جامعہ نامہ۔ شوقِ علم

بی۔ایس کا تیسرا سال پچھلے دو سالوں کے مقابلے میں زیادہ مصروف رکھنے والا سال محسوس ہوتا ہے۔ اگرچہ پڑھائی کا تقابل کرتا ہوں تو سمجھ نہیں آتا کہ فرق کہاں ہے؟ سب کچھ پہلے ہی جیسا ہے۔ چھ مضامین، چھ اساتذہ! ہاں، پہلے ہم جماعت طلبہ کی تعداد 30 تھی، اب 90 کے قریب ہے۔

عام طور سے موجودہ نسل کو بزرگوں کی طرف سے طعنہ دیا جاتا ہے کہ اسے پڑھائی لکھائی سے دل چسپی نہیں رہی ہے۔ اگرچہ اس میں کافی سچائی ضرور ہے لیکن جامعہ میں آکر یہ طعنہ کچھ کچھ غلط بھی لگتا ہے۔ یہاں آپ کو ایسے کئی طالبِ علم ملیں گے جو حصولِ علم کے لیے روزانہ طویل سفر کرکے یہاں آتے ہیں۔ پہلے دو سالوں میں اس کی مثال مجھے اپنی جماعت میں کورنگی اور اسٹیل ٹاؤن سے آنے والی دو طالبات کی صورت میں نظر آئی جنھیں سفر میں ڈیڑھ سے دو گھنٹے لگتے ہیں۔ اسٹیل ٹاؤن سے کئی طلبہ و طالبات جامعہ کراچی آتے ہیں۔ رواں سال میں جب داخلے ہوئے تو ایک طالبہ نے پچھلی ساری مثالوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ وہ طالبہ روزانہ ٹھٹھہ کے قریبی علاقے گھارو سے جامعہ کراچی آتی ہے۔ میں نے جب پہلی بار سنا تو بہت مشکل سے یقین کیا۔ اللہ پاک ایسے طلبہ و طالبات کا شوقِ علم قائم رکھے اور اُنھیں کام یابیاں عطا فرمائے۔ آمین!

دوسری طرف فکر انگیز امر یہ ہے کہ جامعہ کراچی میں طالبات کی تعداد بڑھتی اور طلبہ کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ اس کا ذکر میں نے پہلے بھی کیا تھا۔ ہمارے شعبے کی موجودہ صدر نشین (چیئرپرسن) پروفیسر ڈاکٹر انجم بانو کاظمی نے ذکر کیا کہ اس بار جامعہ کراچی میں داخلوں میں لڑکیوں کی شرح ۹۰ فی صد ہے، اور اگر یہی صورتِ حال رہی تو کوئی بعید نہیں کہ یہ طالبات ہی کے لیے مخصوص ہوجائے۔ اس حوالے سے تحقیق کی اشد ضرورت ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں اور اُن کے سدِّباب کے لیے عملی اقدامات اُٹھانا اربابِ اختیار کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ لیکن اُن کی ترجیحات کا اِن باکس (inbox) شاید پہلے ہی بھر چکا ہے۔ اس میں ایسے کسی مسئلے کی گنجائش نہیں۔

Comments

  1. کیا؟؟
    نوے فیصد لڑکیاں ؟
    موجاں ای موجاں
    تہاڈی تے ہوگئی آں موجاں ای موجاں..

    ReplyDelete
  2. عمار میاں، اس کی سادہ سی وجہ عوام کے معاشی حالات ہیں۔ ان حالات میں لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے بچے خصوصا لڑکے جلد از جلد کمانے کے قابل ہو جائیں۔ میں ایسی بہت بڑی تعداد کو جانتا ہوں جو انٹر کے فورا بعد چھوٹی موٹی ملازمت کر لیتے ہیں اور جب ملازمت کے ذریعے ان کو اتنی آمدنی مل جاتی ہے جس سے وہ اپنی پڑھائی کا خرچہ بھی پورا کر لیں اور گھر والوں کو بھی کچھ دے سکیں تو وہ پرائیوٹ پڑھ لیتے ہیں۔ لڑکیوں کا معاملہ ایسا نہیں ہے، ان پر گھر کی معاشی ذمہ داری کا کوئی بوجھ نہیں ہوتا اس لیے ان کے لیے زیادہ آسان ہوتا ہے کہ وہ تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ پائیں۔ دوسری جانب لڑکے گھر کی ذمہ داری کے احساس تلے دب جاتے ہیں۔ اس میں کہیں نہ کہیں یہ عنصر بھی ضرور پایا جاتا ہوگا کہ لڑکوں میں پڑھائی میں دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے البتہ میری ذاتی رائے میں گھر کو معاشی طور پر سپورٹ کرنا ایک اہم عنصر ہے۔
    اب دیکھتے ہیں دیگر لوگ کون کون سی وجوہات پیش کرتے ہیں جو میری نظروں سے اوجھل ہیں۔

    ReplyDelete
  3. کراچی ميں لڑکيوں کی تعداد ويسے بھی لڑکوں سے بہت زيادہ نہيں ؟ ميں جب کراچی ميں تھا جدھر جاؤ لڑکياں ہی نظر آتی تھيں اسلئے ميں نے سير و تفريح ہی چھوڑ دی تھی

    ReplyDelete
  4. سعود الحسن6 May 2011 at 22:15

    ابو شامل کی بات بھی درست ہے لیکن میرے خیال میں اصل وجہ جامعہ کراچی میں دی جانے والی تعلیم ہے جس کا عملی زندگی کوئی تعلق نہیں ہے۔

    اگر آپ آج بھی ٹیکنیکل یا پروفیشنل تعلیمی اداروں میں جائینگے تو وہاں آج بھی لڑکوں کی تعداد 70 سے 90 فیصد تک ہوتی ہے۔

    ReplyDelete
  5. ابو شامل، کراچی یونیورسٹی میں تعلیم مفت نہیں ہوتی. یونیورسٹی کی زیادہ تر لڑکیاں بحی کچھ نہ کچھ کرتی ہیں اور اتنا کما لیتی ہیں جتنا کہ کوئ انٹر پاس نوکری کر کے نوجوان کما تا ہے. یہ بات آپ خوب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ انٹر پاس نوجوان کو کس طرح کی نوکری مل سکتی ہے اور وہ کتنا کما سکتے ہیں.
    دوسری طرف اسی یونیورسٹی میں دس سال پہلے یہ شرح نہیں تھی. کراچی کا یہی طبقہ یہاں آتا تھا جو اب آتا ہے. حتی کہ آج سے چالیس سال پہلے میرے سسر صاحب اسی یونیورسٹی میں پڑھتے تھے. ملیر سے روزانہ پیدل یہاں آتے تھے اور جاتے تھے. بات اتنی سادہ نہیں جو آپ نے بیان کی ہے. صرف یونیورسٹی ہی نہیں کسی بھی تعلیمی ادارے میں نکل جائیں. لڑکیاں زیادہ ہیں اور لڑکے کم. انجینیءرنگ ایک زمانے میں خالص مردوں کا خانہ سمجھا جاتا تھا اب وہاں بھی لڑکیاں بڑی تعداد میں موجود ہیں.
    میرا خیال ہے اسکی وجہ لڑکوں کی بڑی تعداد کا زندگی کے چیلینجز کا سامنا کرنے سے گھبرانا ہے. یوں وہ میرٹ پہ نہیں آپاتے. میں ابھی ایک گھرانے سے ملی. انکے بیٹے سے مل کر مجھے لگا کہ کچھ ذہنی طور پہ پسماندہ ہے. لیکن وہ لڑکا اور اسکے والدین یہی کہتے رہے کہ آجکل کمپیوٹر انجینیءرنگ والوں کو نکوری ہی نہیں ملتی. میں نے ان سے کہا لیکن میری دو عزیزائں کمپیوٹر انجینیءر ہیں اور انہیں تو نوکری مل گئ بلکہ ان میں سے ایک کو تو تیءیس سال کی عمر میں آسٹریلیءن امیگیشن بھی مل گئ صرف اپنی تعلیمی قابلیت پہ جواب ملا، ہاں لڑکیوں کو لوگ دے دیتے ہیں لڑکوں کو نہیں.
    سو یہ مسئلہ کافی گہری جڑیں رکھتا ہے. لڑکیاں ہماری جراءت مند اور چیلینجز کا سامنے کرنے کے لئے تیار ہو رہی ہیں اور لڑکے ہمارے آجکل مذہب کو اسامہ سے پڑھ رہے ہیں. جہاد اور جہادی شخصیات پہ تفصیلی مضامین لکھتے ہیں اور لڑکیاں زندگی کے حقیقی مسائل کا ادراک حاصل کر رہی ہیں ورنہ ایک لڑکی کو گھارو یا ٹھٹھہ سے کراچی یونیورسٹی آنے کی کیا ضرورت ہے. کراچی میں رہتے ہوئے آپ جان سکتے ہیں کہ یہ کتنا دشوار ہوگا.
    خود میں روزانہ ڈیڑھ سے پونے دو گھنٹے کا سفر طے کر کے پہنچتی تھیں. جب میرے کزن کی باری آئ تو اس نے آئ بی اے کے ہوسٹلز میں رہنا پسند کیا. میں اور وہ ایک ہی زمانے میں ایک ہی جگہ سے یونیورسٹی پہنچتے تھے. وہ ہوسٹل میں رہتا تھا اور میں روزانہ تین سے ساڑھے تین گھنٹے سفر میں خرچ کرتی تھی.
    تن آسانی اور من مانی یہ آج کے مردوں کا شیوہ نہیں بنتا جا رہا.

    ReplyDelete
  6. یار یہ نوے فیصد لڑکیاں کونسے شعبے میں ہوتی ہیں ہمیں بھی بتادو ........

    ReplyDelete
  7. عنیقہ صاحبہ کراچی کے کونسے علاقے سے جامعہ جاتی تھیں جو انہیں ڈیڑھ پونے گھنٹے لگ جاتے تھے، میں تو شمالی کراچی کے ایک کونے میں رہتا ہوں لیکن گلشن میں واقعہ جامعہ کراچی میں پہنچنے میں مجھے صرف 35 منٹ لگتے ہیں اور وہ بھی دو بس کرکے۔

    ReplyDelete
  8. ابوشامل نے جو وجہ بتائی وہ بلکل درست ہے، عنیقہ آپا بوڑھی ہوگئی ہیں انہیں کیا پتہ آج کے نوجوانوں کے مسائل۔۔۔

    ReplyDelete
  9. اگرچہ لڑکیوں کی تعداد اکثریت میں ہوگی لیکن میرا خیال ہے کہ پروفیسر انجم بانو نے کچھ بڑھا چڑھا کر بیان کر دی ہے ۔ نوے فی صد ۔۔۔ ناممکن ہے ۔۔۔ ابھی یہ دور نہیں آیا اگرچہ قریب ہے

    ابو شامل کا تجزیہ بھی درست ہے لیکن یہ بہت سے وجوہات میں سے ایک ہے

    لیکن سب سے دل چسپ تجزیہ عنیقہ باجی کا ہے ۔۔۔ اور یہ پہلی مرتبہ ہے کہ میں ان سے صد فی صد اتفاق کرنے پر مجبور ہوں بلکہ دعا کرتا ہوں کہ جو وجہ وہ بیان کر رہی ہیں اللہ کرے کہ اگر یہ حقیقت نہیں تو اسے حقیقت بنا دیں اور پھر یہ صورتحال برقرار رہے ۔۔۔ آمین

    ویسے دیکھا جائے تو اس دعا کے قبول ہونے کے امکانات بہت روشن ہیں ۔۔۔ کیوں کہ لڑکے ویسے ہی فارغ پھر رہے ہیں کرنا کرانا کیا ہے ۔۔۔ چلو اس بہانے جہاد فی سبیل اللہ جیسی عظیم عبادت بھی ادا ہو جائے گی ۔۔۔ کفار کا زور بھی توڑنے کی کوئی صورت بن جائے گی ۔۔ پیسہ مال غنیمت سے مل جائے گا اللہ اللہ خیر صلا

    رہی بات گھر کے اندر معاش کی تو لڑکیاں کر تو رہی ہیں سپورٹ پورے پورے گھر کو ۔۔۔ لڑکوں کو حماقت کرنے کی ضرورت کیا ہے ۔۔۔ وہ اپنی اللیوں تللیوں کے پیسے بھی پورے کر لیتی ہیں اورجو بچتا ہے امی ابو کو دیا جاسکتا ہے

    یہ امر بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ بہت سی لڑکیوں کے رشتے اسی وجہ سے نہیں ہوپاتے کیوں کہ وہ پڑھائی میں بھی لڑکوں سے سبقت لے جاتی ہیں اور ان کا جاب اسٹیٹس بھی بھی لڑکوں سے بہتر ہوتی ہے ۔۔۔ ایسے میں ان کے سپنوں کا شہزادہ قوقاز سے تو آنے سے رہا ۔۔۔ امی ابو بھی سوچتے ہیں بیٹی بیاہ کر چلی گئی تو یہ عیاشیاں بھی جائیں گی جو اس کے دم سے ہے ۔۔۔ اس لیے وہ مالدار داماد لانے میں بیٹی سے بھی زیادہ سنجیدہ ہوتے ہیں

    جب لڑکیوں کا یہ سپنا پورا نہیں ہوتا تو وہ غیر ملک جانے کا سوچتی ہے

    ابھی اگلے چند سالوں میں یہ ٹرینڈ خطرناک حد تک بڑھنے والا ہے


    ہن کر لو گل ۔۔ جیڑی کرنی اے ۔۔۔

    ReplyDelete

Post a Comment