Corrupt Society

روزنامہ دنیا میں رؤف کلاسرہ کا کالم سوا لاکھ روپے کی سرکاری گھڑی کا اسکینڈل پڑھا تو خیال آیا کہ ہمارے معاشرے میں کرپشن کس قدر گہرائی تک سرائیت کرچکی ہے۔ +Imtiaz Mateen میرے دفتری ساتھی ہیں، لیکن ماضی میں طویل عرصہ بطور صحافی کام کرچکے ہیں۔ وہ بتانے لگے کہ اسلام آباد کی نوکر شاہی بیورو کریسی میں اٹھا بیٹھا جائے یا وہاں کی کہانیاں سننے کو ملیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کس قدر کرپٹ اور بدعنوان معاشرے میں جی رہے ہیں۔ کروڑوں روپے کی مرسڈیز گاڑیوں اور دیگر بیش قیمت تحائف کے اسکینڈلوں سے تو ہمارا باخبر طبقہ اچھی طرح واقف ہی ہے۔
لیکن اس نوکرِ شاہی تک ہی مخصوص نہیں، افسوس ناک بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی ہر ہر سطح پر کرپشن کے جراثیم بھرپور طریقے سے پھیل چکے ہیں۔ ہم میں سے ہر شخص اپنی بساط اور استعداد کے مطابق کرپشن کر رہا ہے۔ اب پاکستان میں فلپس کمپنی تو مرحوم ہوچکی، لیکن جب اس کا کارخانہ یہاں چل رہا تھا تو ہمارے ایک عزیز  ایک اچھے عہدے پر فائز رہے اور طویل عرصے کام کیا۔ کمپنی ضابطے کے مطابق اگر کسی مصنوعہ/ پروڈکٹ پر کوئی نشان، اسکریچ یا دیگر معمولی سی خرابی آجاتی تو اسے درجہ دوم کا مال شمار کیا جاتا اور مارکیٹ سے کم قیمت پر فروخت کردیا جاتا۔ اس ضابطے کا ملازمین نے فائدہ یوں اٹھایا کہ کسی جاننے والے کو کوئی مصنوعہ مثلاً ٹی وی چاہیے تو پتا کروایا کہ کیا کوئی درجہ دوم کا مال موجود ہے، اگر مل گیا تو ٹھیک اور نہیں ملا تو دکان/ شوروم سے منگواکر اس پر ایک معمولی سا اسکریچ یا نشان لگایا گیا اور اس کا اندراج بطور درجہ دوم کرواکر اپنے عزیز کو کم (مارکیٹ سے تقریباً نصف) قیمت پر فروخت کردیا۔ ہمارے اپنے رشتے داروں نے اس سہولت سے فائدہ اٹھایا۔
امتیاز متین بتانے لگے کہ ان کے ایک جاننے والے عرصہ پہلے پاکستان کیبلز میں کام کرتے تھے۔ ان کا واسطہ ملازمین اور افسران، دونوں ہی سے رہتا تھا۔ ملازمین کا اعتماد حاصل ہوا تو انھیں ایک انوکھے اندرونی کھانچے کا علم ہوا۔  ضابطہ یہ تھا کہ مارکیٹ میں بھیجنے سے قبل کیبل/ تار کی جانچ کی جاتی اور اگر کہیں بریک آجاتا تو اسے تقریباً چوتھائی قیمت پر فروخت کردیا جاتا۔ ملازمین نے خوب فائدہ اٹھایا۔ مثلاً سو میٹر کا تار جانا ہے تو ستانوے میٹر تک بالکل صحیح تار بھیجا اور تین یا پانچ میٹر پہلے پیچھے سے ایک جگہ بریک کردیا۔ یوں ضابطے کے مطابق وہ تار بے کار ہوگیا۔ پھر اندر ہی اندر اس کا سودا کرلیا جاتا۔ اس طرح ہر مہینے لاکھوں روپے کا تار باہر جاتا اور ادارے کو نقصان پہنچتا۔ وہ صاحب یہ معاملہ حکام کے علم میں لائے تو یہ قانون ختم کردیا گیا اور طے کیا گیا کہ جو جتنا تار لے گا، اسے فی میٹر کے حساب ہی سے ادائی کرنی ہوگی۔ پھر کوالٹی کنٹرول کا شعبہ حرکت میں آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے تار میں بریک آنے کی شکایت گھٹ گئی۔
اس کرپٹ معاشرے میں کرپٹ لوگوں کے ساتھ رہتے ہوئے اور کرپشن کرتے ہوئے ہم اعلیٰ سطح پر کرپشن کرنے والوں کو لعنتیں دیں، گالیاں دیں اور اپنی کرپشن کے لیے جواز نکالیں تو ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ کہیں نہ کہیں ہم سے نچلی سطح پر موجود لوگوں کی لعنتیں اور گالیاں ہمیں بھی پڑ رہی ہوں گی۔

Comments