قصہ نصاب کے تین حصوں، سمسٹر کے تین مہینوں اور آخر کے تین دنوں کا

پورا سمسٹر نصاب کے ایک حصے پر زور صرف کرنے کے بعد جب استانی صاحبہ کو علم ہوا کہ امتحانات سر پر آپہنچے ہیں اور ان کے پاس لیکچر (دوسرے الفاظ میں املا کرانے) کے لیے کچھ ہی دن باقی رہے ہیں تو انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ اب جلد ہی نصاب مکمل کروادیں گی۔ یوں جہاں تین مہینے میں نصاب کے تین حصوں میں سے صرف ایک حصہ پڑھایا گیا تھا، وہاں اگلے تین دنوں میں باقی کے دو حصے پڑھانے کی کوشش کا آغاز ہوا۔

ویسے تو موصوفہ نے کبھی وقت پر آنے کی زحمت گوارا ہی نہ کی۔ ان کی کلاس کا وقت جب کہ صبح 9 بج کر 25 منٹ پر شروع ہوتا لیکن مجال ہے جو وہ پونے دس سے پہلے کبھی تشریف لائی ہوں۔ بفرضِ محال اگر کبھی وہ ذرا پہلے ڈپارٹمنٹ پہنچ بھی جاتیں، تب بھی اپنے دفتر میں اتنا وقت لگانا لازمی تصور کرتیں کہ پونے دس ہوجائیں۔ البتہ کلاس کا وقت ختم ہونے کے بعد تب تک پڑھانا ختم نہ کرتیں جب تک اگلے استاد کو کلاس سے باہر پانچ منٹ انتظار میں کھڑا نہ رکھیں۔ اگلا استاد چونکہ جونیئر ہے اس لیے یقین قوی ہے کہ وہ اُن کی شکایت نہیں کرے گا۔ بہرحال، اب جو طے پایا کہ اگلے تین دنوں میں نصاب کے دو حصے مکمل کیے جائیں تو انہوں نے (شاید مروت میں) طلبہ سے پوچھ لیا کہ کیا صبح اُن کی کلاس سے پہلے کسی کی کلاس ہوتی ہے؟ جواب انکار میں تھا۔ لہٰذا انہوں نے طلبہ کو تلقین کی کہ سب صبح نو بجے پہنچ جائیں، وہ بھی جلدی آنے کی ’’کوشش‘‘ کریں گی۔ :P

پیر، منگل، بدھ۔۔۔ یہ تین دن اُن کے پاس باقی تھے۔ پیر کے دن تقریباً تمام طلبہ صبح نو بجے کمرۂ جماعت میں موجود لیکن محترمہ کا نام و نشان نہیں۔ تشریف لائیں تو وہی پونے دس بجے کے بھی بعد۔ :devil: حاضری لی۔۔۔ پڑھانا شروع کیا تو ارشاد ہوا، چونکہ وقت کم ہے اس لیے جلدی جلدی ’’بولتی‘‘ جاؤں گی، آپ لوگ اپنے الفاظ میں نوٹ کرتے رہیں۔ ہمیں کیا مجال جو انکار کریں۔ حکم کی تعمیل میں سرِ تسلیم خم کیا۔ انہوں نے جو سمجھایا، وہ ہماری سمجھ میں آنا تو دور، یقینِ کامل ہے کہ خود اُن کی سمجھ میں بھی نہ آیا ہوگا۔ :) مختلف کتابوں سے دیکھ کر ’’ریڈنگ‘‘ کرتی رہیں اور طلبہ اپنی استطاعت اور بساط کے مطابق ان میں سے کچھ نکات اخذ کرکے لکھتے رہے۔ یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا یہاں تک کہ اگلی کلاس کا وقت ہوگیا اور وقت کا پابند ’’جونیئر استاد‘‘ کلاس کے باہر آکھڑا ہوا۔ یہ دیکھ لینے کے باوجود وقت کی ’’کمی‘‘ کا خیال کرتے ہوئے استانی صاحبہ نے تدریسی عمل جاری رکھا اور پانچ منٹ بعد گویا بادل نخواستہ وہ کتب بند کیں جن سے ’’ریڈنگ‘‘ کرکے ہمیں ’’لیکچر‘‘ دیا جارہا تھا۔ پھر سوال ہوا، آپ لوگوں کی سمجھ میں آگیا نا سب کچھ؟ خاموشی چھائی رہی۔ پھر تکیہ کلام کا گولا فائر ہوا: ’’Clear?‘‘ خاموشی چھائی رہی۔ اقرار میں سر ہلانے کا جی نہیں چاہتا۔ انکار میں سر ہلے تو اس کے بعد جو ہوتا ہے اس سے بہتر ہے کہ سر قلم کروالیا جائے۔ :P کبھی جو کسی نے کہہ دیا کہ فلاں بات سمجھ نہیں آئی تو حکم ہوگا، کھڑے ہوجائیں پہلے آپ۔ بندہ جھجکتے ہوئے کھڑا ہو تو سوال ہوتا ہے، جی اب بتائیے، کیا سمجھ نہیں آیا آپ کو؟؟؟؟؟ :D اس سوال پر میرا جی کرتا ہے کہ میں قہقہہ ماردوں۔ خیر۔۔۔ ان کے ’’کلیئر‘‘ کو عموماً میں ہی جیسے تیسے سر ہلاکر ’’کلیئر‘‘ کرتا ہوں کہ سب سے آگے اور ان کے سب سے قریب بیٹھا ہوتا ہوں (فیوض و برکات کے حصول کے لیے)۔ :) اس کے بعد سوال ہوا، آپ لوگ آج کب آئے تھے؟ اس سوال پر مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میری ’’بیستی‘‘ ہوئی ہو حالانکہ میں اس شعبے کا چیئرمین ہرگز نہیں۔ سب طلبہ نے کہا، نو بجے آگئے تھے۔ شاید موصوفہ کو یقین نہیں آیا یا پھر انہوں نے اپنی شرمندگی چھپانا چاہی، کہنے لگیں:
’’سب نو بجے آگئے تھے؟ سب؟؟؟‘‘
’’جی میڈم!‘‘ کئی آوازیں ابھریں۔
’’اچھا۔۔۔‘‘ (تھوڑی دیر کے لیے خاموشی اختیار کی)۔ چلیں، آج تو مجھے ’’تھوڑی‘‘ دیر ہوگئی تھی، کل آپ لوگ نو بجے آجائیے گا تاکہ ہم یہ کورس مکمل کرلیں، دن کم بچے ہیں نا۔۔۔ انہوں نے ہماری معلومات میں اضافہ کیا اور چل دیں۔

نادان بچوں کا کیا جائے، اگلے دن پھر نو بجے موجود۔ محترمہ وہی پونے دس بجے تشریف لائیں۔ پچھلے دن کی طرح ’’تیز رفتاری‘‘ سے پڑھایا بلکہ بھگایا اور اگلے استاد کے آنے تک یہ مشقت جاری رکھی۔ حسبِ عادت اسے پانچ منٹ انتظار کروانے کے بعد جب ’’ریڈنگ‘‘ کرنا بند کی تو سوال ہوا، آج آپ لوگ کتنے بجے آگئے تھے؟ گذشتہ روز کی طرح وہی جواب اور ویسا ہی ردِ عمل۔
سب نو بجے آگئے تھے؟ اچھا، کتنے لوگ نو بجے آئے تھے، ہاتھ کھڑا کریں۔ (شکر ہے صرف ہاتھ کھڑا کروانے پر اکتفا کروایا)۔ :P
اچھا۔۔۔ سب آگئے تھے۔۔۔ ہمم۔۔۔ چلیں آج مجھے ’’ذرا سی‘‘ دیر ہوگئی تھی۔ کل آپ لوگ نو بجے آجائیے گا، میں بھی آجاؤں گی کیوں کہ کل ہمیں یہ ختم کرنا ہے نا۔۔۔!!

جو حکم۔۔۔ اگلے دن طلبہ نو بجے موجود۔ غضب کیا تِرے وعدے پہ اعتبار کیا۔ میں نوابوں کی طرح ساڑھے نو بجے پہنچا تو پتا چلا کہ اب تک نہیں آئی ہیں۔ ساڑھے نو بجے کے بعد تو وہ ڈپارٹمنٹ تشریف لائیں، اپنے دفتر میں ’’تیار‘‘ ہوئیں اور پھر اپنے ’’لیکچر‘‘ سے فیض یاب کرنے کے لیے موجود۔ اس دن تو گاڑی اتنی رفتار سے بھاگی کہ میں مشکل سے کچھ ہی جملے مکمل نوٹ کرسکا۔ اخیر میں یہ ہوا کہ چونکہ ہمارا نصاب مکمل نہیں ہوسکا ہے، اس لیے ہم ایک ’’ایکسٹرا کلاس‘‘ رکھیں گے۔

اس قصے کو اصولی طور پر یہاں ختم ہوجانا چاہیے کہ سمسٹر کے تین مہینوں کے بعد آخر کے تین دن کا ذکر بھی مکمل ہوچکا لیکن حسنِ اتفاق یا شومئی قسمت کہ نصاب کے تین حصے تو ابھی مکمل نہیں ہوئے نا :D تو ایکسٹرا کلاس کا صرف ایک واقعہ۔

Laws of Reading پڑھاتے ہوئے ذکر آیا Law of Association کا کہ کسی چیز سے مشروط کرکے سکھایا جائے۔ میری ناقص سمجھ کے مطابق اس سے مراد یہ ہوگی کہ جب ہم طلبہ کو تعلیم دے رہے ہیں تو اس کو پڑھائی کی طرف راغب کرنے کے لیے پڑھائی کے ساتھ کسی ایسی چیز کو مشروط کردیا جائے جو اسے پڑھائی کی طرف رغبت دلائے۔ لیکن محترمہ نے جو ’’اعلیٰ‘‘ مثال دی وہ اس قانون سے مطابقت بھلے نہ رکھے، عملی زندگی میں اس کا بے حد تجربہ رہا۔ کہنے لگیں، Law of Association سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز سے مشروط کردیا جائے۔ مثلاً میں آپ سے کہوں کہ آپ لوگ صبح نو بجے آجائیں :haha: تو آپ لوگ کتنے بجے آئیں گے؟ آپ لوگ نو بجے آجائیں گے نا کیوں کہ آپ کو پتا ہے کہ ٹیچر نے نو بجے بلایا ہے تو وہ بھی نو بجے آجائے گا۔ تو ٹیچر کے آنے سے آپ کا آنا مشروط ہوگیا :D اب اگر ٹیچر نو بجے نہ آتا ہو تو آپ وقت پر آئیں گے؟ نہیں نا۔۔۔ تو اسے Law of Association کہتے ہیں۔ :P

Comments

  1. tauba tauba tauba shukar hy k mainy last class nahi li thi warna in ka sahi scene kart main aur agr ghalti se bhi inhon ne short of attendence k to phir ye ghar se duain kar k ain to acha hy

    ReplyDelete
  2. inhy dheel di hi students ne hy q k kbhi kisi ne shikayat ki hi nahi lakin ab bas buhat hoa ab inhy sudharna hoga hum baqi any waly students ko musibat main nahi dal sakty

    ReplyDelete
  3. بھئی ایکسٹرا کلاس والا وااقعہ بہت خوب ہے :-)

    ویسے روزانہ ایک وعدہ کرنا اور روز ہی اسے پورا نہ کرنا...خاصی بے حسی درکار ہوتی ہے ایسے تسلسل کے لیے. :hunh:

    ReplyDelete
  4. :haha: bht he ala andaz mei ammar ne hum sab ki halat ko mofasil bayan kia hai magr ammar tum WATCH ka qissa bhool gaye ho shayad

    ReplyDelete
  5. گويا جديد اعلٰی تعليم اسے کہتے ہيں
    :(
    تبھی امتحان ہوتا ہے تو آؤٹ آف کورس کا شور مچتا ہے

    ReplyDelete
  6. قصے تو بہت سے ہیں لیکن ایک ہی دفعہ میں سب لپیٹ دینا ٹھیک نہیں۔ ابھی اگلا سمسٹر بھی باقی ہے۔ :)

    ReplyDelete
  7. واقعی۔۔۔ اور یہی امر تو سب سے زیادہ حیران کن ہے۔

    ReplyDelete
  8. عمار میاں کیا دلچسپ انداز پایا ہے آپ نے. بی ٹیک کے دنوں میں ہماری بھی ایک استانی تھیں جو کم و بیش ایسے ہی خواص کی حامل تھیں. پر ہم نے شکایت کر دی تھی. ویسے کیا خیال ہے آپ کی اس بلاگ پوسٹ کا ربط آپ کے ڈیپارٹمینٹ ہیڈ کو نہ بھیج دیا جائے؟

    ReplyDelete
  9. کیوں مرواؤ گے بیچارے کو :D
    ویسے ہرج بھی نہیں ;P

    ReplyDelete
  10. خوب ہوئی آپ کے ساتھ :(

    ReplyDelete
  11. جب بچوں کو کورس ہی کا نہ پتا چلے تو سبھی کچھ آؤٹ آف کورس ہوتا ہے :)

    ReplyDelete
  12. بہت شکریہ۔ اور شعبے تک اس تحریر کا ربط اگر اس لیے پہنچایا جائے کہ ان محترمہ کے حوالے سے کوئی کاروائی ہو تو اس کا تصور کرنا ہی بے کار۔ ہاں اگر مقصود میرے خلاف کاروائی کرنا ہو تو یہ کام ضرور کیا جاسکتا ہے۔ :P

    ReplyDelete
  13. ہر شعبے پر بھوتوں کا قبضہ ہے سات بار آيت الکرسی بھی ان پر اثر نہيں کرتی
    .-= پھپھے کٹنی کے بلاگ سے آخری تحریر۔۔۔ حسن انتخاب _ 1 =-.

    ReplyDelete
  14. عمار ایک عدد سسرال کا حامل بچہ ہے...... ڈفر پائی جان، سوچو میں تے تسی کس کھاتے اچ آں
    :D

    ReplyDelete

Post a Comment