'Ghalib Kaun Hai?'

كل مرزا اسد اللہ خاں غالب كی 144ویں برسی تھی۔ میں نے سوچا تھا كہ كچھ لكھوں۔ لیكن كیا؟ اسی خیال میں سارا دن گزر گیا اور كچھ نہ لكھ سكا۔ مرزا غالب سے كون ناواقف ہوگا؟ میرا تعارف بھی كوئی نیا نہیں۔ بچپن سے ان كی شاعری پڑھتا آیا ہوں۔ نصاب میں بھی ان كی شاعری اور ان كا تذكرہ شامل رہا۔ بہ حیثیت شاعر مجھے مرزا غالب پسند بھی رہے لیكن ان كی شاعری كا بڑا حصہ میری سمجھ سے بالا بالا گزر جاتا۔

گذشتہ دنوں میں نے گلزار كی فلم ’’مرزا غالب‘‘ دیكھی جس میں مرزا غالب كا كردار نصیرالدین شاہ نے نبھایا۔ فلم كافی پرانی اور سفید و سیاہ رنگت كی ہے لیكن اتفاق ایسا كہ میں نے پہلی بار كچھ عرصہ پہلے ہی دیكھی۔ اور اس كو دیكھ كر كچھ ایسا سحر چھایا ہے كہ مجھے اس كے بیان كو الفاظ نہیں ملتے۔ مرزا غالب كی حیات، ان كی مشكلات، ان كے طور طریقے، ان کا رہن سہن، میں نے اس فلم سے صرف یہی نہیں جانا بل کہ یہ فلم دیکھنے کے بعد مجھے لگتا ہے کہ مجھے ان کی شاعری سمجھنے میں دقت کم ہوگئی ہے۔ كس شعر، كس غزل كو كس مناسبت سے اور كس موقع پر مرزا غالب نے كہا، اگرچہ وہ سب ایك فلمی انداز سے پیش كیا گیا ہے لیكن حالات و واقعات كو سمجھنے میں بے حد مدد دیتا ہے۔

غالب كے فنِ نظم و نثر پر بہت كچھ لكھا گیا، لكھا جارہا ہے اور اردو زبان جب تك رہے گی، لكھا جاتا رہے گا۔ اس پر میرا كچھ لكھنا میرے نزدیك غیر ضروری ہے۔ لیكن فلم دیكھنے كے بعد، میں یہ سوچتا ہوں كہ جس شخص كے ہاں سات لڑكوں كی ولادت ہوئی ہو اور ان میں سے ایك بھی نہ جیا ہو، اس كی كیا حالت ہوگی۔۔۔ جب اس شخص پر بڑھاپا طاری ہو اور اس كو سنبھالنے والا كوئی نہ ہو تو اس كی بے بسی كا عالم كیا ہوگا۔۔۔ جس شخص كو اس كا حق نہ ملا ہو، اس كو ملنے والی پنشن اور وظائف كا بہت معمولی حصہ بھی اسے بے حد تگ و دو كے بعد ملتا ہو، اس كی مایوسی كس درجے پر ہوگی۔۔۔ جب ہم یہ سب واقعات رونما ہوتے دیكھتے ہیں اور پھر غالب گنگناتا ہے كہ
بس كہ دشوار ہے ہر كام كا آساں ہونا
آدمی كو بھی میسر نہیں انساں ہونا


تو سمجھ آتا ہے كہ یہ شعر كس كیفیت میں لكھا گیا ہوگا۔ یا جب غالب کو دہلی میں قدم جمانے نہیں دیے جاتے اور دربارِ مغلیہ میں اس کا مذاق اُڑایا جاتا ہے اور پھر وہ گنگناتا ہے کہ
بازیچۂِ اطفال ہے دنیا مِرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مِرے آگے
ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مِرے ہوتے
گِھستا ہے جبیں خاك پہ دریا مِرے آگے
مت پوچھ كہ كیا حال ہے میرا تِرے پیچھے
تُو دیكھ كہ كیا رنگ ہے میرا تِرے آگے

یا امید و محبت میں ڈوبی ہوئی، آس اور طنز سے بھرپور غزل:
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے


فلم كے گیتوں میں صرف مرزا غالب كی شاعری ہی نہیں، بلكہ میر تقی میر، استاد ذوق اور بہادر شاہ ظفر كی غزلیں بھی شامل ہیں اور جگجیت سنگھ نے بے حد كمال كی موسیقی اور دھنوں كی ترتیب دے كر ان غزلوں كا سمجھنا بہت آسان كردیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں كہ میٹرك اور انٹرمیڈیٹ كے وہ طلبہ جو اردو كلاسك شاعری سے بے زار اور كوسوں دور بھاگتے ہیں، جہاں ہزار فلمیں دیكھتے ہیں وہیں ایك یہ مووی بھی دیكھ لیں۔ امید ہے كہ امتحان كی تیاری میں بھی بے حد مفید اور كارآمد ثابت ہوگی اور اشعار كا رٹا مارنے سے چھٹكارا مل جائے گا۔

Comments

  1. بہت عمدہ ضیاء بھائی!
    میں کل سے سوچ رہا تھا کہ کسی اردو بلاگ پر غالب کے بارے میں تحریر نظر نہیں آرہی ۔شکر ہے کسی کو تو اس بارے میں خیال آیا۔

    ReplyDelete
  2. ماشا اللہ عمارابنِ ضیاء صاحب
    اچھی تحریر ہے ، اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔

    ReplyDelete
  3. لوح جہاں پہ حرف مکرر نہیں ہوں میں
    چچا نے درست ہی کہا تھا۔
    .-= خرم کے بلاگ سے آخری تحریر۔۔۔ ہمارا مستقبل؟؟ =-.

    ReplyDelete

Post a Comment