Fake Diploma Mill - NYT on Axact

تصویر بشکریہ: axactian.com
ذیل میں ڈیکلن واش (Declan Walsh) کی رپورٹ کے صرف ایک ٹکڑے کا ترجمہ و خلاصہ پیش ہے جو ۱۷ مئی ۲۰۱۵ء کو نیو یارک ٹائمز میں ’’ڈپلومے جعلی، رقم اصلی: پاکستانی کمپنی ایگزیکٹ کی لاکھوں ڈالر آمدنی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔
انٹرنیٹ کی دنیا سے اسے دیکھیں تو یہ تعلیم و تدریس میں مشغول ایک راجدھانی ہے، سیکڑوں جامعات اور ہائی اسکولوں پر مشتمل، سننے میں بھلے لگنے والے ناموں اور مسکراہٹیں بکھیرتے پروفیسروں کے ساتھ۔
اس کی چمکتی دمکتی ویب سائٹیں درجنوں شعبوں، جیسے نرسنگ اور سول انجینئرنگ، میں اسناد جاری کرتی ہیں۔ ان ویب سائٹوں پر سی این این آئی رپورٹ کی توثیق، پُر جوش آرا و تبصروں کی ویڈیو، امریکا کے سیکریٹری آف اسٹیٹ جان کیری کے دستخط اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی مہریں موجود ہیں جو صارفین کو اپنے سچے ہونے کا یقین دلاتی ہیں۔
ایک تعارفی ویڈیو میں ایک خاتون، بطور درس گاہِ قانون (لا اسکول) کی سربراہ، کہتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ ’’ہمارے پاس دنیا کے نامی گرامی اساتذہ ہیں، تو آئیں اور بلندیوں کو چھونے کے لیے نیوفورڈ یونیورسٹی کا حصہ بن جائیں۔‘‘
لیکن بغور جانچ کی جائے تو یہ سب کسی سراب اور فریبِ نظر سے زیادہ نہیں۔ نیوز رپورٹیں من گھڑت ہیں۔ اساتذہ تنخواہ دار اداکار ہیں۔ جامعہ کے کیمپسوں کا وجود صرف کمپیوٹر سروروں پر تصویروں تک محدود ہے۔ اور اسناد حقیقتاً منظور شدہ نہیں ہیں۔
بلکہ کم و بیش ۳۷۰ ویب سائٹوں پر پھیلی اس ورچوئل راجدھانی میں، اگر کچھ حقیقت ہے تو وہ یہ کہ ایک اندازے کے مطابق اس کا کاروباری منافع دنیا بھر کے ہزاروں لوگوں سے حاصل کیے جانے والے کروڑوں ڈالر سالانہ پر محیط ہے، اور یہ تمام تر رقم ایک خفیہ پاکستانی سوفٹ ویئر کمپنی کو ادا کی جاتی ہے۔
یہ کمپنی، یعنی ایگزیکٹ، پاکستانی بندرگاہ شہرِ کراچی سے چلائی جاتی ہے جہاں دو ہزار سے زائد افراد ملازم ہیں، اور یہ کمپنی خود کو پاکستان کی سب سے بڑی سوفٹ ویئر برآمد کنندہ کہلاتی ہے، جس کے پاس ملازمین کے لیے سلیکون ویلی طرز کی ترغیبات ہیں، جیسے سوئمنگ پول اور کشتی۔
ایگزیکٹ بعض سوفٹ ویئر ضرور بیچا کرتی ہوگی۔ لیکن اس کے سابق ملازمین، کمپنی کے ریکارڈ، اور اس کی ویب سائٹوں کے تفصیلی تجزیے سے حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق، ایگزیکٹ کا بنیادی کاروبار جعلی اسناد بیچنے کے صدیوں پرانے دھندے کو انٹرنیٹ کے ذریعے عالمی پیمانے پر وسعت دینا ہے۔
جوں جوں آن لائن تعلیم و تدریس کے رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے، کمپنی بھی بڑی تیزی سے اپنے اسکولوں اور جامعات کی ویب سائٹوں کی بنیاد اس طرح کھڑی کر رہی ہے کہ وہ آن لائن تلاش کے دوران ممتاز نظر آئیں اور بین الاقوامی صارفین کو گمراہ کرسکیں۔
سابق ملازمین کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹ کے مرکزی دفاتر میں ٹیلی فون سیلز ایجنٹ شفٹوں میں تمام وقت کام کرتے رہتے ہیں۔ بعض اوقات اُن کا سامنا ایسے صارفین سے ہوتا ہے جو بخوبی جانتے ہیں کہ وہ رقم کے عوض ایک مشتبہ سند خرید رہے ہیں۔ لیکن اکثر اوقات، حقیقی تعلیم کے متلاشی لوگوں کو یہ ایجنٹ اس طرح ورغلا کر کسی ایسے کورس میں داخلہ لینے کے لیے دباؤ ڈالتے ہیں جسے کبھی تیار ہی نہیں کیا گیا، یا اُنھیں یہ یقین دلاتے ہیں کہ اُن کی زندگی بھر کے تجربات ہی سند کے حصول کے لیے کافی ہیں۔
منافع میں اضافے کے لیے، سیلز ایجنٹ مکارانہ حکمتِ عملی اپناتے ہوئے فالواپ بھی کرتے ہیں، اور خود کو امریکی حکومت کے اہل کار ظاہر کرتے ہوئے صارفین پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ مہنگے سرٹیفکیٹ یا توثیق شدہ دستاویزات خریدیں۔
سابق ملازمین اور ماہرینِ دھوکا دہی کے تخمینے کے مطابق، کمپنی کا ماہانہ منافع کئی ملین ڈالر ہے، جو غیر ملکی کمپنیوں ایک جال کے ذریعے ایگزیکٹ تک پہنچتا ہے۔ اور اس دوران پروکسی انٹرنیٹ سروس، جارحانہ قانونی ہتھکنڈوں، اور پاکستان میں قواعد و ضوابط کی عدم موجودگی کے سبب، اس جعلی تعلیمی راجدھانی میں ایگزیکٹ کا مالکانہ کردار نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔
’’صارفین سمجھتے ہیں کہ یہ ایک یونیورسٹی ہے، لیکن وہ نہیں ہوتی،‘‘ یاسر جمشید نے بتایا، جنھوں نے اکتوبر میں کوالٹی کنٹرول اہل کار کی حیثیت سے ایگزیکٹ کو خیرباد کہا۔ ’’یہ سب مال کا دھندا ہے۔‘‘
گزشتہ ہفتوں کے دوران انٹرویو کے لیے مسلسل درخواستیں اور کمپنی کی قیادت کو تفصیلی سوال نامہ ارسال کرنے کا جواب یوں ملا کہ اس کے وکلا کی جانب سے نیو یارک ٹائمز کو ایک خط موصول ہوا۔ اس خط میں تمام باتوں سے صریح انکار کرتے ہوئے انھیں جھوٹی کہانیاں اور سازشی نظریات قرار دیا۔
نیو یارک ٹائمز نے ایسی ۳۷۰ سے زائد ویب سائٹوں کا جائزہ لیا ہے، جن میں نہ صرف درس گاہوں، بلکہ اُنھیں منظوری دینے والے پورٹل اور اداروں، بھرتی کی ایجنسیوں، لینگویج اسکول اور حتا کہ ایک لا فرم کی ویب سائٹ بھی شامل ہے۔
تعلیم و تحقیق کے میدان میں جعلی اسناد کا مسئلہ خاصا تکلیف دہ رہا ہے۔ ۲۰۰۷ء میں برطانوی عدالت نے، جعلی ماہرِ جرمیات، جینی موریسن کو جیل بھیج دیا جس کے پاس دوسری جعلی اسناد کے علاوہ ایگزیکٹ کی ملکیت روشویلی یونیورسٹی کی جاری کردہ سند بھی تھی۔
پاکستان میں اس بارے میں معلومات کم ہی ہیں، جہاں ایگزیکٹ ڈپلوما کاروبار سے متعلق سوالات کو گول مول کر دیتا ہے اور خود کو عظیم الشان کام یاب اور مثالی کارپوریٹ ادارے کے طور پر پیش کرتا ہے۔
’’جیتنا اور خیال رکھنا‘‘ شعیب احمد شیخ کا نعرہ ہے، جن کا دعوا ہے کہ وہ ایگزیکٹ کی آمدنی کا ۶۵ فیصد خیرات کردیتے ہیں۔ گزشتہ سال اُنھوں نے ۲۰۱۹ء تک دس ملین بچّوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے پروگرام کا اعلان بھی کیا ہے۔
ساتھ ہی، وہ پاکستان کے سب سے بااثر میڈیا شہنشاہ بننے کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔ تقریباً دو سال کے عرصے سے، ایگزیکٹ ایک بروڈکاسٹ اسٹوڈیو تیار کرنے کے ساتھ ساتھ، معروف صحافیوں کو اپنے ٹیلی ویژن اور اخباری گروپ، ’’بول‘‘ کے لیے بھرتی کر رہا ہے، جس کا افتتاح اس سال طے ہے۔

یہ ڈیکلن واش (Declan Walsh) کی اس رپورٹ کا صرف ایک ٹکڑا ہے جو ۱۷ مئی ۲۰۱۵ء کو نیو یارک ٹائمز میں ’’ڈپلومے جعلی، رقم اصل: پاکستانی کمپنی ایگزیکٹ کی لاکھوں ڈالر آمدنی‘‘ (Fake Diplomas, Real Cash: Pakistani Company Axact Reaps Millions) کے عنوان سے نمایاں طور پر شائع ہوا۔ اصل رپورٹ خاصی طویل ہے اور اس میں مزید کئی ہوش ربا انکشافات ہیں۔ نیز ایگزیکٹ کی ملکیتی ویب سائٹوں کی فہرست بھی شائع کی گئی ہے۔
میرے مطالعے میں پہلی بار ایگزیکٹ سے متعلق منفی مضمون آیا ہے اگرچہ حقیقی زندگی میں جس سے بھی بات چیت ہوئی، ہر ایک نے ایگزیکٹ کے بارے میں منفی رائے کا اظہار کیا۔ اس میں کس حد تک حقیقت اور سچائی ہے، یہ تو وقت ہی بتائے گا، لیکن میرے ذہن میں ایک اور سوال بھی ہے۔
کیا اس ہوش ربا انکشافات پر مشتمل رپورٹ کی اشاعت کا یہ وقت محض اتفاقی ہے؟ یا پاکستان کے کسی میڈیا گروپ نے ’بول‘ نیٹ ورک کی آمد اور اپنا بوریا بستر گول ہوجانے کے خوف میں ایک بڑا شاٹ کھیلا ہے؟
حیرت تو مجھے اس بات پر بھی ہے کہ ہم ایگزیکٹ کے جس خفیہ کاروبار کا ذکر سنا کرتے تھے، یہ رپورٹ اُس طرف اشارہ تک نہیں کرتی۔

وضاحت: مضمون کی تمام تر معلومات کے غلط یا درست ہونے کی ذمہ داری ڈیکلن واش اور دی نیو یارک ٹائمز ہی پر عائد ہوتی ہے، نیز اس سے متعلق تمام تر اشاعتی حقوق بھی اُنھی کے پاس ہیں۔ صرف معلوماتِ عامہ کے لیے مضمون کا مختصر سا حصہ ترجمہ کرکے پیش کیا گیا ہے۔

اپڈیٹ: تحریر شائع کرنے کے کچھ ہی دیر بعد پتا چلا کہ ایگزیکٹ کی جانب سے اس مضمون کا جواب شائع کردیا گیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ اس جواب کے بعد انکشاف یہ ہوا کہ پسِ پردہ عوامل میں میرا پہلا شک جنگ/جیو گروپ پر تھا، لیکن یہاں تو ایکسپریس میڈیا گروپ نظر آ رہا ہے۔

Comments

  1. پنجابی زبان میں ایک گندی سی مثال ہے ” رنڈیاں تے بہیندیاں نے ۔ مشٹنڈے نئیں بہن دیندے“۔
    جب تک مُلک میں محنت کرنے کی بجائے دولت کمانے کا سلسلہ رائج ہے اور اسے سہارا بھی مِل رہا ہے ۔ آپ جو چاہیں لکھیں ۔ ایف آئی اے والے جتنے چھاپے چاہیں مارین ۔ کچھ بہتری کی توقع نہیں ہے ۔

    ReplyDelete

Post a Comment