Our Country

اردو کی درسی کتاب سے ایک سبق (بڑے بچوں کے لیے خصوصی اضافوں کے ساتھ)

مِس شہلا کراچی کی ایک اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ گرمیوں کی چھٹیوں سے پہلے ایک دِن اُنھوں نے طلبا سے پوچھا، ’’بتاؤ پاکستان کے کتنے صوبے ہیں؟‘‘
کلاس میں راشد کی معلومات سب سے زیادہ تھیں (کیونکہ اسے خبرنامے دیکھنے کا بہت شوق تھا)۔ راشد نے فوراً اپنا ہاتھ اُٹھایا اور کہا، ’’مِس، پاکستان میں ساڑھے چار صوبے ہیں۔‘‘
’’شاباش، راشد! اب طلبا اپنے اپنے صوبوں کے نام بتائیں۔‘‘ مِس کا یہ کہنا ہی تھا کہ کئی ہاتھ اُٹھ گئے (قریب تھا کہ چند ہاتھ مِس کو بھی پڑجاتے؛ مِس نے کہا، ’’سب باری باری‘‘)۔
سب سے پہلے فرزانہ کھڑی ہوئی، ’’سندھ‘‘۔
’’پنجاب‘‘، دردانہ نے کہا۔
’’خیبر پختون خوا‘‘، یہ گُل خانہ تھا۔
’’بلوچستان‘‘، یہ بے گانہ سی آواز بے گانہ بلوچ کی تھی۔
مِس نے کہا، ’’شاباش! یہ تو چار صوبے ہوئے، اب آدھے صوبے کا نام کون بتائے گا؟‘‘
اب صفدر کو کھڑا ہونا پڑا (کیوں کہ جماعت میں دردانہ اور فرزانہ کے قافیے ختم ہوچکے تھے)۔ ’’گلگت۔‘‘
’’سرائیکستان‘‘، جماعت میں آواز اُبھری۔ سب نے ایک دوسرے کو دیکھا۔
’’بہاولپور‘‘، ایک اور آواز آئی۔
’’کراچی‘‘، یہ آواز جیسے کسی کے ٹیلے فون سے آئی۔
مِس نے کہا، ’’چپ کرو، یہ قومی اسمبلی نہیں، کمرۂ جماعت ہے۔ چلو، سب اپنے اپنے صوبوں کا تعارف کرواؤ۔ گُل خانہ! تم شروع کرو۔‘‘
میرا صوبہ بے حد خوب صورت ہے۔ وہاں کی لڑکیاں بھی خوب صورت ہیں اور لڑکے بھی خوب صورت ہیں۔‘‘ گُل خانہ کہنا شروع ہوا (تو شروع ہی ہوگیا، یہاں تک کہ مِس نے ہتھ ہولا رکھنے کا اشارہ کیا)۔ ’’میرے صوبے کا موسم ٹھنڈا (لیکن وہاں کے رہنے والوں کا خون اور دماغ گرم) ہے۔ وہاں کی سب سے مشہور جگہ ’درّۂ خیبر‘ ہے (تاہم وہاں سے گزرنے والوں کو درّے نہیں لگائے جاتے)۔ اسی راستے سے دوسرے ممالک کے بادشاہ آکر ہندوستان فتح کیا کرتے تھے (لہٰذا اُن کی سہولت اور درست سمت کی نشان دہی کے طور پر درّۂ خیبر تعمیر کروادیا گیا  کہ بھائی صاحب، راہ نہ بھٹک جائیے گا، ہندوستان کو راستہ یہاں سے جاتا ہے)۔  صوبہ خیبر پختون خوا کا دارالحکومت پشاور ہے۔ پشاور کے چپلی کباب، چپلیں اور اخروٹ (میوے اور انسان، ہر دو صورت میں) مشہور ہیں۔ (صوبے کی مزید مشہوری کے لیے) ہمارے ہاں ماہِ رمضان اور عید الفطر کا خصوصی طور پر چاند نکالا جاتا ہے۔‘‘ گُل خانہ نے گُل فشانیاں ختم کیں۔ مِس نے دردانہ کو اشارہ کیا تو وہ کھڑی ہوئی اور بولی:
’’پنجاب کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ (وہ پنجاب ہے اور) وہاں سب صوبوں سے زیادہ آبادی ہے۔ پنجاب بڑا زرخیز صوبہ ہے (اس کی زرخیزی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ فصلوں کے علاوہ بڑے بڑے انسان بھی کاشت ہوتے ہیں اور ملک بھر کے اہم ترین عہدوں کے لیے سپلائی ہوتے ہیں)۔ پنجاب کا دارالحکومت لاہور ہے (جسے نہ دیکھنے والے کو ایک زمانے میں جنم لینے کا سرٹیفکیٹ نہیں ملاکرتا تھا)۔ پنجاب میں بلوچستان اور سندھ کی طرح سمندر تو نہیں، مگر دریا ہیں (سوکھے ہیں تو کیا ہوا، دریا دریا ہوتا ہے)۔ پنجاب زیادہ تر ہرا ہرا اور بھرا بھرا ہے۔ پنجاب میں ریگستان بھی ہے، پہاڑیاں بھی۔ پنجاب میں کئی تاریخی مقامات بھی ہیں اور نادر و نایاب ہستیاں بھی (جن میں تازہ ترین ہستی تاریخ کا امیر ترین خادم ’خادمِ اعلا‘ ہے)۔‘‘ یہ کہہ کر دردانہ خود سے بیٹھ گئی (جس پر خوب تالیاں پیٹی گئیں)۔
اس کے بعد بے گانہ کی باری آئی۔ ’’میرا صوبہ بلوچستان، پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے، اتنا بڑا صوبہ کہ اسے سنبھالنا مشکل ہوگیا ہے۔ تاہم اس کے پاکستانی صوبہ ہونے کے بارے میں خدشات (پاکستانی اخبارات کی زبان میں ’’تحفظات‘‘) پائے جاتے ہیں۔ وہاں پہاڑ ہیں، ریگستان ہیں، سمندر ہے، طرح طرح کے جانور ہیں، دنیا کے سب سے پرانے درخت ہیں (اور ’بی ایل اے‘ ہے)۔ وہاں ایسے غار ہیں جن کی دیواروں پر ہزاروں سال پہلے کے انسانوں نے تصویریں بنائی تھیں (اور ایسے غار بھی ہیں جہاں ہزاروں سال بعد انسانوں کی باقیات دریافت ہوں گی)۔ وہاں کی عورتیں بے حد خوب صورت کڑھائی کرتی ہیں (اور مَرد جو کام بہترین کرتے ہیں اس کی معلومات کے لیے پاکستانی فوج کے ترجمان دست یاب نہیں ہوسکے)۔ بلوچستان کا دارالحکومت کوئٹہ ہے۔‘‘ بے گانہ نے تفصیلات فراہم کیں۔
’’بے گانہ! تمھاری باتیں سن کر تو میرا دل کررہا ہے کہ میں چھٹیوں میں بلوچستان چلی جاؤں۔‘‘ مِس شہلا نے کہا ( حالاتِ حاضرہ سے واقفیت رکھنے والے تمام طلبا نے ’’آمین‘‘ کہا)۔
’’اب تم سندھ کے بارے میں بتاؤ۔‘‘ مِس نے فرزانہ سے کہا۔
’’سندھ بھی ایک بڑا صوبہ ہے جو تاریخی اہمیت کا حامل ہے (اور ہم اس کی تاریخی اہمیت میں روز بروز اضافہ کررہے ہیں)۔ سندھ میں تقریباً پانچ ہزار سال پرانا شہر موہن جو داڑو بھی  دریافت ہوا ہے (اس کے علاوہ ایک بھٹو اور زرداری خاندان کا سراغ بھی ملتا ہے)۔ سندھ کا شہر کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے، جو قائدِ اعظم کی جائے پیدائش ہے (اور قائدِ تحریک کی بھی)۔ اسی شہر میں قائدِ اعظم کا مزار بھی ہے (تاہم قائدِ تحریک اس فخر سے تاحال محروم ہیں، ہم بے تابی سے دعاگو ہیں کہ وہ جلد اگلے جہان پدھاریں تو اُن کے مزار کا بھی بندوبست کریں)۔‘‘
’’بس بس! آج کے لیے اتنا بہت ہے۔ وقت ختم ہونے والا ہے۔ دیکھیں بچو! ہمارا ملک پاکستان ہے لیکن ہمارے اپنے اپنے صوبے بھی ہیں (جن کے نہیں ہیں، اُنھیں بھی مل جائیں گے، حوصلہ رکھیں)۔ ہمیں مل کر رہنا ہے اور۔۔۔ اور۔۔۔‘‘
’’ٹن ٹن ٹن!‘‘ گھنٹی بجی تو مِس شہلا کمرۂ جماعت سے چل دیں۔ اُس کے بعد گرمیوں کی چھٹیاں ہوگئیں۔ وہ اسکول آج بھی قائم ہے، طلبا بھی پڑھتے ہیں لیکن مِس شہلا پھر کبھی لوٹ کر نہیں آئیں۔
باقی آپ کچھ خود سمجھ دار ہیں!

مشق

الف۔ درج ذیل سوالات کے جوابات دیجیے:
۱۔ مِس شہلا طلبا سے صوبوں کے بارے میں کیوں پوچھ رہی تھیں؟
۲۔ ’’میرے صوبے کے لڑکے بھی خوب صورت ہیں۔‘‘ گُل خانہ کی اس گُل فشانی سے اُس کے بارے میں کیا پتا چلتا ہے؟
۳۔ بلوچی مردوں کی مصروفیات کے بارے میں معلومات کیوں دست یاب نہیں ہوسکیں؟
۴۔ صوبہ کراچی کے لیے آنے والی ٹیلے فونک آواز کس کی تھی؟
۵۔ مِس شہلا دوبارہ اسکول کیوں نہیں آئیں؟

ب۔ درج ذیل میں پاکستانی مقامات اور اُن کے اجارہ داروں کے نام ایک ساتھ لکھیے:
مقامات: پنجاب، سندھ، خیبر پختون خوا، بلوچستان، کراچی
اجارہ دار: تحریک، بی ایل اے، پالٹی، طالبان، خادم

Comments

  1. واہ واہ
    کیا کہنے جناب
    اتنے مشکل سوالات نے ہمارے چھکے چھڑا دیے
    :)

    ReplyDelete
  2. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  3. zabardast jnaab. tareef k liyey alfaaz nahi

    ReplyDelete
  4. بہترین اور قطعی غیر سیاسی، یہ قلم اب کہاں ہے عمار؟

    ReplyDelete
  5. بہترین اور قطعی غیر سیاسی، یہ قلم اب کہاں ہے عمار؟

    ReplyDelete

Post a Comment