Jab Jab Tazkirah-e Khujandi Huva - Book Review

میرے سامنے اس وقت ندیم احمد ندیم نورانی صاحب کی کتاب مسمی باسمِ تاریخی ’’جب جب تذکرۂ خجندی ہوا‘‘ ہے، جو اُنھوں نے مولانا شاہ احمد نورانی صاحب مرحوم کے تایا، یعنی مولانا عبد العلیم صدیقی کے بڑے مولانا نذیر احمد خجندی رحمۃ اللہ علیہ کے حالاتِ زندگی پر تحریر کی ہے۔ ۲۴۰ صفحات پر مشتمل اس مجلد کتاب کی قیمت ڈھائی سو روپے ہے۔
ندیم احمد صاحب کو میں کوئی سات آٹھ سال سے جانتا ہوں۔ خاصے شریف النفس اور نفیس آدمی ہیں۔ علمی اور تحقیقی مزاج پایا ہے۔ جب میرا اُن سے تعارف ہوا تو میں صرف کمپوزیٹر ہوا کرتا تھا اور کتب و رسائل کی کمپوزنگ کرتا تھا۔ اُسی دفتر میں یہ آفس سیکریٹری اور پروف ریڈر تعینات ہوئے۔ عہدے کے لحاظ سے مجھ سے اوپر تھے لیکن ہمارے تعلق میں یہ بات کبھی حائل نہیں ہوئی، محسوس تک نہیں ہوئی۔ دونوں کے اردو ادب اور لکھنے پڑھنے سے شغف کے باعث ہمارے درمیان مختلف موضوعات پر علمی مباحث بھی ہوا کرتے جن میں ہمارا سب سے پسندیدہ موضوع اردو ادب اور اردو املا ہوا کرتا تھا۔ مذہبی مباحث تو معمول کی بات تھی۔ میرے کمپوزیٹر اور ان کے پروف ریڈر ہونے کے ناتے ہم دونوں کا تعلق اردو املا سے گہرا تھا۔ انھی دنوں ایک صاحب نے ہمارا تعارف رشید حسن خاں صاحب کی کتاب ’’اردو املا‘‘ سے کروایا تھا۔ چناں چہ کون سی سفارشات اپنائی جائیں اور کون سی نہیں، اور کیوں، ان سب پر کئی کئی گھنٹے گفتگو جاری رہا کرتی۔
’’جب جب تذکرۂ خجندی ہوا‘‘، ندیم صاحب کی نظر میں اردو املا اور قواعد کی اہمیت کا واضح اظہار اور ثبوت ہے۔ معیاری اردو املا لکھنے، قواعد کا خیال رکھنے اور رموزِ اوقاف کے استعمال کا خاص اہتمام کیا گیا ہے؛ حال آں کہ فی زمانہ اردو دان طبقہ گنتی کے چند ہی رموزِ اوقاف کا استعمال کافی سمجھتا ہے۔
ندیم صاحب کے تحقیقی مزاج کو دیکھ کر مجھے ہمیشہ یہی خیال آتا ہے کہ یہ اگر کسی اور گھر میں پیدا ہوئے ہوتے، یا شروع سے انھیں کوئی علمی راہنمائی کرنے والا مخلص میسر آیا ہوتا تو یہ اس وقت کسی بلند مقام پر ہوتے۔ دنیا میں بعض افراد کی صلاحیتیں صرف اسی لیے پوشیدہ رہ جاتی ہیں کہ اُنھیں کوئی پہچاننے والا، سراہنے والا، یا نکھارنے والا میسر نہیں آتا۔ عرصے سے واقفیت کی بنا پر مجھے علم ہے کہ کس کس طرح ان کی حوصلہ شکنی کی گئی، علمی اسناد نہ ہونے کے باعث انھیں موضوع سے ناواقفیت، لاعلمیت اور بے تعلقی کے طعنے دیے گئے، انھیں کام کرنے سے روکنے اور دل برداشتہ کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن یہ رکے نہیں، اور اب یہ جان کر خوشی ہوئی کہ انھیں مولانا جمیل احمد نعیمی صاحب کی معاونت اور راہنمائی میسر آگئی ہے جنھوں نے مکتبۂ نعیمیہ کراچی سے اس کتاب کی اشاعت و طباعت کا اہتمام کیا ہے۔
کتاب کی تقریبِ رونمائی ۸ مارچ ۲۰۱۵ء کو منعقد ہوئی، لیکن اُسی رات مجھے ایک بیرونِ ملک سفر درپیش تھا جس کی تیاری کے باعث تقریب میں شرکت نہ کرسکنے کا مجھے دلی افسوس رہے گا۔ بلاشبہ یہ ان کے لیے یادگار موقع تھا، زندگی کی اہم کام یابیوں میں سے ایک کام یابی تھی۔
کتاب کے آغاز میں مولانا جمیل احمد نعیمی صاحب کی تقدیم اور جناب محمد مسرور احمد صاحب کی تقریظ شامل ہے۔ دونوں کی تحاریر میں ایک روایتی جملہ پایا جو آج کل عموماً ہر مذہبی کتاب کے شروع میں درج تقاریظ میں شامل ہوتا ہے کہ ’’کتاب کا جستہ جستہ مقامات سے مطالعہ کیا‘‘، یا ’’مکمل مطالعہ نہ کرسکا‘‘، یا ’’بالاستعیاب دیکھا‘‘۔ خدا جانے ان صاحبان کی مصروفیات واقعی اس قدر ہوتی ہیں یا وہ یوں ہی مکمل پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے یا اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر مکمل پڑھنے کا دعوا کردیا اور بعد ازاں کوئی سنجیدہ یا علمی یا مذہبی غلطی نکل آئی تو وہ بھی لپیٹ میں آجائیں گے۔ بہ ہر حال، وجہ جو بھی رہی ہو، میں جب جب کسی تقریظ، تقدیم، وغیرہا میں اس طرح کے جملے دیکھتا ہوں تو پھر اس تحریر کو صرف رسمی کارروائی اور خانہ پری ہی جانتا ہوں۔
میں نے پہلے ندیم صاحب کے رموزِ اوقاف کی پابندی کرنے کا ذکر کیا ہے۔ اس کی سب سے پہلی مثال تو ’’عرضِ مصنف (کلماتِ تشکر)‘‘ ہیں۔ وقفِ ناقص (؛) اور وقفہ (،) کی علامات کا برمحل اور کثرتِ استعمال بڑے بڑے اردو ادبا کی تحاریر میں بھی ڈھونڈے نہیں ملتا۔ جہاں جہاں لفظ ’’شکریہ‘‘ آیا ہے وہاں ’ی‘ پر تشدید لگانے کا التزام رکھا گیا ہے۔ کیا واقعی یہ شکریّہ ہے؟ خود میرے لیے بھی یہ ایک انکشاف اور نئی بات تھی۔
زیادہ سے زیادہ تحقیق اور معلومات سمونے کی تڑپ بعض اوقات ندیم صاحب کو اصل موضوع سے کہیں دور لے جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال صاحبِ تذکرہ کے حسب و نسب کا بیان کرتے ہوئے ’’صدیقِ اکبر اور معجزۂ رسولﷺ‘‘ کا عنوان (ص ۱۷ تا ۱۹) ہے جو خاصی ضمنی معلومات پر مشتمل ہے۔ ’’وفدِ حجاز و وفدِ جمعیۃ العلما صوبۂ بمبئی کا مکالمہ‘‘ کے عنوان سے (ص ۷۳ تا ۷۹ پر) جو تفصیلی مکالمہ درج ہے، اس سے ایک اضافی موضوع سے متعلق معلومات تو حاصل ہوئی ہیں، لیکن نذیر احمد خجندی سے اس کا تعلق سوائے اس کے کچھ نہیں کہ وہ بھی وفد میں شامل تھے۔ اسی طرح ’’اجلاسِ مؤتمرِ اسلامی کانپور‘‘ (ص ۶۷ تا ۷۰) میں بھی اجلاس کی کارروائی کا خاصا تفصیلی ذکر آگیا ہے جس کی اتنی ضرورت نہیں تھی۔
ہاں جس امر کی ضرورت تھی وہ تھا انگریزی اقتباسات کا ترجمہ، جس کا حیرت انگیز طور پر اہتمام نہیں کیا گیا ہے (ص ۶۰، ۶۱، ۹۷، وغیرہ) اور صرف انگریزی عبارات کو بیان کرنا کافی سمجھا گیا ہے۔ کتاب میں فٹ نوٹس کی کثرت ہے جو اہم حوالہ جات اور مفید وضاحتوں پر مشتمل ہیں۔ یہ باریک بینیاں بھی ندیم صاحب کا کمال ہیں۔
کتاب کے شروع میں کتاب سے متعلق معلومات کے صفحے پر درج ہے کہ کتاب لکھنے کے ساتھ ساتھ اس کی کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ کا بیڑا بھی خود مصنف محترم ہی نے اٹھایا ہے؛ شاید اسی لیے بعض مقامات پر پروف ریڈنگ کی چند اغلاط نظر آتی ہیں کیوں کہ ایک ہی شخص جب بار بار ایک جیسے متن کو دیکھتا ہے تو اُس کی نظر سے کچھ نہ کچھ چوک بھی جاتا ہے؛ مثلاً:
ص۲۰: تیسری سطر میں ’’بعد الغاری صدیقی‘‘ لکھا ہے جس کے اختتامی واوین چھوٹ گئے ہیں۔
ص۲۰: ’’شجرۂ نسب‘‘ کے عنوان کے تحت دوسری سطر  کے آخر میں ’’انتالیسویں میں پشت میں۔۔۔‘‘، جب کہ درست یوں تھا: ’’انتالیسویں پشت میں۔۔۔‘‘
ص۲۶: ’’طب یونانی اور ڈاکٹری۔۔۔‘‘ کی سرخی کے تحت پہلی سطر کا پہلا لفظ ’’ہم‘‘ غیر ضروری۔
ص۲۷: آخری سے تیسری سطر میں ’’یونانی‘‘ کی بجائے ’’یونای‘‘۔
ص۳۰: آخری پیرا سے پہلے قوسین بند نہیں ہوا۔
خیر، یہ تو تقاضائے بشریت ہے، لیکن اغلاط ایسی سنجیدہ اور کثرت سے نہیں کہ ذوقِ مطالعہ پر گراں گزریں۔ یہ بھی ندیم صاحب کی سادگی ہے کہ مصنف و محقق ہونے کے باوجود خود ہی کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ کا اعتراف کرنے میں عار محسوس نہیں کی، اگرچہ ہمارے ایک دوست نے انھیں مشورہ دیا تھا کہ اس کا اعلان مناسب معلوم نہیں ہوتا۔
کتاب کے آخر میں جناب مصنف کی مولانا نذیر احمد خجندی صاحب پر تحریر کردہ ایک منقبت درج ہے جو ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کا پتا دیتی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک علمی و تحقیقی کتاب ہے اور ندیم صاحب خراجِ تحسین کے مستحق ہیں کہ ذاتی و پیشہ وارانہ مصروفیات کے باوجود وہ تحقیقی کام کے لیے وقت نکال ہی لیتے ہیں۔
آخر میں ایک مشورہ، جو میں اُنھیں ہر بار دیتا ہوں اور ابھی بھی دینا چاہتا ہوں کہ، شخصیات سے باہر نکلیں، اپنی نثر و نظم کو صرف شخصیات تک محدود نہ رکھیں۔ علمی تحقیق کے مزید بہت سے میدان آپ جیسے تحقیق دوست افراد کے منتظر ہیں اور تاحال تشنہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو دونوں جہان میں کام یابیاں عطا فرمائے۔ آمین!

Comments

  1. السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
    خوب باریک بینی اور ژرف نگاہی سے مطالعۂ کتاب ’’جب جب تذکرۂِ خجندی ہوا‘‘ (۲۰۱۴ء) کے بعد، ماشاء اللہ! بہت پیارا تبصرہ لکھا گیا ہے؛ علاوہ اَزیں، چند اَغلاط کی نشان دہی اور مفید مشوروں سے بھی نوازا گیا ہے۔
    اس سب کے لیے میں تبصرہ نگار پیارے دوست عمّار ابنِ ضیا کا دل کی گہرائیوں کے ساتھ شکرگزار ہوں۔ اللہ تعالیٰ اُنھیں دارین میں بہترین جزا سے نوازنے کے ساتھ ساتھ سدا خوش حال و فرحاں رکھے۔ آمین! بجاہ سیّد المرسلین ﷺ!
    دعا گو و دعا جو
    ندیم احمد نؔدیم نورانی
    منگل،۱۲؍ مئی ۲۰۱۵ء

    ReplyDelete

Post a Comment