3 Bahadur - Movie Review

مابدولت فلم ’’تین بہادر‘‘ دیکھنے کے لیے ایٹریم سنیما، کراچی میں موجود
کہنے کو تو وہ تین بچّے تھے، بالکل  عام سے، دوسرے بچّوں کی طرح، سعدی، آمنہ اور کامل؛ لیکن اُن تین دوستوں اور محلے داروں میں ایک بات مشترک تھی۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا۔ اور یوں وہ تین بچّے، تین بہادر کہلائے۔
جی ہاں، یہ قصہ ہے پہلی پاکستانی اینیمیٹڈ فلم ’’تین بہادر‘‘ کا جو ۲۲ مئی ۲۰۱۵ء کو نمائش کے لیے سنیما گھروں کی زینت بنی۔ دستاویزی فلم ’’سیونگ فیس‘‘ پر آسکر اعزاز حاصل کرنے والی پہلی پاکستانی شرمین عبید چنائے نے اس فلم کی ہدایات دی ہیں، جب کہ پاکستانی موسیقار اور گلوکار شیراز اپل خاصے عرصے بعد اپنے روپ میں نظر آئے جنھوں نے فلم کے لیے گانوں کی موسیقی ترتیب دینے کے ساتھ فلم کے دونوں گیتوں، ’تین بہادر‘ اور ’رونقیں‘، میں اپنی آواز کا جادو جگایا ہے۔
فلم کی کہانی ’’روشن نگر‘‘ نامی ایک چھوٹے سے علاقے کی ہے جسے بری طاقتیں ’’اندھیر نگر‘‘ بنانے کی ٹھان لیتی ہیں۔ بابا بالام علاقے کے غنڈے منگو کو اپنا خاص بندہ بناکر اُس کے ذریعے روشن نگر میں ظلم و ستم کا آغاز کرتا ہے۔ گھڑیال مینار (کلاک ٹاور) میں مقیم منگو شہر پر اپنا راج قائم کرنے کے لیے چیلوں کو بھرتی کرتا ہے جو لوگوں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں، مارتے پیٹتے ہیں، اور بھتا وصول کرتے ہیں۔ ایسے میں تین دوست، سعدی، آمنہ اور کامل ہمت دکھاتے ہیں اور اُنھیں ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے اور اپنی بہادری کی وجہ سے اچھی طاقتوں کی جانب سے کچھ فوق الفطرت (سپر نیچرل) طاقتیں عطا ہوتی ہیں تاکہ وہ ظالموں کا مقابلہ کرسکیں۔
فلم ’‎’تین بہادر‘‘ کا پریمیئر ۱۹ مئی کو ہوا، جب کہ سنیماؤں میں ۲۲ مئی کو نمائش کے لیے پیش ہوئی۔ فلم کی کہانی اگرچہ روایتی سی ہے، لیکن اُسے بچّوں کے لیے اچھے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ تین بہادروں میں کامل کا کردار اور دوسری طرف منگو کے چیلوں کے کردار ایسے بنائے گئے ہیں کہ ناظرین کھلکھلا کر ہنس پڑیں۔ مثبت اور منفی کرداروں کے ناموں کا انتخاب بھی اچھا ہے، جیسے ایک طرف سعدی، آمنہ اور کامل ہیں، دوسری طرف بابا بالم، منگو، سناٹا، تیلی، پتیلی اور گٹکا ہیں۔
فلمیں اور خاص کر اینیمیٹڈ فلمیں اکثر حقیقت سے دور ہی ہوتی ہیں لیکن اُن کے ذریعے دلچسپ انداز میں دیا جانے والا پیغام اہم  ہوتا ہے۔ تین بہادر کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ فلم دیکھتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ علاقہ ’’روشن نگر‘‘ دراصل کراچی ہے، جو کہ ’’روشنیوں کا شہر‘‘ کے نام سے جانا جاتا تھا (ہے؟)۔ غنڈوں کا بھتا لینا، مجرموں کے گروہ کا شہر کا پانی بند کرکے ٹینکر مافیا کو فروخت کرنا، دو بس ڈرائیوروں کا آپس میں بسوں کی دوڑ لگانا، یہ سب کچھ کراچی والوں کے قریبی مشاہدات ہیں، یقیناً دوسرے کئی علاقوں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ نیوپلیکس سنیما میں فلم پریمیئر کے موقع پر شرمین نے خود بھی وضاحت کی کہ ’’تین بہادر صرف ایک فلم نہیں ہے۔ یہ ایک تحریک ہے۔ اس فلم کے ذریعے ہم یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہمیں ان تین بچّوں کی طرح اپنے مسئلوں پر قابو پانا چاہیے، ہم اپنے سامنے آنے والے چیلنجوں کا سامنا کرسکتے ہیں۔ آپ کو سپر ہیرو بننے کی ضرورت نہیں۔ آپ سپر ہیرو ہی ہیں۔‘‘
فلم میں ننھے ناظرین کو یہ  پیغام بھی دیا گیا ہے کہ صرف غیر معمولی طاقتوں کا حصول ہر مسئلے سے نمٹنے میں ہماری مدد نہیں کرسکتا، بلکہ سب سے اہم ہماری عقل ہوتی ہے۔ مشکل وقت میں فیصلے جذبات کی بجائے عقل و  فہم سے لیے جائیں تو کام یابی حاصل ہوتی ہے۔
مکالمے اچھے لکھے گئے ہیں، اُردو الفاظ کا زیادہ استعمال کیا گیا ہے، یہاں تک کہ ایک جگہ جب ’بلیک ہول‘ کا تذکرہ آتا ہے تو اُسے ’روزنِ سیاہ‘ کہہ کر بھی متعارف کروایا جاتا ہے۔ یہ یقیناً قابلِ تحسین امر ہے۔
فلم کا آغاز گیت ’’رونقیں‘‘ سے ہوتا ہے۔ عمدہ گیت ہے۔ اور اختتام پر، جب میں یہ شکوہ کر رہا تھا کہ فلم میں مزید گیت بھی ہونے چاہیے تھے تو آخری گیت ’’تین بہادر‘‘ آگیا۔
ڈیڑھ گھنٹے کی اس فلم میں کوئی انٹرمشن یا وقفہ نہیں ہے اور ایک ہی نشست میں دکھائی جا رہی ہے۔ درمیان میں ایک گیت کی کمی پھر بھی محسوس ہوتی ہے۔ فلم کے اختتام پر ایک مختصر سا منظر انگریزی فلموں کی طرز پر شامل کیا گیا ہے کہ چند طلبا اپنے اسائنمنٹ کے سلسلے میں اُسی پُر اسرار علاقے کی طرف آئے ہیں جہاں بابا بالم اور منگو کا راج تھا۔ تب ایک طالبِ علم کو تصاویر کھینچتے ہوئے اچانک بابا بالم کی ایک جھلک دکھائی دیتی ہے۔
فلم کی اینیمیشن کا تقابل اگر ہالی ووڈ سے کیا جائے تو کچھ کمی محسوس ہوتی ہے لیکن یہ تقابل کرنا درست نہیں ہوگا؛ کیوں کہ یہ فلم مکمل طور پر پاکستان میں بنی ہے اور پاکستان کی پہلی اینیمیٹڈ فلم ہے۔ اس لیے اسے کچھ رعایتی نمبر ضرور دیے جانے چاہییں۔ مجموعی طور پر اینیمیشن اچھی ہے۔ کرداروں کی کہنیوں کے پاس کچھ لچک کی کمی محسوس ہوتی ہے، نیز گیت ’رونقیں‘ میں جہاں غبارے دکھائے گئے ہیں، وہاں غبارے کوئی ٹھوس چیز لگتے ہیں۔ قوی اُمید ہے کہ آنے والی فلموں میں مزید بہتری نظر آئے گی۔
اس وقت سنیما گھروں میں ’’ہاؤس فل‘‘ جا رہے ہیں اور اگر آپ پیشگی بکنگ کروائے بغیر فلم دیکھنے کے لیے سنیما پہنچیں گے تو زیادہ اُمید یہی ہے کہ آپ کو ناکام لوٹنا پڑے گا۔

پاکستانی سنیما کا احیا

نہایت خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستانی سنیما کا احیا ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ گزشتہ سالوں میں فلم ’’وار‘‘، ’’نا معلوم افراد‘‘، ’’او ٹو ون‘‘، ’’جلیبی‘‘، ’’بول‘‘، ’’دختر‘‘ و دیگر، فلم بینوں کی توجہ حاصل کرنے میں کام یاب رہی ہیں۔ ان فلموں کی کام یابی نے نہ صرف پرانے فلم سازوں کو حوصلہ دیا ہے بلکہ نئے لوگوں نے بھی فلم سازی کے میدان میں آنے کی ہمت پکڑی ہے اور اس وقت کئی پاکستانی فلمیں زیرِ تخلیق ہیں، جن میں میر نامی ایک شاعر کی داستان پر مشتمل رومانوی فلم ’’ماہِ میر‘‘ جس میں فہد مصطفیٰ مرکزی کردار میں دکھائی دیں گے، یاسر نواز کی بنائی گئی ’’رونگ نمبر‘‘، جواد بشیر کی ڈراؤنی فلم ’’مایا‘‘، وجاہت رؤف کی فلم ’’کراچی سے لاہور‘‘، شمعون عباسی کی ’’گدھ‘‘ اور مسالا فلم ’’جوانی پھر نہیں آنی‘‘، ملک ریاض کی زندگی پر بننے والی فلم ’’ریاض‘‘ جس میں ہمایوں سعید مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں، ہمیما ملک کی ’’دیکھ مگر پیار سے‘‘، شان، ہمایوں سعید، عدنان صدیقی، ایوب کھوسو، اور دیگر معروف اداکاروں پر مشتمل فلم ’’یلغار‘‘، پاکستان کی پہلی سائیکو تھرلر فلم ’’آزاد‘‘، ’’بن روئے‘‘، ’’سلیوٹ‘‘ اور ’’ہو من جہاں‘‘ شامل ہیں، جب کہ مسلح افواج اور کالعدم تنظیموں کے درمیان لڑی  جانے والی جنگ کے واقعات پر مبنی فلم ’’ریوینج (بدل)‘‘ ۲۲ مئی کو ’’تین بہادر‘‘ کے ساتھ ہی جاری ہوئی ہے۔

گیت



گیت: رونقیں
موسیقار: شیراز اپل
گلوکار: شیراز اپل
گیت نگار: شیراز سہیل

جھولو، جھولو رے
نیلے گگن کو چھولو رے
تم تنانا نا تم تان
تم تنانا نا تم تان
[مکرر]

یہ روشنی کی پگڈنڈی رستہ اپنی بستی کا
(ہو) اپنی چھوٹی سی دنیا میں ہر پل ہے مستی کا
ڈھول باجتے، مور ناچتے، ہر موسم ہے پیارا
ساتھ زندگی، ہر خوشی، پیار ہی ہے سارا
بھول کے بھی رستہ، ہم آئیں نا یہاں
پھول کوئی کھلتا مرجھائے نہ یہاں
آجا رے، رنگیں ہیں رونقیں (آجا رے آجا)
جینا سنگ سنگ ہے پیار میں ڈولے (ہاں ہاں، آجا رے)
آجا رے، رنگیں ہیں رونقیں (چل دے)
جینا سنگ سنگ ہے پیار میں ڈولے (پیار میں ڈولے)

جھولو، جھولو رے
نیلے گگن کو چھولو رے
تم تنانا نا تم تان
تم تنانا نا تم تان
[مکرر]

دل مانگ مرادیں پاتے ہیں (پاتے ہیں، پاتے ہیں)
سچے رنگ کھل کھل جاتے ہیں (جاتے ہیں، جاتے ہیں)
من جھوم جھوم ناچے گائے
تن ڈھول تھاپ سے بل کھائے
لوٹ لوٹ پھر پھر آئے (۲)
یہ پل ہاتھوں سے نہ جائے
بھول کے بھی رستہ، ہم آئیں نا یہاں
پھول کوئی کھلتا مرجھائے نہ یہاں
آجا رے، رنگیں ہیں رونقیں (آجا رے آجا)
جینا سنگ سنگ ہے پیار میں ڈولے (ہاں ہاں، آجا رے)
آجا رے، رنگیں ہیں رونقیں (چل دے)
جینا سنگ سنگ ہے پیار میں ڈولے (پیار میں ڈولے)

میٹھے ہیں، شہد کے پیالے ہیں
من موجی ہم دل والے ہیں (ہاں ہاں جی ہم دل والے ہیں)
ہم ساتھ ساتھ ہمراہ چلیں
نہ آئیں کبھی ہونٹوں پہ گلے
خواب خواب تعبیر ملے (۲)
محنت کی گود میں ہم ہیں پلے
بھول کے بھی رستہ، ہم آئیں نا یہاں
پھول کوئی کھلتا مرجھائے نہ یہاں
آجا رے، رنگیں ہیں رونقیں (آجا رے آجا)
جینا سنگ سنگ ہے پیار میں ڈولے (ہاں ہاں، آجا رے)
آجا رے، رنگیں ہیں رونقیں (چل دے)
جینا سنگ سنگ ہے پیار میں ڈولے (پیار میں ڈولے)

آجا رے، رنگیں ہیں رونقیں (آجا رے آجا)
جینا سنگ سنگ ہے پیار میں ڈولے (ہاں ہاں، آجا رے)
آجا رے، رنگیں ہیں رونقیں (چل دے)
جینا سنگ سنگ ہے پیار میں ڈولے (پیار میں ڈولے)


گیت: ۳ بہادر
موسیقار: شیراز اپل
گلوکار: شیراز اپل
گیت نگار: شیراز سہیل

چکنا چور غرور ہوا
گھور اندھیرا دور ہوا
[مکرر]
اِک بجلی کڑکی ہے، اِک طوفاں بھڑکا ہے
دشمن کو گرا کے نکلے سینہ تانے

تین بہادر (بہادر) جیت کا پہنے تاج چلے
تین بہادر (بہادر) سینہ تانے آج چلے
[مکرر]

سپنے سہانے کوئی نہ کھو دے
پھر ہیں بنانے ٹوٹے گھروندے
دل میں جو ٹھانیں وہ کر دکھائیں
ویرانیوں میں بہار لائیں
اب تو سب کا نصیب یوں جاگ جائے گا
غم جو رستے میں آئے گا، بھاگ جائے گا
اِک بجلی کڑکی ہے، اِک طوفاں بھڑکا ہے
دشمن کو گرا کے نکلے سینہ تانے

تین بہادر (بہادر) جیت کا پہنے تاج چلے
تین بہادر (بہادر) سینہ تانے آج چلے
[مکرر ۳]

Comments

  1. بہت اچھا کہ اب ہمارے ہاں بھی اینیمٹیڈ فلموں کا رواج سینماوں مین چل نکلے ۔ ویسے بھی بچوں کا ادب اور فلمیں ہمارے ہاں نظر انداز ہیں

    ReplyDelete
    Replies
    1. اب تک بھارت میں بھی اینیمیٹڈ فلموں کے تجربات قابلِ ذکر کام یابی حاصل نہیں کرسکے ہیں اور اُن کی بیشتر اینیمیٹڈ فلمیں فلاپ ثابت ہوئی ہیں۔ ایسے میں یہ نہایت خوش آئند امر ہے کہ پاکستانی سنیما اپنے دورِ احیا کی ابتدا ہی میں اینیمیٹڈ فلم پیش کرے اور اُسے پسند بھی کیا جائے۔ فلم دیکھنے کے بعد، میرے ذہن میں ایک تجویز یہ بھی آ رہی ہے کہ تین بہادر کی ٹیم کو اب تین بہادر کامک پر کام کرنا چاہیے۔ فلم میں کئی جگہ کامک انداز کی تصاویر و مناظر پیش کیے گئے ہیں۔ اس خیال کو آگے بڑھانا چاہیے۔

      Delete
    2. اس کی کامک بھی موجود ہے

      Delete
    3. شکریہ گمنام دوست۔ میں نے آپ کے تبصرے کے بعد تین بہادر کی ویب سائٹ چیک کی تو کامک اسٹرپس نظر آگئیں۔ لیکن انھیں یہ کتابوں کی صورت میں بھی شائع کرنی چاہئیں۔

      Delete
  2. چلیں اچھا کچھ توڑبالی ووڈ مسالہ کا بھی ہوا اور نئی نسل کو تفریح اپنے ملک میں بنائی فلمیں فراہم کرسکیں گی - عامر کے کچھ اسٹوڈنٹ نے اس کی پروڈکشن میں کام کیا ہے مزید تفصیلات کا تو علم نہیں وہ وہاں مدعوتھا -

    ReplyDelete
    Replies
    1. جی بالکل، پاکستانی فلموں کے لیے لوگوں کا جوش و خروش دیکھ کر واضح پتا لگتا ہے کہ لوگ اپنے ملک کی اچھی فلمیں دیکھنے کے لیے بے تاب تھے۔ خود فلم ’’نا معلوم افراد‘‘ دیکھتے ہوئے جو میرے جذبات تھے، وہ بیان نہیں ہوسکتے کہ اپنے شہر کے مقامات کو فلم میں دیکھ کر کتنا اچھا محسوس ہوتا ہے۔
      دوسرے جملے میں آپ نے جو ذکر کیا ہے، عامر صاحب اور اُن کے شاگردوں کا، یہ کچھ واضح نہیں ہوسکا۔ مزید وضاحت فرمائیں۔ :)

      Delete
  3. السلام علیکم۔۔۔ فلم کے ریویوو کے لیے بہت شکریہ۔۔۔ میری بیٹی بھی اس فلم کا شدت سے انتظار کر رہی ہے لیکن شاید دبئی میں یہ فلم اتنی جلدی ریلیز نہیں ہو گی۔۔۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. وعلیکم السلام عمران بھائی۔ حیرت کی بات ہے کہ انھوں نے فلم کو عالمی پیمانے پر ریلیز نہیں کیا۔ حالانکہ مشرقِ وسطیٰ اور خصوصاً دبئی وغیرہ کے علاقے تو بڑی مارکیٹ ثابت ہوسکتے ہیں۔

      Delete

Post a Comment