ہمدرد نونہال ادب

حکیم محمد سعید کے قائم کردہ ’’ہمدرد نونہال ادب‘‘ کا ایک شوروم ’’ہمدرد کتابستان‘‘ کے نام سے والد صاحب کی دُکان کے نزدیک ہی، آرام باغ کے علاقے میں تھا۔ ابو نے بچپن ہی سے کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالی تھی اور نونہال ادب کی کئی کتابیں لاکر دی تھیں۔ پھر اُنھیں خود بھی مطالعے کا شوق تھا۔ چوں کہ، بچپن ہی سے ابو کے ساتھ اُن کی دُکان پر اکثر جانا ہوتا رہا ہے، تو تبھی سےہماری ایک ضد ہمیشہ قائم رہی کہ جب ہمدرد کتابستان کے پاس سے گزرتے تو مچل جاتے اور پوری کوشش ہوتی کہ کسی نہ کسی طرح ابو کو اندر چلنے پر راضی کرلیں۔ اور جو ایک بار اندر داخل ہوگئے تو دل کرتا تھا کہ ساری کتابیں اُٹھالائیں۔ سستا زمانہ تھا، ہمدرد کی کتابیں بھی سستی ہوا کرتی تھیں کہ ’نہ نفع نہ نقصان کی بنیاد پر‘‘ شایع ہوتی تھیں۔ پانچ رُپے سے بیس رُپے کے درمیان۔ یوں، ہمارے گھر میں بچوں کے ادب کا اچھا خاصا ذخیرہ جمع ہوگیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کی توجہ کتابوں کی طرف سے ہٹنے لگی اور ہمارے معاشرے میں مطالعے کا رجحان زوال پذیر ہونے لگا۔ ہمدرد کتابستان سنسان ہونے لگا، نئی کتابیں آنا بند ہوگئیں، پرانی ختم ہوجانے والوں کتابوں کی دوبارہ اشاعت روک دی گئی۔ اس پر مستزاد، حکیم محمد سعید بھی رخصت ہوگئے۔
زمانہ کہیں سے کہیں پہنچ گیا، کتابوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں لیکن ہمدرد والوں نے نونہالوں کو لُوٹنے کی کوشش نہ کی۔ جو کتاب پندرہ سال پہلے آٹھ رُپے کی تھی، وہ پندرہ سال بعد بھی آٹھ رُپے ہی کی فروخت کرتے رہے۔ پھر ایک دِن پتا چلا کہ ہمدرد کتابستان بند ہورہا ہے۔ بہت افسوس ہوا۔
ہمدرد کتابستان کو بند ہوئے سال دو سال گزر چکے ہیں۔ ہمدرد نونہال ادب کے تحت شایع کردہ کتب اب معدوم اور نایاب ہوتی جارہی ہیں۔ نہ اُن کی دوبارہ اشاعت کا کوئی اہتمام ہے نہ اُنھیں ویب پر شایع کرکے ہمیشہ کے لیے محفوظ بنانے کی طرف توجہ۔ ہمدرد (وقف) پاکستان کے عہدے داران حکیم محمد سعید کو کیا منھ دِکھائیں گے؟

Comments

  1. از احمر

    بجا ارشاد فرمایا

    ReplyDelete

Post a Comment