Indication of UFO in Bukhari?

صحیح بخاری کے مطالعے کے دوران ایک حدیث نظر سے گزری جو اس سے پہلے بھی پڑھی تھی لیکن اس بار ایسے نکتے کی طرف ذہن گیا کہ پہلے نہ گیا تھا۔ بلا تبصرہ اس حدیث کا عربی متن اور اردو ترجمہ پیش ہے:

وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ الْهَادِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ قَالَ بَيْنَمَا هُوَ يَقْرَأُ مِنْ اللَّيْلِ سُورَةَ الْبَقَرَةِ وَفَرَسُهُ مَرْبُوطَةٌ عِنْدَهُ إِذْ جَالَتْ الْفَرَسُ فَسَكَتَ فَسَكَتَتْ فَقَرَأَ فَجَالَتْ الْفَرَسُ فَسَكَتَ وَسَكَتَتْ الْفَرَسُ ثُمَّ قَرَأَ فَجَالَتْ الْفَرَسُ فَانْصَرَفَ وَكَانَ ابْنُهُ يَحْيَى قَرِيبًا مِنْهَا فَأَشْفَقَ أَنْ تُصِيبَهُ فَلَمَّا اجْتَرَّهُ رَفَعَ رَأْسَهُ إِلَى السَّمَاءِ حَتَّى مَا يَرَاهَا فَلَمَّا أَصْبَحَ حَدَّثَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ اقْرَأْ يَا ابْنَ حُضَيْرٍ اقْرَأْ يَا ابْنَ حُضَيْرٍ قَالَ فَأَشْفَقْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ تَطَأَ يَحْيَى وَكَانَ مِنْهَا قَرِيبًا فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَانْصَرَفْتُ إِلَيْهِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي إِلَى السَّمَاءِ فَإِذَا مِثْلُ الظُّلَّةِ فِيهَا أَمْثَالُ الْمَصَابِيحِ فَخَرَجَتْ حَتَّى لَا أَرَاهَا قَالَ وَتَدْرِي مَا ذَاكَ قَالَ لَا قَالَ تِلْكَ الْمَلَائِكَةُ دَنَتْ لِصَوْتِكَ وَلَوْ قَرَأْتَ لَأَصْبَحَتْ يَنْظُرُ النَّاسُ إِلَيْهَا لَا تَتَوَارَى مِنْهُمْ قَالَ ابْنُ الْهَادِ وَحَدَّثَنِي هَذَا الْحَدِيثَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خَبَّابٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عَنْ أُسَيْدِ بْنِ حُضَيْرٍ

ترجمہ:
لیث یزید بن ہاد کا قول نقل کرتے ہیں کہ محمد بن ابراہیم کہتے تھے کہ اسید بن حضیر ایک رات سورت بقرہ پڑھ رہے تھے اور گھوڑا ان کے پاس بندھا ہوا تھا اچانک گھوڑا بدکنے لگا وہ چپکے ہو رہے تو گھوڑا بھی ٹھہر گیا پھر وہ پڑھنے لگے گھوڑا پھر بدکنے لگا پھر وہ خاموش ہو رہے تو وہ ٹھہر گیا پھر وہ پڑھنے لگے پھر گھوڑا بدکنے لگا اس کے بعد ابن حضیر رک گئے چونکہ ان کا بیٹا یحیی گھوڑے کے قریب سو رہا تھا انہیں ڈر ہوا کہیں گھوڑا اسے کچل نہ ڈالے جب انہوں نے اپنے لڑکے کو وہاں سے ہٹالیا اور آسمان کی طرف نظر دوڑائی تو آسمان دکھائی نہ دیا بلکہ ایک ابر جس میں روشنیاں چمک رہی تھیں اوپر اٹھتا ہوا نظر آیا صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر پورا قصہ بیان کیا ۔ آپ نے فرمایا اے ابن حضیر تم برابر پڑھتے رہتے تو اچھا تھا انہوں عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یحیی گھوڑے کے قریب تھا مجھے ڈر لگا کہیں گھوڑا یحیی کو کچل نہ ڈالے اس لئے میں یحیی کی طرف متوجہ ہوگیا پھر میں نے آسمان کی طرف سر اٹھایا تو ایک عجیب چھتری سی جس میں بہت سے چراغ لگے ہوئے تھے دکھائی دی پھر جب میں باہر نکل آیا تو وہ مجھے نظر آئی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تجھے معلوم وہ کیا تھا ابن حضیر نے کہا مجھے نہیں معلوم ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ فرشتے تھے جو تیری آواز سن کر تیرے پاس آگئے تھے اگر تو صبح تک پڑھے جاتا تو لوگ انہیں صاف دیکھ لیتے ۔ ابن الہاد کہتے ہیں یہ حدیث مجھ سے عبداللہ بن خباب نے ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کی جس کو اسید بن حضیر نے نقل کیا۔

صحیح بخاری، جلد سوم، کتاب فضائل القرآن۔ صحیح مسلم، جلد اول، کتاب فضائل القرآن

ترجمہ علامہ وحید الزمان:
اور لیث بن سعد نے کہا مجھ سے یزید بن ھاد نے بیان کیا، انھوں نے محمد بن ابراہیم سے، انھوں نے اسید بن حضیر سے، وہ رات کو سورۃ البقرۃ پڑھ رہے تھے۔ ان کا گھوڑا پاس بندھا ہوا تھا۔ اتنے میں گھوڑا بھڑکنے لگا۔ اسید خاموش ہو رہے (قراءت چھوڑ دی) تو گھوڑا بھی تھم گیا۔ پھر پڑھنا شروع کیا تو پھر گھوڑا چمکا۔ پھر چپ ہو گئے تو گھوڑا بھی ٹھہر گیا۔ پھر پڑھنا شروع کیا تو پھر گھوڑا بگڑا۔ جب تو انھوں نے اپنے لڑکے یحیٰی کو سنبھالا۔ وہ گھوڑے کے قریب تھا۔ ڈرے کہ کہیں اس کو صدمہ نہ پہنچے۔ اپنے پاس گھسیٹ لیا اور آسمان کی طرف نگاہ کی (ایک سائبان کی طرح چیز دکھلائی دی) اسی کو دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ غائب ہو گئی (اوپر چڑھ گئی) صبح کو اسید نے یہ قصہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا۔ آپ نے فرمایا اسید! قرآن پڑھتا رہ (یہ جو تجھ پر گزرا بڑا عمدہ واقعہ ہے)۔ اسید نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں ڈر گیا کہ کہیں گھوڑا یحیٰی کو کچل نہ ڈالے وہ بالکل گھوڑے کے قریب پڑا تھا۔ اور سر اٹھا کر ادھر خیال کیا پھر میں نے آسمان کی طرف سر اٹھایا دیکھا تو سائبان کی طرح کچھ معلوم ہوا اس میں جیسے چراغ روشن ہیں۔ پھر میں باہر آیا یہاں تک کہ وہ نظر سے غائب ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسید تو جانتا ہے یہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا یہ فرشتے تھے جو تمھاری آواز سن کر قریب آ گئے تھے اور اگر تو قرآن پڑھتا رہتا تو ان فرشتوں کو دوسرے لوگ بھی دیکھ لیتے اور وہ نظروں سے غائب نہ ہوتے۔ ابن ھاد نے کہا مجھ سے یہ حدیث عبداللہ بن خباب نے بھی بیان کی، انہوں نے ابو سعید خدری سے، انہوں نے اسید بن حضیر سے۔
(صحیح بخاری شریف مترجم، جلد سوم، صفحہ 43، 44، مکتبہ رحمانیہ، اردو بازار، لاہور)

Comments

  1. اسلامی تعلیمات کے تحت فرشتے اڑنے کے لیے کسی اڑن کھٹولے یا ایسی چیز کے محتاج نہیں۔ فریشتوں کی طرف اشارہ ہے اور مجھے ایسی ہی ایک حدیث میں بادل کا لفظ یاد آ رہا ہے۔ جبرائیل کا اڑنا اور اس کے پروں کا مشرق و مغرب کی وسعتوں کو ہیچ کر دینا حدیث میں موجود ہے (یہ ان دنوں کا واقع ہے جب رسول اللہ ﷺ پر اولین وحی نازل ہوئی)۔ اس کو اڑن طشتری پر محمول کرنا میرے حساب سےامیجی نیشن کو کئی ہزار فٹ کی چھلانگ لگوانا ہے۔

    ReplyDelete
  2. معاذ اللہ ، یہ تو اپنی سوچ و فکر کو جو مادی علوم میں مقید ہو چکی ہے ، اس سوچ و فکر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے فرمان سے زیادہ بہتر دکھانے کی کوشش ہے ،
    جب اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے صراحت کے ساتھ اس چیز کو فرشتے قرار فرمایا تو پھر ان فرشتوں کو اڑن تشتری کہنا ،،،،،،،
    اللہ تعالی ہم سب کو یہ توفیق دے کہ ہم اپنی عقلوں کو اس کی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حدود میں رکھ سکیں ، اور اسے اڑن طشتری بنا کر تخیلات کی اندھی فضاؤں میں پرواز کرنے سے بچا سکیں ۔

    ReplyDelete
  3. معاذ اللہ اور استغفر اللہ کہنے سے پہلے اچھی طرح پڑھ اور سمجھ لینا زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ میں نے کہیں یہ نہیں کہا کہ وہ فرشتے نہیں تھے۔ اللہ تعالیٰ مجھے ایسی گستاخی سے معاف رکھے، میری کیا مجال جو میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو جھٹلاؤں؟ میں نے صحابی کے اظہارِ بیان کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اُس میں اُڑن طشتری کی جھلک نظر آتی ہے۔ وہ فرشتوں کی کوئی بھی چیز یا سواری ہوسکتی ہے۔ یا اسے دوسرے انداز سے آپ یوں بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جیسا کہ فرشتوں کو سواری کے لیے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہوتی، فرشتوں کو تلاوت سننے کے لیے ظاہر ہونے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ بے شک کہیں بھی آ جا سکتے ہیں اور ہمارے اردگرد بھی موجود ہوتے ہیں، لیکن نظر نہیں آتے۔ تو صحابی نے جب تلاوت کی تو اُنھیں کچھ نظر بھی آیا۔
    آج سے سو دو سو سال پہلے اگر کوئی شخص قرآنِ مجید میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے تخت کا ذکر پڑھ کر کہتا کہ یہ تو ہوائی جہاز کی طرف اشارہ ہے تو اُسے بھی ایسی ہی باتیں سننے کو ملتیں کہ خدا ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی عقلوں کو اپنی حدود میں رکھیں اور خدا کے کلام کو صرف اُس کا کلام ہی سمجھیں اور اُسے ہوائی جہاز بناکر تخیلات کی اندھی فضاؤں میں پرواز کرنے سے بچا سکیں۔ حالانکہ کس قدر واضح اشارہ موجود ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے حکم سے ہوا تخت کو اپنے دوش پر اٹھالیتی تھی اور تخت بھی اتنا بڑا کہ پورا لشکر سوار ہو اور مہینوں کا سفر صبح سے شام میں طے ہوجاتا تھا۔ کیا یہ سب کچھ اب ہمارے سامنے ہوائی جہاز کی شکل میں موجود نہیں؟
    بعض اوقات آگے بڑھنے کے لیے رسمی اور روایتی نظر سے ہٹ کر حدود سے بڑھ کر بھی سوچنا پڑتا ہے۔

    ReplyDelete

Post a Comment