کوئٹہ کا سفر۔ پہلی قسط

فہیم اسلم کے قلم/ کی بورڈ سے :)
انسان جب کسی چیز سے اکتا جاتا ہے تو وہ اس سے دور بھاگ جاتا ہے۔ نہیں بھاگ پاتا تو کوشش ضرور کرتا ہے کہ کسی طرح بھاگ لے۔
ایسا ہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوا۔ کراچی کے خراب حالات، گرمی، لوڈشیڈنگ، جاب پر ارجنٹ ارجنٹ کام۔۔۔ ان سب نے مل کر مزاج میں وہ بیزاریت پیدا کی کہ میرا یہی دل ہوا کہ تھوڑے عرصے کے لیے یہاں سے بھاگ لینا چاہیے۔
لیکن کہاں؟
اس کہاں کو لے کر تو دماغ میں تو کوئی حسین اور پرفضا مقام ہی آتا ہے۔ جیسے پہاڑوں کے درمیاں کوئی حسین وادی جہاں ہریالی ہو، ٹھنڈی ہوائیں ہوں، ان ہواؤں میں پھولوں کی مہک رچی بسی ہو، پہاڑوں سے بہتا ایک جھرنا ہو جو نیچے آکر جھیل کی شکل اختیار کر گیا ہو وغیرہ وغیرہ۔
لیکن ایسا کوئی مقام تلاش کرنے میں تو شاید دماغ کی مزید مٹی پلید ہوجاتی تو میں نے ایسے کسی مقام کی تلاش میں اپنی توانائیاں ضائع کرنا مناسب نہ جانا۔
لیکن کہیں جانے کا شوق تو بہرحال تھا ہی! مقصد صرف ہوا پانی تبدیل کرنا اور زندگی میں جو یکسانیت چلی آرہی تھی اس سے کچھ عرصہ دوری تھی۔
عمار نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ کبھی کوئٹہ چلیں گے زین سے ملنے۔ وہ بات میرے دماغ میں تھی میں نے یہی سوچا کہ کیوں نہ کوئٹہ ہی چلا جائے وہاں زین سے بھی ملاقات ہوجائے گی اور میرا کچھ تبدیلی کا مقصد بھی پورا ہوجائے گا۔ کوئٹہ جانے میں ایک بہت بڑی آسانی یہ تھی کہ میرے ماموں آج کل وہاں کام کے سلسلے میں رہائش پذیر ہیں۔ وہ بھی ان دنوں کراچی آئے ہوئے تھے ان کی وجہ سے مجھے وہاں رہانش کا کوئی مسئلہ نہیں ہونا تھا۔ چونکہ وہ وہاں صرف اپنے ورکرز کے ساتھ رہتے ہیں اور وہاں کے ہیڈ ہیں تو اگر میں اپنے کسی دوست کو بھی ساتھ لے جاتا تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں تھا۔
میں نے ماموں سے کہا کہ جب جائیں گے تو میں بھی ساتھ چلوں گا اور میرا ایک دوست بھی ماموں کو بھلا کہاں اعتراض ہونا تھا۔ اس کے بعد میں نے عمار سے چلنے کی بات کی تو اس نے کچھ وجوہات کے باعث معذرت کرلی جس کا مجھے بہت افسوس ہوا کہ اگر وہ ساتھ چلتا تو زیادہ مزہ آتا۔ لیکن مجھے تو جانا ہی تھا تو میں نے وہاں جانے سے پہلے زین کو بھی اپنی آمد کے بارے میں مطلع کردیا۔
اور پھر 9 جولائی بروزِ ہفتہ میں ماموں کے ہمراہ کوئٹہ کے سفر پر روانہ ہوگیا۔ سفر کوچ سے طے پانا تھا اور میرے لیے کوچ میں اتنا لمبا سفر کرنے کا یہ پہلا موقع تھا کوچ کے سفر سے مجھے اتنا اندازہ تو بخوبی ہوگیا کہ ہمارے ملک میں کوچ سروس کا نظام ریلوے کے نظام سے ہزار درجہ بہتر ہے۔
کوچ واقعی لگژری کوچ تھی اے سی، آرام دہ سیٹیں وہ بھی بہت طریقے سے فاصلہ دے کر بنی ہوئیں کہ اگر آگے والا اپنی سیٹ کو پیچھے بھی کرلے تو پیچھے والے کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ سب سے اچھی بات وقت کی پابندی۔
کوچ کوئی ساڑھے آٹھ بجے کے قریب ٹرمنل سے روانہ ہوئی۔
اس کوچ کا پہلا اسٹاپ "بیلا" تھا جہاں وہ کوئی گیارہ کے اریب قریب پہنچی کنڈیکٹر نے آواز ماری چلو بھئی کھانا کھاؤ، نماز پڑھو۔
اور تمام مسافر ایک ایک کرکے اترتے چلے گئے۔
کوئی آدھے گھنٹے کے وقفے کے سفر دوبارہ شروع ہوا۔ کچھ دیر تک میں اونچی نیچی ہوتی سڑک کا نظارہ کرتا رہا اور پھر موبائل کا ہیڈ فون کانوں میں لگایا، سیٹ کو تھوڑا پیچھے کیا اور اس کی پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں موند لیں اور اسی طرح اونگھتے اور گانے سنتے سفر کٹتا رہا۔
صبح کےکوئی پانچ بجے جب کہ ہلکی ہلکی روشنی نمودار ہونا شروع ہوئی تھی گاڑی "قلات" پہنچی جہاں مسافروں نے نمازِ فجر ادا کی اور ہلکا پھلکا ناشتہ کیا اور تازگی بھرے کچھ سانس لیے اور پھر گاڑی میں سوار ہوگئے۔ اس کے بعد سڑک کچی پکی تھی۔ دونوں اطراف میں نظر دوڑانے پر پہاڑ ہی دکھائی پڑتے تھے، کہیں کہیں خوبانی اور سیبوں کے باغات بھی دکھائی دیے، کچے پکے مٹی کے گھر، گھاس چرتیں بھیڑ اور بکریاں، کہیں کہیں اکا دکا گھومتے ہوئے انسان نظر آئے، پر زیادہ واسطہ ویرانے سے ہی رہا۔ انہی نظاروں سے لطف اندوز ہوتے ہم "لک پاس" تک پہنچ گئے۔ یہاں پہاڑوں کے درمیان ایک سرنگ بنی ہوئی تھی جو دور سے ہی نظر آگئی گاڑی نے اس میں سے گزر کر جانا تھا۔ ماموں نے بتایا کہ پہلے یہ سرنگ نہیں تھی اور گاڑیاں پہاڑ کے اوپر سے گزر کر جاتی تھیں اس لیے اسے لک پاس کہا جاتا ہے کہ جس کا لک ہوتا وہی گاڑی گزرتی اوپر سے (اب معلوم نہیں اس بات میں کتنی سچائی ہے) خیر لک پاس پہنچے تو زین کے ایس ایم ایس آنا شروع ہوچلے کہ کہاں پہنچے، اب کہاں پہنچے، ابھی کہاں ہو۔ ایسے ہی ایس ایم ایس آتے رہے اور میں ماموں سے جگہوں کا پوچھ پوچھ کر جواب دیتا رہا۔
کوئٹہ سے کچھ پہلے بہت بلند و بالا پہاڑ ہیں ان کا نام "ہزار کنجی" ہے یعنی کہ ان پہاڑوں میں ہزاروں خزانے پوشیدہ ہیں۔ لیکن اتنے خزانے ہوتے ہوئے بھی پاکستان کی عوام غربت تلے دبی جارہی ہے۔
صبح کے 7 بجے تھے جب کوچ کوئٹہ میں موجود اپنے ٹرمنل پر رکی اور ہم نے کوئٹہ کی زمین پر قدم رکھے۔
زین میرے منع کرنے باوجود بھی وہاں پہنچا ہوا تھا، میرا پروگرام تھا کہ پہلے گھر جاکر تھوڑا حلیہ فریش کیا جائے پھر زین سے ملاقات کی جائے۔ لیکن زین صاحب کا کہنا تھا کہ وہ کون سا مجھے شادی کے لیے دیکھنے آرہا ہے اس لیے ہماری زین سے پہلی ملاقات وہیں ہوگئی۔
زین کی گرمجوشی قابل دید تھی، گویا خوشی سے بانچھیں کھلی جارہی تھیں۔ زین سے وہاں جھپیاں پاکر ہم اسی کے ہمراہ اپنے ٹھکانے کی جانب روانہ ہوئے۔ زین نے آدھے راستے میں ہمارا ساتھ چھوڑ دیا اور میں ماموں کے ہمراہ گھر پہنچ گیا۔
وہاں جاکر ہم نے بیگ وغیرہ رکھا اور بس لیٹے ہی تھے کہ کچھ ہی دیر میں کراچی کی یاد تازہ ہوگئی۔ کہ لوڈشیڈنگ صاحبہ ہمیں ویلکم کہنے چلی آئیں تھیں۔
میں نے پھر مزید لیٹنے کا ارادہ ترک کردیا اور زین سے رابطہ قائم کیا کہ وہ کہاں ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ بعدِ ناشتہ اخبار چاٹنے میں مگن ہے میں نے اس سے آنے کا پروگرام سیٹ کیا اور اٹھ کر باتھ روم کی راہ لی۔ ٹھنڈے پانی کی پھواروں نے سفر کی تھکن اور نیند کا اثر ختم کرڈالا اور میں نے تیار ہوکر باہر کا راستہ لیا۔
ماموں نے ہمیں کوئٹہ کے متعلق کافی نصیحتیں کررکھی تھیں کہ پینٹ شرٹ نہ پہننا اکیلے کہیں نہیں گھومنا وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہم چونکہ اپنے آپ کو کافی بہادر تصور کرتے ہیں اور ساتھ میں احمق بھی تو بھلا ہم ماموں کی نصیحتوں کو کہاں دماغ میں محفوظ رکھ سکتے تھے اس لیے ابھی تو ہم ماموں کے نہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اکیلے ہی نکل کھڑے ہوئے تھے۔ کیونکہ ماموں تو بس اپنا بیگ رکھ کر "مرک مارکر" (ایک دوا ساز کمپنی) چلے گئے تھے۔
زین کی بتائی ہوئی جگہ پر میں بنا کسی پریشانی کے پہنچ گیا۔ وہاں زین پہلے سے موجود تھا ایک بار پھر بغل گیر ہوکر اس نے میرا استقبال کیا اور وہاں سے ہم نے کوئٹہ کی سڑکیں ناپنی شروع کیں۔
سب سے پہلے زین مجھے لے کر کوئٹہ پریس کلب میں گیا۔ وہاں کا تقریباً ایک ایک کونہ گھومایا۔ افسوس کے میرے موبائل فون کی بیٹری راستے میں بے دریغ گانے سننے کی وجہ تقریباً ختم ہوچکی تھی اور صبح لوڈشیڈنگ کے آڑے آجانے کے باعث موبائل چارج بھی نہیں ہوپایا تھا اس لیے میں پریس کلب کی تصاویر نہیں لے سکا۔
وہاں سے نکل کر ہم مزید سڑکیں ناپتے ہوئے "ڈیلی ناظم نیوز پیپر" کے آفس پہنچے وہاں زین کے چھوٹے بھائی کام کرتے ہیں ان سے ملاقات ہوئی کچھ دیر بلکہ کافی دیر ہم وہاں بیٹھے اتنی دیر کے میں نے اطمینان سے اپنا موبائل چارج کرلیا۔ زین نے وہاں تکلفات کی کا سلسلہ میرے منع کرنے کے باوجود قائم رکھا۔
دوپہر کے وقت ہم وہاں سے باہر نکلے۔ میرے جانے سے کوئی دو دن پہلے وہاں بارش ہوئی تھی گو کہ سڑکوں کا وہ منظر تو نہیں تھا جو کراچی میں ہوتا ہے لیکن کہیں کہیں اس ہونے والی بارش کے آثار ضرور تھے زمیں میں بھی کچھ نمی موجود تھی۔ جس وقت ہم باہر نکلے سورج اپنی پوری جولانی پر معلوم ہوتا تھا۔ شدت پسینے کو بھی جلا دینے والی تھی زمین میں موجود نمی بھی شدت کی وجہ سے بھاپ بن کر اٹھ رہی تھی جو ایسا احساس دلارہی تھی جیسے ہم اسٹیم روسٹ ہورہے ہوں۔
چھٹی کا دن ہونے کی وجہ سے سڑکوں پر زیادہ رونق نہیں تھی لیکن جب ہم گھومتے ہوئے کوئٹہ کے مشہور لیاقت بازار پہنچے تو وہاں اچھی خاصا رش دکھائی دیا۔ بچے، خواتین، عمر دراز غرض ہر طرح کے لوگ گھوم پھررہے تھے۔ ہم لوگوں نے میوہ جات کی مارکیٹ شاپنگ پلازہ اور الیکڑونک مارکیٹ گھومی۔
میں ایسے ہی ایک لیپ ٹاپ کی شاپ پر رک گیا۔ ایک لیپٹ ٹاپ کی قیمت معلوم کی تو اس نے جو قیمت بتائی وہ سن کر میں نے زین کی طرف دیکھا اور ایک جناتی زبان (جسے شاید میرے علاوہ کوئی دوسرا نہ سمجھ سکتا ہو) میں زین کو اچھی خاصے جملے بول ڈالے۔ یہ زبان سن کر دوکاندار جو کہ ایک پٹھان بھائی تھے کی آنکھیں پھاڑے مجھے دیکھتے رہے وہ یہی سمجھے کہ میں نے شاید کسی زبان میں کچھ کہا ہے۔ لیکن زبان ایسی جو شاید ان کے دادا کے دادا نے بھی کبھی نہ سنی ہو خود زین بھی ہونقوں کی طرح کبھی زمیں کی طرف دیکھتا کبھی میری طرف بلا آخر وہ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے آگے گھیسٹ لے گیا۔
اسی گھومنے پھرنے کے دوران ہم نے ایک ریسٹورنٹ میں جاکر لنچ کیا۔ اور واپس ناظم اخبار کے دفتر پہنچ گئے۔
گھومنے پھرنے میں تو ٹھیک تھا لیکن بیٹھے رہنے سے مجھ پر میری تھکن اور نیند لوٹ آئیں اور میں نے زین سے کہا کہ اب میں جاؤں گا باقی پروگرام کل پر۔ اور پھر زین ہی مجھے واپس گھر تک چھوڑ گیا۔ اور میرے پہلے دن کا قصہ یہیں تمام ہوا۔

جاری ہے۔۔۔

Comments

  1. زبردست لکھا ہے فہیم .. پڑھکر انجوائے کیا میں نے ،
    مجھے لگا میں ٹی وی پے سب کچھ دیکھ رہی ہوں
    اگلی قسط بھی لاؤ ...

    (باجو )..

    ReplyDelete
  2. اگلی قسط انشاءاللہ جلد پوسٹ کرتا ہوں۔

    ReplyDelete

Post a Comment