Sindh Madarsatul Islam

پچھلے دنوں سندھ مدرسۃ الاسلام پر ایک اسائنمنٹ لکھنے کو ملا تو انٹرنیٹ پر تلاش بسیار کے بعد بھی خاطر خواہ مواد نہیں مل سکا۔ اسائنمنٹ تو بہ ہر حال میں نے ایک کتاب سے نقل کرلیا لیکن بعد میں آنے والے طلبہ اور سندھ مدرسۃ الاسلام کی تاریخ جاننے کے خواہش مند افراد کی آسانی کے لیے دستیاب شدہ معلومات یہاں پیش کررہا ہوں۔ زیادہ تر مواد پروفیسر ظفر حسین خان کی دو کتابوں سے لیا گیا ہے (تاریخِ تعلیم اور علمِ تعلیم)، جو بی۔اے، بی۔ایڈ، ایم۔ایڈ کے طلبہ کے لیے لکھی گئی تھیں اور ان کے پہلے ایڈیشن جو 80 کی دہائی میں شائع ہوئے تھے، وہ مجھے جامعہ کراچی کے مرکزی کتب خانہ ’’محمود حسین لائبریری‘‘ سے دستیاب ہوئے۔
حرفِ اول:
کسی بھی قوم کی ترقی کے لیے تعلیم بے حد اہم کردار ادا کرتی ہے۔ تاریخ سے آشکار ہے کہ جس قوم کا تعلق تعلیم سے کمزور ہوتا گیا، وہ مختلف شعبہ ہاے حیات میں ناکامی سے دوچار ہوتی چلی گئی۔ تعلیم صرف روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہوتی بل کہ معاشرے کے افراد کو شعور و آگہی بھی دیتی ہے۔ اس کی مدد سے تہذیب و تمدن بہتر صورت سامنے آتا ہے۔
تعلیم صرف رسمی اداروں میں پڑھنے لکھنے اور معلومات حاصل کرنے کا نام نہیں بل کہ دراصل تعلیم ایک ایسا عمل ہے جس سے انسان میں موجود فطری صلاحیتیں نشو ونما پاتی ہیں اور انسان کو اپنی صلاحیتوں کا ادراک ہوتا ہے جنھیں بروقت استعمال لاکر وہ اپنی زندگی کو بہتر بناسکتا ہے۔ لیکن رسمی ادارے تعلیم کے فروغ کے لیے معاشرے کا ایک اہم ستون ہیں جو بہ ہر حال کسی صورت نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔
تعلیم کو چاہے قرآن کی رو سے دیکھا جائے یا دوسرے مذاہب کی روشنی میں؛ یہ اپنے اندر ایک وسیع عالمگیریت رکھے ہوئے ہے۔ تعلیم کو حاصل کرنا یا علم پانا تقریباً ایک ہی مقصد رکھتا ہے؛ چاہے ہم اس کو دینی نقطہٴ نظر سے دیکھیں یا دنیاوی۔ ہر مذہب اور قوم نے اس کو اپنے مطابق ڈھالنے اور تعلیم اور علم کو ایک ساتھ مساوی درجہ دینے کی اپنی سی کوشش کی ہے۔ اس دنیا میں جہاں ہم دینی و مذہبی تعلیم کو اہمیت دیتے ہیں، وہاں ترقی کرنے اور دوسرے ممالک اور قوموں کے مقابلے کے لیے دنیاوی علم کا حصول بھی بے حد ضروری ہے۔
دین اسلام میں تعلیم کو چوں کہ بے حد اہمیت دی گئی ہے، اسی لیے مسلمانوں نے حصولِ علم کے لیے ہر دور میں کوششیں جاری رکھیں کہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرسکیں۔ مسلمانوں کا لگاؤ جب تک علم سے رہا، دنیا میں ہر طرف مسلمانوں کا ڈنکا بجتا رہا۔ مسلمان سائنس دانوں نے سائنس کے بنیادی اصول وضع کیے، نت نئے تجربات کیے اور سوچ کو نیا رُخ دیا۔ تاہم جب مسلمانوں کی توجہ علم سے ہٹ گئی تو حالات نے پلٹا کھایا اور وہ مسلمان جو ایک وقت آدھی دنیا پر راج کرتے تھے، غیروں کے محتاج ہوگئے اور ترقی یافتہ سے ترقی پذیر میں شمار ہونے لگے۔
ہندوستان پر مسلمانوں کے سات سو سالہ شان دار دورِ حکومت کے بعد جب برطانوی راج قابض ہوا تو بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ انگریزوں نے نئی تعلیمی پالیسیاں بھی جاری کیں جن کے تحت نئے تعلیمی ادارے قائم کیے گئے تاہم مسلمانانِ ہند کی اکثریت اس حوالے سے خاصی تذبذب کا شکار رہی اور اپنی اولاد کو انگریزوں کے تعلیمی اداروں سے دور رکھنے میں بہتری سمجھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہندو قوم آگے بڑھ گئی اور مسلمانوں کو بالکل دیوار سے لگادیا گیا۔
یہ صورتِ حال خاصی افسوس ناک اور پریشان کن تھی۔ ایسے میں مسلمان قوم کے ہمدرد کچھ افراد نے مسلمانوں کی بہتری کے لیے بڑے قدم اُٹھانے کا فیصلہ کیا اور کئی تعلیمی ادارے قائم ہوئے۔ ان حالات اور مسلمانوں کو پہنچنے والے نقصانات کے ازالے کے لیے جو تحاریک سامنے آئیں اس میں علی گڑھ تحریک بے حد اہم ہے جب کہ سندھ میں سندھ مدرسۃ الاسلام کا کردار تاریخِ سندھ کا ایک ناقابلِ فراموش باب ہے۔ زیرِ نظر تحریر سندھ مدرسۃ الاسلام کی تاریخ، پس منظر، قیام اور اغراض و مقاصد کا احاطہ اختصار کے ساتھ کرنے کی ایک کوشش ہے۔

پس منظر:

سرسیّد احمد خان مرحوم کی کوششوں سے آل انڈیا مسلم ایجوکیشن کانفرنس، علی گڑھ کا قیام عمل میں آیا جس کا پہلا اجلاس علی گڑھ میں منعقد ہوا۔ کانفرنس کے مقاصد مسلمانانِ ہند کی تعلیمی، ثقافتی اور لسانی پہلوؤں میں اصلاح کرنے کے ساتھ سیاسی شعور پیدا کرکے اُن کے تمام مسائل کا سدباب کرنا تھا۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کو علومِ جدید سے روشناس کرکے آنے والی نسلوں کو بدلتے ہوئے حالات سے مقابلہ کرنے کے قابل بنانا بھی تھا۔
مقاصد میں کامیابی و کامرانی حاصل کرنے کے لیے کانفرنس نے ہند و پاک کے مختلف مقامات پر جلسے کیے تاکہ لوگوں میں بیداری پیدا ہوسکے۔ مختلف ایسے تعلیمی ادارے بھی قائم کیے گئے جن کے ذریعے آئندہ نسل کو وہ تعلیم دی جائے جو قومی مفادات کے لیے فائدہ مند ہو۔ یہ بات واضح تھی کہ انگریزوں نے دیگر علاقوں کی طرح سندھ کے مسلمانوں کو بھی نیست و نابود کرنے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔ چناں چہ علومِ شرقیہ کے ادارے یعنی مکاتیب و مدارس کو دیوار سے لگاکر انگریزی تعلیمی اداروں کو فروغ دیاجانے لگا۔ مسلمان سمجھتے تھے کہ انگریزی تعلیم ضروریاتِ زندگی اور اسلامی نظریہٴ حیات کے خلاف ہے۔ سندھ جس کو یہ امتیاز ہے کہ ہندوستان میں اسلام کی کرنیں سب سے پیشتر اسی علاقے میں جلوہ گر ہوئی تھیں۔ بھلا یہ علاقہ کس طرح اس تبدیلی کو گوارا کرلیتا۔ چناں چہ اس خطے کے عوام نے اس کی سختی سے مخالفت کی۔ نتیجتاً اُن کی حالت بد سے بدتر ہوتی گئی۔ مسلمانوں کو ہر طرح سے مجبور کیا جارہا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو انگریزوں کے قائم کردہ تعلیمی اداروں ہی میں بھیجیں بہ صورتِ دیگر مدارس سے حاصل کردہ روایتی تعلیم سے اُنھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ دوسری طرف چند انگریزوں نے خلوصِ نیت سے مسلمانانِ سندھ کی اصلاح چاہی اور اُنھیں سمجھایا کہ اگر وہ انگریزوں کے اداروں میں اپنی اولاد بھیجنا نہیں چاہتے تو اپنے ہی تعلیمی ادارے قائم کرلیں لیکن اپنے بچوں کو کسی صورت تعلیم سے دور نہ رکھیں۔
مسلمانانِ سندھ کی حالت نہایت ہی ناگفتہ بہ تھی۔ ہندو چوں کہ انگریزوں کے محبوب اور نورِ نظر تھے لہٰذا ہندوؤں اور انگریزوں کے گٹھ جوڑ سے مسلمانوں کی پریشانیوں اور مصیبتوں میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ ایسے وقت میں قوم کو ایک سچے مصلح اور راہ بر کی ضرورت تھی جو صحیح راہ کا تعین کرسکے۔ اس کٹھن دور میں مسلمانانِ سندھ کو حسن علی آفندی کا تحفہ ملا۔

حسن علی آفندی:

14/اگست وہ تاریخ ہے جب ایک اسلامی مملکت پاکستان دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی۔ اور یہی وہ تاریخ ہے جب حیدرآباد میں 14/اگست 1830ء کو حسن علی کی پیدائش ہوئی۔ دستور کے مطابق ابتدائی تعلیم قرآن پاک، عربی اور فارسی کی حاصل کی بعد ازاں ملازمت کرنے لگے۔ دورانِ ملازمت انھیں ایک کلرک سے انگریزی پڑھنے کا موقع ملا۔ حسن علی ترقی کے زینے چڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ اُنھیں امتحان پاس کیے بغیر ہی وکالت کی اجازت دے دی گئی۔
ہندو پاک کے مایہ ناز مشہور و معروف بیرسٹر سیّد امیر علی کسی مقدمے کے سلسلے میں کراچی آئے تو اُن کی ملاقات حسن علی سے ہوئی۔ دونوں قوم کے درد سے سرشار اور ہندوؤں کی پالیسیوں سے نالاں تھے۔ دورانِ گفتگو مسلمانانِ سندھ کی حالت بھی زیرِ بحث آئی اوردونوں سندھ مدرسہ بورڈ اور سندھ مدرسۃ الاسلام کے قیام پر غور کیا جانے لگا۔ حسن علی کا مقصد مسلمانانِ ہند کو اُن کی قابلِ رحم حالت کا احساس دلاکر اُن میں ایسی تڑپ پیدا کرنا مقصود تھا کہ وہ بدلتے ہوئے حالات کے مطابق اپنے آپ کو تبدیل کرکے راہِ ترقی پر گام زن ہوسکیں۔
اس زمانے میں سرسیّد احمد خان پورے برصغیر میں مسلمانانِ ملک کی فلاح و بہود کے لیے کوشاں تھے۔ چناں چہ 1885ء میں حسن علی نے علی گڑھ کا سفر کیا اور سیّد احمد خان کو اپنے خیالات و افکار سے آگاہ کیا۔ واپس آکر اُنھوں نے کراچی میں سندھ مدرسۃ الاسلام اور سندھ مدرسہ بورڈ قائم کیا۔

اغراض و مقاصد:

سندھ مدرسۃ الاسلام حقیقتاً ایک تحریک تھی جس کے بے شمار مقاصد میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ مسلمانانِ سندھ میں بیداری پیدا کرنا۔
2۔ مسلمانانِ سندھ کی تعلیمی اصلاحات کرنا۔
3۔ اسلامی نظریۂ حیات اور اسلامی شعار سے بچوں کا آگاہ کرنا۔
4۔ علمی ترقی و ترویج کے ساتھ ہی ساتھ قرآن پاک اور عربی و فارسی کی تعلیم کا مناسب انتظام و انصرام کرنا۔
5۔ علی گڑھ کی طرح طلبہ کو اراکینِ اسلام پر راغب کرنا۔
6۔ مغرب و مشرق کے علوم کو حاصل کرکے علاقے کے لوگوں کو اس قابل بنانا کہ وہ اپنی انفرادیت قائم رکھ سکیں۔
7۔ مسلمانانِ ہند کی فلاح و ترقی کے لیے تمام جائز اور آئنی طریقے اختیار کیے جائیں اور یہ کہ اپنی ماضی کی شان دار روایات سے فیض حاصل کرتے ہوئے عصرِ حاضر کے ترقی پذیر رجحانات اور مغربی ثقافت کے پسندیدہ عناصرہ سے ہم آہنگی پیدا کی جائے۔

سندھ میں تعلیمی تحریک کا آغاز:

سندھ میں تعلیمی تحریک کا آغاز نیشنل محمڈن ایسوسی ایشن کی شاخ کراچی کی مساعی کا نتیجہ تھا۔ یہ جماعت جسٹس سیّد امیر علی نے قیام کانگریس سے پہلے یعنی 1882ء میں قائم کی تھی۔سندھ میں نیشنل ایسوسی ایشن کی کم از کم چار شاخیں کراچی، شہداد پور، لاڑکانہ اور سکھر میں قائم تھیں۔ اس سلسلہ میں سیّد امیر علی نے سندھ کا دورہ کیا تھا اور سندھ کے اربابِ فکر و بصیرت اور ملت کے بہی خواہوں میں مسلمانوں کی فلاح و بہود کے لیے نہ صرف ایک فکری تحریک شروع کرگئے تھے۔ بل کہ ان کے دورے سے مسلمانوں میں سیاسی شعور اور تعلیم کے فروغ کے لیے ایک عملی جدوجہد بھی شروع ہوگئی تھی۔ 1884ء میں سیّد امیر علی کی کراچی آمد پر حسن علی نے ایک جلسے کا اہتمام کیا جس میں امیر علی نے سندھ میں مسلمانوں کی تعلیم پر ایک تقریر کی اور مسلمانوں کو حالات و وقت کے مطابق ملکی فلاح و بہبود کے کاموں اور تعلیم کے حصول کی طرف متوجہ کیا۔

درس گاہ کی جگہ:

تحریک کو عملی شکل دینے کے لیے ایک مدرسہ اور ایک بورڈ کو قائم کرنے پر اتفاق ہوا۔ سب سے اہم مسئلہ مقام کا تھا۔ ابتدا میں یہ مدرسہ بولٹن مارکیٹ کے ساے میں کراے کی ایک عمارت میں قائم تھا جو حقیقتاً ایک گودام تھا اور مدرسے کے لیے کسی طرح بھی مناسب نہیں تھا۔ کراچی میں میونسپل بورڈ نے صنعت و حرفت اور تجارت کی نقل و حمل کے لیے ایک قافلہ سراے بنوارکھی تھی لیکن وہ اُن دنوں غیرآباد تھی۔ حسن علی نے طے کیا کہ وہ اس میں ہوسٹل قائم کریں گے۔ لہٰذا وہ جگہ اُنھوں نے میونسپلٹی سے پچھتّر روپے ماہ وار کراے پر حاصل کرلی۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں سندھ مدرسہ اب قائم ہے۔ جگہ کے حصول کے بعد ایسے شخص کی ضرورت تھی جو بہ حیثیت پرنسپل کام کرسکے۔ اس وقت سندھ میں صرف تین مسلمان ہی بی۔اے پاس تھے جو سرکاری ملازم تھے۔ چناں چہ پنجاب سے عمروین ایم۔اے کو بلایا گیا جو اس کے سب سے پہلے پرنسپل ہوئے۔ مدرسہ اور بورڈ کے قیام کے بعد مصائب و آلام کا سیلاب اُمنڈ آیا لیکن حسن علی ایسے شخص نہ تھے جو ان چیزوں سے ہمت ہار جاتے۔

پہلا مسئلہ عوام کی مخالفت تھی۔ مولوی ملاؤں کے تحت سندھ میں بہت سے نجی ادارے قائم تھے۔ وہ کسی طرح اُن سے دست بردار ہونا نہیں چاہتے تھے۔ چناں چہ حسن علی نے اپنی آوز عوام تک پہنچانے کے لیے ایک اخبار ”معاون مجموعہ محمدی“ کو جاری کیا جس کے ایڈیٹر شمس الدین بلبل تھے۔ اتنا ہی نہیں بل کہ وقتاً فوقتاً وہ جلسے بھی کرتے جس میں وہ تعلیم کی اہمیت اور افادیت پر مددل روشنی ڈالتے۔ حقائق بہ ہر حال حقائق ہیں چناں چہ رفتہ رفتہ مخالفین کی تعداد کم اور موافقین کی تعداد بڑھنے لگی اور اس طرح یہ تحریک دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگی۔

مالی امداد:

دوسرا مسئلہ رقم کا تھا۔ اس کے لیے حسن علی نے دورے کیے، لوگوں کو اپنے کام اور مشن کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ اتنا ہی نہیں بل کہ امرا و روسا اور نوابین کو خطوط بھی لکھے۔ چناں چہ مخیر حضرات نے بھرپور مدد کی۔ ساتھ ہی ساتھ ایسے ذرائع بھی اپنائے گئے کہ کم روپیہ اور کام زیادہ ہوسکے۔ مثلاً ایسے معلّمین کا تقرر کیا گیا جو کم سے کم معاوضہ پر کام کرنے کو تیار ہوں۔ نرسنگ داس جو بمبئی بینک میں اکاؤنٹنٹ تھے، اُن کو حساب کتاب کی جانچ کے بدلے سو روپے سالانہ دیے جاتے تھے تاکہ وہ روزانہ ایک یا دوگھنٹے آکر کام کردیا کریں۔ اس کے علاوہ بہت سے مخیر حضرات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جن میں سردار محمد یعقوب، الٰہی بخش بھٹو، حاجی عبداللہ ہارون اور میر غلام علی چھاگلہ کے نام اہم ہیں۔ اتنا ہی نہیں بل کہ حسن علی نے پورے ہند کا دورہ کیا جس میں آپ کو کافی دولت ملی۔ نظام حیدرآباد دکن نے دل کھول کر مدد کی۔ کراچی میونسپل بورڈ نے بھی ہزار روپے سالانہ کی گرانٹ دینی شروع کی۔ 1886ء میں مسٹر ہنٹر نے مدرسے کے معائنے کے بعد یوں اظہارِ خیال کیا:
”سندھ میں مسلمانانِ سندھ کے تعلیمی مسائل کو مدرسۃ الاسلام نے حل کرکے حکومت کو بہت بڑی ذمہ داری سے سبک دوش کردیا ہے۔“
سندھ مدرسہ بورڈ اس بات کا متمنی تھا کہ اس کو مسلم کالج بنایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے سربراہ کو ہیڈ ماسٹر نہیں بل کہ پرنسپل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ مسٹر وائن کا دور اس مدرسے کی تاریخ میں خاص اہمیت اور افادیت کا حامل ہے۔ اُنھوں نے مسلمانانِ سندھ کی تعلیم کی ترقی و ترویج میں اہم خدمات انجام دی ہیں؛ مثلاً نادار و غریب لیکن ذہین طلبہ کو نوازنے کے لیے مختلف طریقوں کو اپنایا جیسے فیس معاف کرنا، کپڑوں کا انتظام کرنا، وظائف و کتب وغیرہ دینا۔ مسٹر وائن ہمیشہ موسمِ گرما کی چھٹیوں میں سندھ اور ملک کے دیگر علاقوں کے دوروں پر جاتے تاکہ زیادہ سے زیادہ فنڈ اکٹھا کیا جاسکے۔ اگرچہ وہ غیر ملکی تھے لیکن ان کے کارنامے قابلِ تحسین ہیں۔
مدرسے کی تعمیر میں نظام دکن نے چار ہزار، ریاست جونا گڑھ نے دس ہزار اور ہزہائی نس میر آف خیر پور نے پرنسپل کے بنگلے کے لیے نیز تالپور ہاؤس کے واسطے عطیات ہی نہیں دیے بل کہ چھ ہزار روپے سالانہ کی گرانٹ بھی منظور کی بہ شرط یہ کہ پرنسپل انگریز ہو۔

ایجوکیشنل کانفرنس سے روابط:

ان تمام کوششوں کے باوجود بھی مسلمانانِ سندھ کی حالت میں خاطر خواہ تبدیلیاں نہیں ہوئیں۔ چناں چہ 1902ء میں سر آغا خان کی صدارت میں دہلی میں مسلمانانِ ہند و پاک کا تاریخی اجتماع ہوا تو اس میں علی محمد خان دہلوی نے کانفرنس کی توجہ مسلمانانِ سندھ کی طرف مبذول کروائی جس میں محسن الملک کی کوششوں سے درج ذیل سفارشات منظور ہوئیں:
”کانفرنس کو لازم ہے کہ سندھ تک اپنے دائرہٴ کار کو وسیع کرکے مسلمانانِ سندھ کے ساتھ تعاون کرے اور جو جماعت وہاں پر تعلیمی اصلاحات کی کوشش کررہی ہے، اُس کی مدد کرے۔“
اسی طرح 1906ء میں ایجوکیشنل کانفرنس جب ڈھاکا میں ہوئی تو اس میں سندھ کے نمائندے سردار محمد یعقوب خان نے اس علاقے کی نمائندگی کی اور جس وقت انھوں نے اس علاقے کی رپورٹ پیش کی تو سامعین کے آنسو نکل آئے۔ انھوں نے کہا:
”کسی علاقے یا حصے کی تعلیمی حالت اس قدر پراگندہ اور ابتر نہیں ہوگی جتنی سندھ کی ہے۔ حال یہ ہے کہ دو سو گریجویٹس کے مقابلے میں پورے سندھ میں صرف دس مسلمان بی۔اے پاس ہیں۔ ان میں ایک دو کے علاقہ باقی سب غیر سندھی ہیں۔“
یہ وہ عالم تھا جب ایک طرف انگریز اور ہندو، مسلمانوں کے استحصال کے لیے کوشاں تھے تو دوسری طرف سندھ مدرسۃ الاسلام کی تحریک اپنے مقاصد میں کام یابی حاصل کرنے کے لیے سردھڑ کی بازی لگارہی تھی۔

مدارس کا پھیلتا جال:

1916ء میں سندھ مدرسۃ الاسلام میں طلبہ کی تعداد 350 تھی جن چند یہودی بھی شامل تھے۔ بورڈنگ ہاؤس میں جو طلبہ رہتے تھے، اُن کو اسلامی اصولوں پر عمل کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا تھا۔ مدرسے اور بورڈ کے اراکین نے بڑے خلوص، محنت اور دیانت داری سے کام کیا اور اس درس گاہ کو بامِ عروج پر پہنچا دیا۔ اس تحریک نے مسلمانانِ سندھ کو خوابِ غفلت سے بیدار کرکے اُن میں تعلیم و تربیت سے محبت و الفت پیدا کی۔
رفتہ رفتہ یہ تحریک عوام میں مقبول ہوتی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بہت جلد پورے سندھ میں مدارس کا جال پھیل گیا۔ چناں چہ بالائی سندھ میں 72 لڑکوں کے پانچ میونسپل پرائمری اسکول جن میں دو لڑکوں اور دو لڑکیوں کے، اور ایک ٹیکنیکل اسکول قائم ہوا۔ ضلع سکھر میں مسلمان بچوں کا اوسط 44فی صد ہوگیا۔ اتنا ہی نہیں بل کہ ماڈیجی، منگھواری اور میرپور میں بھی مسلمان بچوں کے لیے چھوٹے چھوٹے اقامتی اسکول قائم کیے گئے۔ سکھر میں مسلمانانِ سکھر نے سندھ بورڈ کراچی کی طرح ایک بورڈ قائم کیا جس کا مقصد مسلمانوں کو بیدار کرکے ان میں تعلیم کے لیے لگن اور شوق پیدا کرنا تھا۔ حیدرآباد میں بھی قابلِ ذکر اضافہ ہوا جو ترقی کرتے کرتے 23فی صد ہوگیا۔ یہی حال نواب شاہ کا بھی تھا جہاں پر 27 فی صد اضافہ ہوا۔ لاڑکانہ کے شہریوں نے اس تحریک سے متاثر ہوکر سندھ مدرسے کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔

ترقی کا سفر:

سندھ مدرسہ کی تحریک نے مسلمانانِ سندھ کو نہ صرف تعلیمی اعتبارسے بل کہ سیاسی اعتبار سے بھی بیدار کیا اور مسلمانوں کو احساس ہوا کہ اُن کے حقوق پامال کیے جارہے ہیں۔ صوبہ سندھ کا صوبہ بمبئی سے الحاق ایک دھاندلی ہے۔ چناں چہ اس سلسلے میں مسلمانوں نے جدوجہد کی اور کام یاب ہوئے۔ قائد ِ اعظم محمد علی جناح نے سندھ مدرسے میں تعلیم پائی تھی اور یہ سندھ مدرسے کا فیض تھا کہ مسلمانانِ برصغیر کو قائد ِ اعظم جیسا سیاسی راہ نما ملا جس نے پاکستان بنایا اور برصغیر میں مسلمانوں کی نشاۃِ ثانیہ کا آغاز کیا۔ سندھ مدرسے نے شمس العلما ڈاکٹر داؤد پوتا جیسے محقق، شیخ عبد المجید سندھی جیسے سیاسی راہ نما، حسن علی عبدالرحمن جیسے قانون دان، اے کے بروہی جیسے فلسفی اور طفیل علی عبد الرحمن جیسے مصنف ہمیں دیے۔ آج بھی سندھ مدرسہ تعلیمی اعتبار سے ممتاز اداروں میں شمار ہوتا ہے۔
سندھ مدرسہ اپنے قیام سے برابر ترقی کرتا رہا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اس کا نیا دور شروع ہوا اور اس کے چشمہ فیض سے ادب، تہذیب اور علم و فن کے کئی اور چشمے پیدا ہوئے جن میں سے ہر چشمہ اپنی افادیت و فیضان کا خاص دائرہ رکھتا ہے۔ سندھ مدرسہ آرٹس اینڈ کامرس کالج، سائنس کالج، لاء کالج، سندھ مدرسہ ہائی اسکول، فاطمہ جناح گرلز ہائی اسکول و کالج وغیرہ اسی نظامِ شمسی کے سیارے ہیں اور ان سیاروں نے ہماری زندگی کی علمی، تہذیبی اور سیاسی زندگی کا گوشہ گوشہ روشن کردیا ہے۔
کون جانتا تھا کہ محمد بن قاسم نے جس خطے کو 712ء میں اسلامی نظریہٴ حیات سے منور کیا تھا، وہ مقام 1235 سال کے بعد ایک بار پھر دنیاے اسلام کی سب سے عظیم سلطنت کا دارالخلافہ بن کر پیغامِ اسلام سے پورے عالم کو دعوتِ فکر دے گا۔ پاکستان کے قیام کے بعد سارے ہندوستان سے مسلمان گروہ در گروہ اپنا سب کچھ لٹاکر اس خطے کو رونق افروز بنانے کے لیے آنا شروع ہوئے۔ انھوں نے اس وطنِ عزیز کے لیے جو قربانیاں دیں، ان کا تذکرہ محال ہے۔ بہ ہر حال، یہ حقیقت ہے کہ یہ انھیں کا ثمرہ ہے کہ جو بیداری اور تعلیمی ترقی اس خطہ پاک میں موجود ہے، وہ کسی دوسرے میں نہیں۔

تجزیہ:

ان مختصر حالات کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر بہ آسانی پہنچا جاسکتا ہے کہ مسلمانانِ سندھ کی تعلیم و تربیت اور ترقی میں سندھ مدرسۃ اسلام ایک ناقابلِ فراموش درخشاں باب ہے جو سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ ہماری تاریخ کا یہ باب ہمیں یہ سبق بھی دیتا ہے کہ اگر عزمِ مصمم کرلیا جائے تو پھر منزل چاہے جتنی مشکل ہی کیوں نہ ہو، اس تک پہنچنے میں کام یابی حاصل کی جاسکتی ہے۔ سندھ مدرسہ صرف ایک درس گاہ نہیں، بل کہ ایک تحریک کا نام ہے جسے قوم کے مخلصین نے لگن اور ان تھک محنت سے بامِ عروج پر پہنچادیا۔

Comments

  1. لگتا ہے کہ یہ پوسٹ مکمل نہیں ہوئی ہے. ؟؟؟

    ReplyDelete
  2. پوری تو پیسٹ کر دیتا

    ReplyDelete
  3. جی ہاں، وہ مکمل کردی ہے.

    ReplyDelete
  4. یار! ’’پیسٹ‘‘ اور ’’پوسٹ‘‘ میں بس معمولی سا فرق ہے. پیسٹ تو پورا کیا، انٹرنیٹ کنکشن کی وجہ سے پیسٹ پورا نہیں ہوا بس. :(

    ReplyDelete
  5. بہت خوب، واقعی علم کوعام کرنےمیں مشکلات توہرہردورمیں پیش آتیں ہیں بہت اچھی تحریر ہےاچھی معلومات ملیں ہیں۔

    ReplyDelete
  6. سرسیّد احمد خان مرحوم کی کوششوں سے آل انڈیا مسلم ایجوکیشن کانفرنس، علی گڑھ کا قیام عمل میں آیا جس کا پہلا اجلاس علی گڑھ میں منعقد ہوا۔ کانفرنس کے مقاصد مسلمانانِ ہند کی تعلیمی، ثقافتی اور لسانی پہلوؤں میں اصلاح کرنے کے ساتھ سیاسی شعور پیدا کرکے اُن کے تمام مسائل کا سدباب کرنا تھا۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کو علومِ جدید سے روشناس کرکے آنے والی نسلوں کو بدلتے ہوئے حالات سے مقابلہ کرنے کے قابل بنانا بھی تھا۔

    یہ اہم بات لکھی آپ نے. اچھا معلوماتی اسائیمنٹ ہے آپکا. آپکے پیغام کے بعد میں نے بھی گوگل پہ دیکھا تھا اور کچھ ایسا خاص نہیں ملا تھا. باقی لوگوں کو بھی دوسرے بلاگرز پہ ہاتھ صاف کرنے کے بجائے کچھ کام کا کام بھی کرنا چاہئیے. لیکن خیر جو جو کر سکتا ہے وہی کرے گا.
    امید ہے آپ مزید اسائمنٹ ملنے کا انتظار کئے بغیر کچھ اور بھی لکھیں گے.

    ReplyDelete
  7. شکریہ۔ میری کوشش ہوگی کہ مزید معلوماتی تحاریر لکھ سکوں۔

    ReplyDelete
  8. امن ایمان10 November 2010 at 04:34

    پتہ ہے میرے ذہن میں ایک نادرخیال آیا ہے...آپ سب صاحبان دو دو بلاگ ایک ساتھ بنا لیں...ایک پر معلوماتی تحاریر جس میں سیاسیت سے لے کر دنیا کے ہر موضوع پر معلوماتی پوسٹس اور دوسرے پر اپنے بارے میںباتیں،ہلکی پھلکی پوسٹس.....جن کو لکھنے کے لیے زیادہ بھاری بھرکم الفاظ استمعال نہ کیے جائیں...بس جو دل میں آیا لکھ دیا بغیر کسی ثبوت اور ریسرچ کے.............اب امن ایمان سمیت باقی ریڈرز کی مرضی وہ جس بلاگ سے مستفید ہونا چاہیں..ہوں ...اس طرح بلاگ بھی فعال رہے گا اور بلاگرز بھی متحرک رہیں گے.:hun:

    ReplyDelete
  9. آنٹی! خود آپ سے تو ایک بلاگ نہیں چلایا جارہا اور ہمیں مشورہ دے رہی ہیں دو دو بلاگز کا۔۔۔ خوب جارہی ہیں آپ بھی۔۔۔ :D

    ReplyDelete
  10. امن ایمان28 November 2010 at 02:34

    تو اور کیا.............انکل جی اس طرح تو آپ بلکل بڈھے اینٹلیکچوئل بن جائیں گے....آپ بڑے لوگوں کے لیے الگ پوسٹ لکھا کریں...مجھ جیسے بچوں کے لیے الگ :p

    ReplyDelete
  11. میں کوئی بڈھا انٹلیکچوئل نہیں بنا۔۔۔ آپ خود آنٹی ہوگئی ہیں بس :P

    ReplyDelete
  12. عامر مشتاق7 January 2011 at 09:14

    عمار صاحب پاکستان کے وجود میں آنے کی صیح تاریخ ١۵ اگست ہے۔ مہربانی کر کے اس تاریخ کو صیح لکھیں۔
    باقی آپکی تحریر بہت اچھی ہے۔

    ReplyDelete
  13. عامر مشتاق7 January 2011 at 09:17

    کیونکہ اس کا سب ۲۷ رمضان کو ١۵ اگست ١۹۴۷ ہے۔

    ReplyDelete
  14. بھائی! 14 اگست 1947ء ہی کو مستند تاریخ مانا جاتا ہے۔ آپ نے کہاں سے دلیل لی؟

    ReplyDelete
  15. عامر مشتاق14 January 2011 at 19:43

    بات دلائل کی ہے تو بہت سے دلائل ہیں میں انشاء اللہ آج ہی آپ کو بتا تا ہوں

    ReplyDelete
  16. عامر مشتاق14 January 2011 at 20:30

    عمار آپ اس پوسٹ کو پڑھیں
    http://amiretc.co.cc/?p=237

    ReplyDelete

Post a Comment