Donation of Platelets

مجھے ایک دوست نے کہا کہ اس کے ماموں کو کینسر ہے اور ان میں Platelets کی کمی ہے جس کی وجہ سے انہیں خون کی ضرورت ہے۔ لہٰذا اگر کوئی جاننے والا ہو جو خون عطیہ کرسکے تو ضرور انتظام کروادو۔ میں نے کہا، اچھا۔ اصولاً تو مجھے پہلے اپنے خون کی پیش کش کرنی چاہیے تھی لیکن یہی وہ مرحلہ ہے جہاں آکر میں خاموش ہوجاتا ہوں۔ جس انسان میں خود خون کی کمی ہو، وہ دوسروں کو کیا عطیہ کرے۔ :P دوست احباب تو دور، ڈاکٹرز تک دیکھ کر حیران ہوتے ہیں کہ یار دیکھنے میں اچھے خاصے ہو، اس کے باوجود بھی۔۔۔

خیر، میں نے پہلے تو یہ جاننے کی کوشش کی کہ Platelets ہوتی کیا بلا ہے۔۔۔ مختلف جگہوں سے یہ سمجھ میں آیا کہ خون میں شامل ایسے خلیے ہوتے ہیں جن میں نیوکلیس نہیں ہوتا تاہم D.N.A پایا جاتا ہے۔ اب اس کی ضرورت کیا ہوتی ہے، اس کو ایک طرف رکھ کر یہ تلاش کیا کہ ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل کرنے کا عمل کیسے ہوتا ہے؟

یہاں سے پڑھنے میں یہ آیا کہ اگر آپ Platelets کا عطیہ دینا چاہتے ہیں تو کسی قریبی اچھے ہسپتال یا ریڈ کراس کے عملے سے رابطہ کریں، وقت طے کریں، مقررہ وقت پر پہنچ جائیں۔ وہاں آپ کو آرام دہ کرسی پر بٹھادیا جائے گا جہاں آپ ٹی وی دیکھ سکتے ہیں، موسیقی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں یا سو بھی سکتے ہیں۔ دونوں ہاتھوں میں needle لگائی جائے گی۔ ایک ہاتھ سے خون نکل کر مشین میں جائے گا جہاں Platelets الگ ہوجائیں گی اور بقیہ خون آپ کے دوسرے ہاتھ کی needle کے ذریعے واپس آپ کے جسم میں داخل ہوجائے گا۔ اس تمام عمل میں ڈیڑھ سے دو گھنٹے لگیں گے۔ 48 گھنٹے میں یہ Platelets آپ کے جسم میں دوبارہ بن جائیں گی۔ اگر آپ باقاعدگی سے عطیہ کرنا چاہتے ہیں تو دو ہفتے میں ایک بار کرسکتے ہیں۔

یہ طریقہ جان کر میں نے سوچا کہ ایسا ہے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ خون تو مجھ میں واپس آ ہی جائے گا نا۔ :P لیکن جب بعد میں، میں نے یہاں رائج طریقہ کار معلوم کیا تو وہی مسئلہ آن کھڑا ہوا۔ یہاں شاید ایسی مشینیں نہیں۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ ڈاکٹرز پہلے سے عطیہ شدہ خون میں سے Platelets علیحدہ کرکے مریض کے جسم میں داخل کردیتے ہیں اور جتنی بوتل خون استعمال میں آتی ہے، بدلے میں خون کی اتنی ہی بوتلیں طلب کی جاتی ہیں۔ :sad: یعنی ایہہ ساڈے وس دا روگ نئی اے۔

Comments

  1. میرا بلڈ گروپ او پازیٹو پے . اگر ضرورت پڑے تو حاضر ہوں

    ReplyDelete
  2. خون دینے کی بات تو الگ رہی آپ نے معلومات میں بھی اضافہ کردیا
    میرا بھی گروپ او پازیٹو ہے اگر ضرورت ہو تو منگوا لیجئے گا مگر ہم بھی آپ ہی کی طرح کے "حلیے "کے ہیں اس لیے زرا بچ بچا کے
    میں نے زندگی میں دو دفعہ خون دیا ہے ایک اپنی بیگم کو اور دوسری بار بھی بیگم کو ہی

    ReplyDelete
  3. بھای صاحب - آپ کی بیاں کردہ صورتحال ہمارے ایک عزیر کو ہوی تھی جب ہی ایک ٹوٹکہ پتا چلا تھا جس کو استعمال کر کے دیکھہ تو آغاخان ہسپتال کے ڈاکٹر بھی حیران رہے گیے- وہ ٹوٹکہ یہ ہے کے پپتے کے کچھ پتے لے کر دھو لیں اور ان کو نچوڑ کر اں کا رس مریض کو پلا دیں ایک چمچہ بہیت ہے دو سے تین دن استعمال کریں پھر دیکھیں انشااللہ شفا ہو گی-

    ReplyDelete
  4. سارے پاکستانی جوانوں کو کيا ہو گيا ہے کون نچوڑ رہا ہے ہمارا خون ، ميں خود آج ہی انيميا کی مريضہ ڈکلئير ہوئی ہوں مگر مجھے خون کی ضرورت پڑی تو کوئی دينے والا نہيں ہو گا ميرے وہ تو شازل کی طرح نہيںثہيں انہوں نے تو خون دينے کے نام پر ہی خود بے ہوش ہو جانا ہے
    .-= پھپھے کٹنی کے بلاگ سے آخری تحریر۔۔۔ کلاس سسٹم بالعکس متناسب ہے لمبی ناک کے =-.

    ReplyDelete
  5. میں نے بھی زندگی میں دو دفعہ خون دیا ہے ایک دفعہ تو میں نو جوان تھا :P مطلب 18 یا 19 سال کا تھا تو خون دے کر ہولی فیملی سے چاندنی چوک تک پیدل آیا تھا مجھے کوئی فرق نہیں پڑا تھا لیکن دوسری دفعہ جب خون دیا تو میں کچھ خودبھی بیمار تھا لیکن خون ایسے بندے بلکے بندی کو دینا تھا جو بہت ضروری تھا میرے ایک دوست کا ملازم تھا اس کے ہاں 10 سال بعد اولاد ہونے والی تھی اور کوئی آپریشن کا چکر وکر تھا دوست نے مجھے کال کی اور کہاں خون کی ضرورت ہے عمار بھائی کی طرح اس نے خود دینے کی بجائے مجھے فون کیا اور میں وہاں پہنچ گیا بس پھر کیا تھا خون دیا اور پھر خود بے ہوش ہو گیا :D اس کے بعد آج تک خون دینے کی نوبت نہیں آئی ورنہ خون دینے کو تو آج بھی تیار ہوں

    ReplyDelete
  6. بھائی اس بلڈ ٹرانسفر کے چکر میں بہترین معلومات دیں اس کے لیے شکریہ.
    اور اگر بلڈ کی ضرورت ہے تو میں بھی تیار ہوں بی پوزیٹیو

    ReplyDelete
  7. آپ سب ساتھیوں کے خلوص کا بے حد شکریہ۔ دوست کے ماموں کی طبیعت اب الحمدللہ کافی بہتر ہے اور وہ ہسپتال سے گھر منتقل ہوگئے ہیں۔
    جزاک اللہ!

    ReplyDelete

Post a Comment