Pakistan's First International Social Media Summit (Part Two)

پاکستان کی پہلی عالمی سوشل میڈیا سمٹ کے دوسرے دن کا پروگرام صبح 9 بجے سے شروع تھا۔ صبح نو سے دس بجے تک کا وقت رجسٹریشن، تعارفی سیشن اور ناشتے کے لیے مخصوص تھا۔ اُس دن بھی آواری ٹاور کے خورشید محل ہی میں انتظامات کیے گئے تھے۔ میں جب پہنچا تو دس بجنے میں کچھ ہی دیر باقی تھی۔ ناشتے کے آخری لمحات چل رہے تھے۔ دس بجے پروگرام کا آغاز ہوا۔ گزشتہ روز کی طرح رابعہ غریب نے خوش آمدید کہتے ہوئے رضا رومی کو نظامت کے فرائض سونپے۔ رضا رومی نے خوش آمدیدی کلمات ادا کرنے کے بعد پاکستان میں امریکی سفیر ولیم مارٹن کو اظہارِ خیال کی دعوت دی۔

ولیم مارٹن نے تمام شرکائے تقریب کا شکریہ ادا کیا کہ وہ سب یہاں جمع ہوئے۔ اُنھوں نے بتایا کہ پاکستان کے سوشل میڈیا کا حجم انڈیا سے بھی دوگنا ہے۔ اس موقع پر اُنھوں نے گواہی ڈاٹ کام کا ذکر کیا اور اُسے پاکستان کے سوشل میڈیا کے مثبت کردار کی بہترین مثال قرار دیا۔ مارٹن نے اپنی تقریر میں صحافی سلیم شہزاد کے قتل کا بھی تذکرہ کیا کہ پاکستان میں حق کی آواز بلند کرنے والوں کو ایسی صورتِ حال کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے لیکن اس کے باوجود عوام سوشل میڈیا پر کُھل کر اظہارِ خیال کرتی ہے۔

امریکی سفیر کے بعد انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون کے ویب ایڈیٹر کمال صدیقی کو دعوت دی۔ کمال صدیقی نے کہا کہ وہ اگرچہ بلاگ نہیں کرتے لیکن باقاعدگی سے پڑھتے ضرور ہیں۔ بلاگز کی مقبولیت کا ذکر کرتے ہوئے اُنھوں نے بتایا کہ جب وہ اپنی ویب سائٹ کے قارئین سے پوچھتے ہیں تو اُنھیں جواب ملتا ہے کہ ویب سائٹ پر بلاگ کا سیکشن سب سے اچھا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ کچھ اخبارات کو لگتا تھا کہ اخبارات آن لائن کرنے سے اُن کی اشاعت میں کمی ہوجائے گی لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔

کمال صدیقی کی تقریر کے بعد پہلا سیکشن اختتام پذیر ہوا اور چائے کا وقفہ ہوگیا۔ چائے کے ساتھ بسکٹ اور سینڈوچز بھی تھے۔

اس کے بعد بہ یک وقت تین مختلف موضوعات پر ورک شاپ تھیں جن کا دورانیہ سوا گیارہ بجے دن سے دوپہر ایک بجے تک کا وقت مخصوص تھا۔ وہ موضوعات یہ تھے:

1. Education and Good Governance: Going Digital
Mohammad El Dahshan (Egypt)
Hanny Kusumawati (Indonesia)
Anandita Puspitasari (Indonesia)
Dr. Awab Alvi (Pakistan)
Venue: Indus Suite (lower level)

2. Woman and Social Activism in the New Media Era
Sana Saleem (Pakistan)
Jehan Ara (Pakistan)
Rebecca Chiao (Egypt)
Sabeen Mahmud (Pakistan)
Venue: Indus Suite Extension (lower level)

3. Monetizing Your Social Media Space
Ong Hock Chaun (Indonesia)
Badar Khushnood (Pakistan)
A J Shirazi (Pakistan)
Imran Hussain (Pakistan)
Venue: Khorshed Mahal

میں نے شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہونے کے باعث Education & Good Governance والی ورک شاپ میں رجسٹریشن کروائی تھی۔ اس ورک شاپ کے ماڈریٹر رضا رومی تھے۔ شرکا کی تعداد ابتدا میں دس کے قریب تھی لہٰذا ورک شاپ کو شروع کرنے میں تھوڑی تاخیر کی گئی لیکن لوگوں کی تعداد میں اضافہ نہ ہوا تو اسے تقریباً ساڑھے گیارہ بجے شروع کردیا گیا۔ چاروں افراد کو اپنی پریزینٹیشن دینے کے لیے دس دس منٹ دیے گئے۔ Hanny سے آغاز ہوا۔ اُس نے بتایا کہ انڈونیشیا میں تعلیمی صورتِ حال دیکھتے ہوئے اس نے Coin a Chance کا پروجیکٹ شروع کیا جس میں لوگوں کو یہ ترغیب دی گئی کہ وہ اپنے سکّے ہمیں عطیہ کریں تاکہ ہم مستحق طالبِ علموں کی مدد کرسکیں اور اُن کی پڑھائی جاری رہے۔ Hanny نے اپنی ایک دوست Nia Sadjarwo کے ساتھ مل کر اس پروجیکٹ کو شروع کیا، ابتدا میں بلاگر پر ویب سائٹ بنائی لیکن ان کا مقصد دیکھتے ہوئے ایک ویب ہوسٹنگ ادارے نے انھیں مفت ڈومین اور ہوسٹنگ فراہم کردی۔ انھوں نے پیغام دیا کہ مہینے میں صرف ایک کپ کافی کا بچائیں اور اس کی رقم ہمیں عطیہ کردیں۔ ٹوئٹر اکاؤنٹ کے مدد سے یہ بتادیا جاتا کہ یہ لوگ ہفتے میں کون سی شام کس جگہ دستیاب ہوں گے تاکہ لوگ اس جگہ آکر اپنے سکّے جمع کراجائیں۔ ان کے منصوبے کا دائرہ وسیع ہوتا رہا یہاں تک کہ کئی اداروں نے ان کے منصوبے میں حصہ ملایا جن میں نوکیا سمیت فارما کمپنیز بھی شامل ہیں۔ ٹِن بنانے والی ایک کمپنی نے انھیں پانچ ہزار Tin Jars بناکر عطیہ کیے تاکہ اُنھیں مختلف مقامات پر رکھا جاسکے اور لوگ اُن میں اپنے سکے جمع کرتے رہیں۔ Hanny نے بتایا کہ ہر ہفتے سو ڈالر سے پانچ سو ڈالر تک کے عطیات جمع ہوجاتے ہیں۔

اس کے بعد ڈاکٹر عواب علوی نے بہترین حکم رانی (Good Governance) کے موضوع پر پریزنٹیشن دی۔ عواب نے بتایا کہ کس طرح پاکستان کے بیشتر ادارے کرپشن کی داستانوں سے بھرے پڑے ہیں۔ اُنھوں نے انڈیا کی ایک ویب سائٹ I Paid a Bribe کی مثال دی جہاں لوگ اپنے وہ واقعات بیان کرتے ہیں جہاں اُنھیں رشوت دینی پڑی یا اُن سے رشوت مانگی گئی۔ ان رپورٹس میں جس نے رشوت مانگی اور جس سے رشوت مانگی گئی، ان افراد کے نام ظاہر نہیں کیے جاتے لیکن ادارے اور ادارے کے اُس شعبے کا صاف ذکر کردیا جاتا ہے۔ یوں لوگوں کو پتا ہوتا ہے کہ کس شعبے میں کس قدر رشوت مانگی جارہی ہے۔ ان رپورٹس کے آن لائن ہونے کے بعد وہاں کی انتظامیہ کو مجبوراً ہی سہی مگر رشوت روکنے کے لیے اقدامات کرنے پڑے۔ عواب نے خیال ظاہر کیا کہ اسی طرز پر اگر ایک ویب سائٹ پاکستان میں بھی بنائی جائے تو اچھی خاصی معلومات جمع ہوسکتی ہے اور تبدیلی کی طرف ایک قدم اُٹھایا جاسکتا ہے۔

تیسری پریزنٹیشن ’’Love Your City?‘‘ کے موضوع پر Anandita کی تھی۔ اُس نے اپنے شہر Bogor کے بارے میں بتایا کہ وہاں کا طرزِ زندگی کیسا ہے، کس قسم کی مشکلات ہیں اور اُنھوں نے کس طرح شہری حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ بعد ازاں اُنھوں نے ایک بلاگ Blogor.Org کی بنیاد بھی رکھی۔ Anandita پریزنٹیشن کے دوران کافی نروس رہی۔

آخری پریزنٹیشن مصر سے آئے ہوئے Mohammad El Dahshan کی تھی جو پچھلے دنوں انقلابِ مصر کے عینی شاہد ہیں بل کہ اس میں انھوں نے اپنا کردار بھی ادا کیا ہے۔ اُنھوں نے اپنے بلاگ کے حوالے سے بتایا کہ کس طرح تمام سرگرمیوں کو سوشل میڈیا کے ذریعے منظّم کیا گیا اور شعور ابھارا گیا، کس طرح لوگ پہلے سے طے کرلیتے تھے کس وقت کہاں جمع ہوں گے۔

سوال و جواب کے وقت میں زیادہ تر سوال محمد اور علوی ہی سے ہوئے۔ لوگ جاننا چاہتے تھے کس طرح پاکستان میں تبدیلی لائی جاسکتی ہے، مصر کی طرز پر پاکستان میں انقلاب ممکن ہے یا نہیں، کیوں اور کیسے؟

اس سیشن کے بعد دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہوگیا۔ کھانے میں چاول، مچھلی، گوشت، سبھی قسم کے کھانے موجود تھے۔ میٹھے میں ایپل کیریمل (Apple Caramel)، فیرنی اور گلاب جامن تھی۔

کھانے کے بعد دو بجے سے سوا چھ بجے تک چار مختلف سیشنز تھے جن کا دورانیہ پینتالیس پینتالیس (45) منٹ تھا جب کہ ہر سیشن کے درمیان پندرہ منٹ کا وقفہ تھا۔

(بقیہ تیسری اور آخری قسط میں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امریکی سفیر ولیم مارٹن کا عالمی سوشل میڈیا سمٹ کے حوالے سے روزنامہ ایکسپریس ٹریبیون میں کالم

Comments

Post a Comment