیا تحفہ تھا اور اُس کیفیت میں سنتے ہوئے مجھے اچھا لگنے کے باعث اب تک اچھا لگتا ہو، اور ہوسکتا ہے کہ دوسروں کو کچھ خاص نہ لگے، لیکن پسند اپنی اپنی!

Comments

  1. فن کی خوبی یقینا فنکار کے ذاتی کردار و افکار سے متاثر نہیں ہونی چاہیے۔ ابھیجیت صاحب اور ان کی گائیکی سے متعارف کروانے کا شکریہ۔ ہادیں اور بالخصوص اچھی یادیں ہمارے دلوں میں بسیرا کیے ہوتی ہیں اور ان سے وابستہ یا ملتا جلتا کوئی بھی احساس ہمیں کھینچ کر اسی زمانے میں لے جاتا ہے جس پر وقت کی گرد پڑچکی ہوتی ہے گزرے لمحوں کی میٹھی سی کسک ہمیں اس محبت کی یاد دلاتی ہے جو ہم سے دور جا کر اب ہمارے بہت قریب آگئی ہے۔

    ReplyDelete
  2. کمال لکھا پر فن ہر انسان کی پہچان ہے وہ غلط ہو یہ صیح اور یہ فن انسان کو اوپر پہچاتا ہے اور زاول بھی

    ReplyDelete

Post a Comment