Modern Poetry

گزشتہ دنوں دورِ حاضر کے چند شعرا کو سننے کا اتفاق ہوا۔ ماشاء اللہ، چند ایک کو چھوڑ کر آج کل اکثر شعرا جس طرح کی بے نظم قسم کی نظمیں کہہ رہے ہیں، انھیں سن کر اور پڑھ کر ہنسی بھی آتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ تجریدی آرٹ کی طرح تجریدی شاعری بھی شروع کردی گئی ہے۔ دو مختلف قسم کے مضامین کو آپس میں جوڑ کر مبہم سطور لکھ دینا اور پھر اُسے کبھی نثری نظم اور کبھی فکری نظم کا عنوان دے کر اپنے جیسوں سے واہ واہ سمیٹنا ہی موجودہ دور کی شاعری ہے۔
مثال کے طور پر، میں آپ کو اپنی دو حالیہ تحریر کردہ نظمیں پیش کرتا ہوں جو ان ہی قسم کی نظموں سے متاثر ہوکر وجود میں آئی ہیں۔ پہلی نظم کا عنوان ہے ’’جیل‘‘۔ کراچی سینٹرل جیل کے پاس سے گزرتے ہوئے دیکھا کہ غالباً حفاظتی نقطۂ نظر سے جیل کے گرد ایک بلند دیوار کی تعمیر ہو رہی ہے۔ تب اس نظم کا مضمون وارد ہوا۔ ملاحظہ ہو! عرض کیا ہے!

جیل

جیل کے باہر بن رہی ہے اِک اور اونچی دیوار
جیل کو بھی اب جیل ہوئی ہے!

(ختم شد)
واہ واہ تو کردیں جناب!

اچھا ایک اور نظم ملاحظہ ہو۔ عنوان ہے:

’’وہ‘‘

بڑی بڑی دنیا میں
بڑے بڑے ملک، بڑے بڑے شہر
بڑے بڑے لوگ، بڑی بڑی باتیں
بڑے بڑے گھر، بڑے بڑے ہوٹل
چھوٹے چھوٹے وہ!

پہلے میں نے واضح طور پر نام لکھا تھا کہ چھوٹا چھوٹا کیا ہے۔ لیکن پھر خیال آیا کہ ایسے تو نظم کا دائرہ محدود ہورہا ہے۔ اب ذرا اس لفظ ’’وہ‘‘ پر غور فرمائیں۔ کتنی گہرائی اور معنویت پائی جاتی ہے اس ’وہ‘ میں۔ ہر ایک اپنے ذہن، ماحول اور تجربے کے مطابق اس نظم کی تشریح کرسکتا ہے۔
تو اگر آپ کو اب تک لگتا رہا ہے کہ شاعری آپ کے بس کی بات نہیں ہے تو اس خیال پر نظرِ ثانی کا وقت آن پہنچا ہے۔ سوچیں، ایسی چند سطور پر مشتمل شاعری تو آپ بھی کرسکتے ہیں۔ بس آپ کے پاس ’وہ‘ ہونا چاہیے جسے شاعر لوگ ندرتِ خیال کا نام دیتے ہیں۔

Comments

  1. سعید

    آپ کے خیال سے سو فیصد متفق

    ReplyDelete
  2. ہم نے ساتویں یا آٹھویں جماعت (1949ء تا 1951ء) میں ایک ضرب المثل پڑھی تھی ” اُونٹ رے اُنٹ تیری کونسی کل سیدھی“۔ آجکل کا اُردو ادب کچھ اسی طرح کا محسوس ہوتا ہے

    ReplyDelete

Post a Comment