امداد کے مستحقین

ملک کے کئی حصوں میں تاریخ کا خطرناک ترین اور تباہ کُن سیلاب آیا ہوا ہے جس سے ایک طرف بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا ہے تو دوسری طرف انفراسٹرکچر اور صحت کے حوالے سے صورتِ حال خاصی مخدوش ہے۔ اس موقع پر جہاں متاثرینِ سیلاب کو امداد کی اشد ضرورت ہے، یہ بات خاص کر نوٹ کی جارہی ہے کہ اس بار پاکستانی عوام میں پہلے سا جوش و خروش نظر نہیں آتا۔ امداد جمع کرنے کے لیے لگائے گئے اسٹالز اکثر خالی نظر آتے ہیں۔ مختلف لوگ اس کی مختلف وجوہات بیان کرتے ہیں۔ مثلاً:

1۔ حکومتی اداروں، این۔جی۔اوز اور دیگر تنظیموں پر سے لوگوں کا اعتماد اُٹھ گیا ہے۔ انہیں یقین نہیں ہے کہ وہ جو کچھ عطیات دیتے ہیں، ان کا صحیح استعمال ہوتا ہے۔

2۔ میڈیا نے آئے دن لاشیں دکھاکر عوام میں سے پہلے سا احساس ختم کردیا ہے۔ اب اتنی تباہی دیکھ کر دکھ نہیں ہوتا کہ یہ تباہیاں تو روز کا معمول بن گئی ہیں۔

3۔ درج بالا دو نقطہ ہائے نظر بھی یقیناً اپنی جگہ درست ہیں لیکن میں جس بات کو زیادہ اہمیت دے رہا ہوں، وہ یہ ہے کہ مستحقین کی امداد کرنے والے فی الوقت خود امداد کے مستحق ہیں۔ زیادہ لمبی چوڑی بات کرنے کے بجائے مختصراً کچھ اعداد و شمار پیش ہیں:

کریانہ اسٹور:
آٹا: 29 سے 40 روپے کلو
دال ماش: 160 روپے کلو
دال ارہر: 140 روپے کلو
دال چنا: 65 روپے کلو
موٹا چاول: 36 روپے کلو
ٹوٹا چاول: 42 روپے کلو
درمیانا چاول: 50 روپے کلو
چینی: 70 روپے کلو
گھی: 135 روپے کلو
تیل: 140 روپے کلو
بیسن: 68 روپے کلو

مِلک شاپ:
دودھ: 54 روپے کلو
دہی: 76 روپے کلو
انڈے: 68 روپے درجن

سبزیاں:
آلو: 30 روپے کلو
پیاز: 30 روپے کلو
ٹماٹر: 70/ 80 روپے کلو
اروی: 40 روپے کلو
بھنڈی: 50 روپے کلو
بند گوبھی: 60 روپے کلو

گوشت: 300 روپے کلو

اگر ایک متناسب گھر کی ضروریات بھی دیکھی جائیں تو ہفتے بھر کا خرچا ڈھائی ہزار روپے سے اوپر پہنچ جاتا ہے۔ یعنی مہینے بھر (چار ہفتوں کا خرچا) کم سے کم بھی دس ہزار تو کہیں نہیں گیا۔ اب آپ خود سوچیں کہ جس گھر کی آمدنی آٹھ سے دس ہزار روپے ہو، اس کی کُل آمدنی سے زیادہ خرچا تو اس کے کھانے پینے میں اُٹھ رہا ہے۔ بجلی، گیس، فون، بچوں کی تعلیم، علاج معالجے، آنے جانے کا خرچا الگ۔ پھر جس کا مکان کراے کا ہو، وہ کس حال میں ہوگا؟ خود میرے دفتر میں ایک صاحب کام کرتے ہیں جن کی تنخواہ سات ہزار روپے ہے۔ ان کے چار چھوٹے بچے ہیں، گھر کراے کا ہے۔

تو صاحبو! اب کیا کہیں!

Comments

  1. بے شک آپ نے درست طرف اشارہ کیا ہے اہم وجوہات میں سے یہ سب سے اہم ہے
    کیونکہ مدد کرنے والے ہمیشہ غریب ہی رہے ہیں اور غریب ہی مدد کرتے رہے ہیں اب بھی وہی کریں گے لیکن اس صورت حال میں کیا ہوسکتا ہے

    ReplyDelete
  2. آپ نے درست فرمایا۔ ہماری حکومت اپنی کارکردگی اور بدنامی سے لوگوں کا اعتماد کھوچکی ہے اور عوام کو مہنگائی نے اتنا پیس دیا ہے کہ سب یا شیخ اپنی اپنی دیکھ پر عمل پیرا ہیں۔ سیلاب زدگان کی مدد کرنے نکلیں تو ایسے بھی کئی سفید پوش مل جاتے ہیں جو انسانوں کی ہی تخلیق کردہ آفات کا شکار ہیں۔ ایسے میں واقعی زبان گنگ ہی تو ہوجاتی ہے :(

    ReplyDelete
  3. جو مدد کرنا چاہتے ہیں وہ کر نہیں سکتے۔۔۔۔ جنہیں کرنی چاہیئے، ان کے پاس جگرا نہیں ہے۔۔۔۔۔
    :sad:

    ReplyDelete
  4. ان حالات میں صرف دعاءوں سے ہی کام چلایا جاسکتا ہے، کیوں کہ ہم سب کسی ناخدا کی تلاش میں ہیں، کیا وہ ناخدا ہم خود نہیں بن سکتے؟
    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہیں ہے فکر جس کو اپنی حالت کے بدلنے کی

    ReplyDelete
  5. بھائی مہنگائی نے پاکستانیوں کی کمرتوڑ کر رکھ دی ہے۔ بتائے ان حالات میں کون کسی کی مدد کرسکتا ہے ؟؟ :witsend:

    ReplyDelete
  6. سیلاب کی تباہ کاریاں بہت مگر یہ اسطرح دنیا کی توجہ حاصل نہ کرسکا جیسا کہ زلزلے یا سونامی نے حاصل کی تھی۔ ایک وجہ تو یہ ہے دوسری وجہ یہ ہے پاکستانی عوام چاہے ووٹ مذھبی جماعتوں کو نہ دیں مگراپنی زکواۃ اور عطیات ان ہی جماعتوں کے ویلفر اداروں کو دیتے تھے لیکن اب انھیں یہ خطرہ لاحق ہے کہ ان کا پیسہ کہیں دیشت گردوں کے پاس نہ چلا جائے جن کی پردہ داری یہ مذہبی جماعتیں کرتی ہیں ۔اور کسی نہ کسی طرح ان کی مدد کرتی نظر آتی ہیں۔ دیکھئے اس خود کش بمبار کا انٹرویو جو اس بات کا برملا اظہار کرتا ہے کہ ان کو پاکستان کے اندر سے مدد ہوتی ہے ۔
    ہوتی ہے۔
    http://www.kalam.tv/ur/video/23417/index.html
    Interview with a suicide bombe

    ReplyDelete
  7. عمار میں سمجھتا ہوں کہ اب ہمیں حکومت کو اور غیر ملکی امداد کو ایک طرف خود ہی آگے بڑھنا ہوگا.

    عمار ہم انشاء اللہ جامعہ کراچی سے ایک ٹیم لے کر اگلے ہفتہ سکھر سے آگے جارہے ہیں، اس سلسلے میں نے اور میرے شعبہ ابلاغ عامہ کے تین دیگر ساتھیوں نے مل کر شعبہ سے کچھ امداد جمع کی ہے اور ہم شہر کی کچھ مخیر حضرارت سے بھی رابطے میں ہیں، ساتھ ہی ہم نے شہر کی کچھ مساجد میں بھی جھولیاں پھلائیں ہیں.
    کیونکہ جامعہ کی شام کی کلاسیں رمضان المبارک میں بند ہوتی ہیں اس لئے ہمیں جامعہ کراچی سے وہ رسپانس نہیں مل رہا جس کی توقع تھی، آپ بھی کیونکہ جامعہ کراچی سے تعلق رکھتے ہیں، اس لئے آپ سے عرض ہے کہ ہے آپ اس سلسلے میں ہماری کیا مدد کرسکتے ہیں.
    مشکل کہ اس وقت میں ہمیں ساتھ مل کر کام کرنا پڑے گا.

    ReplyDelete
  8. نغمہ یہ آپ کی سوچ ہے بس....
    بی بی اور بھی دکھ ہے دنیا میں مذہبی انہتا پسندوں کے سوا

    ReplyDelete
  9. لوگ تو خوب چندہ دے رہے ہیں۔اور جمع کرنے والے بھی کافی ہیں۔
    مستحقین تک پہونچ جائے اس کی دعا ہی کر سکتے ہیں۔

    ReplyDelete
  10. میرے جامعہ میں تعلقات و روابط بے حد محدود ہیں۔ تاہم میں اپنے دوستوں سے ذکر کردوں گا۔ ماہِ رمضان میں، خود میرا تو جامعہ جانا نہیں ہورہا۔ اگر کوئی حوصلہ افزا ردِ عمل ملا تو آپ سے رابطہ کروں گا۔ آپ کے دورے کے نیک خواہشات۔ میرے ساتھ اگر یہ غمِ روزگار نہ ہوتا تو آپ کے ساتھ ضرور چلتا۔

    ReplyDelete

Post a Comment