میں ابھی نمازِ جمعہ سے واپس آرہا تھا تو دیکھا کہ چار، پانچ لڑکے ایک طرف بیٹھے تھے جن کی عمریں پندرہ سال سے کم ہی تھیں۔ سب وقفے وقفے سے ایک ہی آواز بلند کرتے: ’’آئے ہائے جوانی!‘‘ پہلے تو میں نے خیال کیا کہ یوں ہی شرارتوں میں لگے ہیں لیکن غور کرنے پر اندازہ ہوا کہ معاملہ کچھ اور ہے۔ سامنے سے ایک لڑکی جس کی عمر شاید بیس سال ہو، پانچ/ چھ چھوٹے بچے، بچیوں کے ساتھ جارہی تھی۔ سب کے کاندھوں پر لٹکے بستوں سے پتا چلتا تھا کہ کہیں ٹیوشن پڑھنے جارہے ہیں۔ ’’آئے ہائے جوانی‘‘ کا نعرہ تو لگتا ہی رہا، مگر جب وہ لڑکی مع اپنی ٹولی کے ان لڑکوں سے آگے نکلی تو ایک لڑکے کی آواز آئی: ’’سلمان! کہاں جارہے ہو؟‘‘ تو اس کے ساتھ کھڑے لڑکے نے کہا: ’’ٹیوشن پڑھنے جارہا ہوں۔‘‘ یہ بالواسطہ ان پر چوٹ تھی۔ میں تب سے سوچ رہا ہوں کہ یہ سب کچھ ایک انسان کو کس قدر ذہنی اذیت کا شکار کرتا ہوگا۔
میری ابتدائی زندگی ایک یکسر مختلف ماحول میں گزری ہے۔ گھر سے باہر کی دنیا کے بارے میں ایک عرصے تک میں زیادہ نہیں جانتا تھا۔ مجھے گھر میں سنجیدہ (اور تھوڑا بہت علمی) ماحول ملا اس لیے میرا مزاج قطعاً دوسروں سے بے حد مختلف رہا۔ مجھے اب تک اس طرح ’’ہوٹنگ‘‘ اور ’’جملے بازی‘‘ کرنا نہیں آتی۔ کبھی کبھی نقصان بھی ہوتا ہے کہ سامنے سے مجھ پر بھی حملہ ہو تو مجھے بروقت جواب نہیں سوجھتے۔ لیکن میں یہ دیکھ کر حیران ہوتا ہے کہ آج کل بچے بھی کیسی کیسی حرکتیں کرنے لگے ہیں اور ان کی سوچ کہاں کہاں پہنچ جاتی ہے۔
جامعہ آنے کے بعد مجھے مزید جاننے کا موقع ملا۔ یہاں آکر میں نے یہ دیکھا کہ جملے بازی صرف لڑکوں تک محدود نہیں ہے۔ جامعہ میں اگر اس میدان کا جائزہ لیا جائے تو لڑکیوں کا پلّہ بھاری نظر آتا ہے۔ آپ نے کچھ ہٹ کے یا عجیب سے کپڑے پہنے ہوں یا آپ کوئی الٹی حرکت کریں، مجال ہے کہ لڑکیاں دیکھ کر جملے نہ کسیں۔
جامعہ کے شعبوں کی راہداریوں میں جابجا طلبہ بیٹھے ملتے ہیں۔ آس پاس کے ماحول سے بے نیاز طلبہ جنہیں اگر کوئی جگہ نہیں ملتی تو وہ وہیں زمین پر دائرہ بناکر بیٹھ جاتے ہیں اور گپ شپ یا پڑھائی میں مگن ہوجاتے ہیں۔ یا جہاں راہداریوں میں بیٹھنے کی جگہ موجود ہے، وہ بھی بھری ہوتی ہے۔ ہوتا کیا ہے کہ وہاں سے جو کوئی گزر رہا ہوتا ہے، اس پر نہ صرف مزے سے تبصرے ہوتے ہیں بل کہ اس پر جملے بھی کسے جاتے ہیں۔ فلاں نے کپڑے کیسے پہنے ہیں، فلاں کے چلنے کا انداز کیسا ہے۔ سب سے زیادہ مزا یوں لیا جاتا ہے کہ جیسے ہی کوئی قریب سے گزرا، ایک آواز لگائی: ’’اوئے!‘‘ جوں ہی اُس نے مڑکر دیکھا تو اپنے برابر والے ساتھی کی طرف مڑ کر کہا: ’’کہاں جارہا ہے؟‘‘ یا کوئی بھی الٹی سیدھی بات۔
اس کے علاوہ جو طلبہ راہداری میں زمین پر یا سیڑھیوں پر بیٹھے ہوتے ہیں، ان کے پاس سے گزرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ آج جمعرات تو نہیں ہے، چونی دے دوں؟ ایک روپیہ دے دو بھئی! شاید جامعہ میں لڑکیاں اپنی اکثریت کا فائدہ اُٹھاتی ہیں :P
مجھے ايک بزرگ کا فقرہ ياد آ گيا " ۔ ۔ ۔ جنہوں نے اپنے بچے کھُلے چھوڑ رکھے ہيں"
ReplyDeleteہم جب بچے ہوتے تھے تو عورتوں جب گذر رہی ہوتی تھیں۔تو بڑے کہتے تھے۔
ReplyDeleteجب مائیں بہنیں گذر رہی ہوں تو آنکھیں اور سر نیچا رکھو۔
اب لگتا ھے سب کچھ بدل گیا ھے۔ :sad:
تربیت کا اثر ہوتا ہے۔
ReplyDeleteیار عمار بھائی۔۔۔
ReplyDeleteکیوں اپنی جامعہ کی کڑیوں کے پیچھے پڑ گئے ہو؟ :hmm: پہلے گالی والی پوسٹ اور اب یہ۔۔
کہیں جامعہ کی طالبات سے مار کھانے کا ارادہ تو نہیں؟ :haha:
عمار بھیا۔۔۔ ہمارا بچپن بھی آپ جیسا ہی گزرا۔۔۔ آپکی طبیعت بھی میری طرح خاموش معلوم ہوتی ہے۔۔۔
ReplyDeleteعثمان بھیا کی بات بھی ٹھیک ہے کہ کیوں اپنے جامعہ کی کُڑیوں کے پیچھے پڑ گئے ہو؟ :wink:
ہاہاہا۔۔ اللہ نہ کرے، یار۔ تھوڑا ہی وقت بچا ہے، عزت سے گزر جائے :P
ReplyDeleteپہلے مبں بھی بہت پریشان ہوتی تھی اپنے اوپر ہوٹینگ پر مگر اب عادی ہوگئے ہیں اور جب ہمیں موقع ملتا ہے تو جواب غزل سنا دیتے ہیں۔
ReplyDeleteاور یہ جو اِن بچوں کی بات کی آپنے۔۔۔ اِس میں زیادہ کردار انکی تربیعت کا ہوتا ہے۔۔۔ انہوں نے تو ویسا ہی کرنا ہے جیسا یہ دیکھیں گے۔۔۔ گھر میں باپ انہی بچوں کے ساتھ مل کر غیر مُلکی موُویز دیکھ رہا ہوتا ہے جس میں یہ سب دِکھایا جاتا ہے۔۔۔ تو بچے تو ہر چیز سے سیکھتے ہیں۔۔۔ اور پھر انہیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ یہ ساری مسلمان ہماری ماں اور بہنیں ہیں۔۔۔ اگر ہمارے گھرانوں میں اسلام ہو تو پورے معاشرے سے اِن بُرائیوں کا خاتمہ ہو جائے۔۔۔
ReplyDeleteشروع شروع میں لڑکیوں کے تبصروں اور فقروں سے گھبرا جاتا تھا، لیکن اب ہمت کر کے جواب دینے لگا ہوں :hmm: ۔ لیکن جامعہ کی لڑکیاں بھی عجیب ہوتی ہیں، اپنی باری پر طرم خان اور زرا کوئی دوسرا شروع ہوجائے تو پھر مشرقیت کا لبادہ اوڑھ لیتی ہیں۔
ReplyDeleteنغمہ غزل سنا دیتی ہیں، لیکن بدقمتی سے مجھے کوئی ایسی نہیں ملی جو غزل سنایا کرے۔ : :(
ویسے تبصرہ کرنے اور فقرے کسنے کا بھی اپنا لطف ہے، ہمارے ابلاغ عامہ میں ایک سے بڑھ کر ایک فلم ہیں، کلاس سے پہلے ہم بھی راہداری پر بیٹھ کر ان عجائبات پر تبصرے کر کر اپنا وقت گزارتے ہیں، پوری کلاس میں ایک واحد ادھیڑ عمر میجر صاحب ہیں جو کوئی تبصرے نہیں کرتے کیونکہ وہ یہ وقت جامعہ کی طالبات کے نقوش کے گہرے مطالعے میں گزار دیتے ہیں۔ بی ایس کی لڑکیوں نے انکا نام "انکل تاڑو" رکھا ہوا ہے۔
اچھا جی۔۔۔! کیا بات ہے آپ کی بھی :-)
ReplyDeleteعادل بھیا!
ReplyDeleteلوگ اچھے مسلمان نہ بنیں، اچھے انسان تو بنیں۔ اخلاق بھی تو کوئی شے ہے نا۔
دو سال میں اتنی ترقی تو ہونی چاہیے نا کاشف :P
ReplyDeleteمجھے جواب دینا تھوڑا تھوڑا آگیا ہے لیکن میں جامعہ میں زیادہ تر اپنے گروپ تک ہی محدود رہتا ہوں۔ بقیہ ہم جماعتوں سے بھی زیادہ گپ شپ نہیں۔ ’’انکل تاڑو‘‘ اور ’’آنٹی تاڑو‘‘ یہ دونوں کردار جامعہ میں وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ :D
عمار بھیا۔۔۔ اخلاق کون سِکھائے گا؟؟؟ کیا یہ اآجکے کالچ یونیورسٹیز اخلاق سکھاتے ہیں؟ اِس دنیا میں سب سے بہترین اخلاق ہمارے نبی صل اللہ علیہ وسلم کے تھے۔۔۔ ہم نے آپکی سیرت ہی بھُلا دی۔ اپنے اس عظیم نبی کو چھوڑ کر ہم کس سے اخلاق سیکھنا چاہتے ہیں؟ جب تک دین ہماری زندگیوں میں نہیں آتا۔۔۔ ہمارے اندر اچھے اخلاق نہیں آسکتے۔۔۔
ReplyDelete