جامعہ نامہ۔ قسط 15

ضیاء نویں و دسویں جماعت میں میرے ساتھ پڑھتا تھا۔ اس وقت میں اسٹڈی لینڈ گرامر اسکول، نارتھ کراچی میں زیرِ تعلیم تھا۔ ضیاء کی اور میری تاریخِ پیدائش میں فرق معمولی ہی تھا۔ وہ 28مئی اور میں 29مئی کا تھا (سالِ پیدائش شاید کچھ آگے پیچھے تھے)۔ ہم دونوں کا شمار ہی اپنی جماعت کے لائق طالبِ علموں میں ہوتا تھا لیکن درحقیقت وہ اس لحاظ سے بہتر تھا کہ اس کی تعلیمی بنیاد اور پس منظر مضبوط تھا۔ کلاس میری تحسیب اختر سے زیادہ دوستی ہوئی جس کی وجہ سے ضیاء سے کم ہی بنتی تھی۔ ویسے بھی جن دو سروں پر یکساں چارج ہو، وہ ایک دوسرے کو دور ہی دھکیلتے ہیں۔ :P

ضیاء کی ایک خالہ اُس اسکول کی پرنسپل تھیں جن کا نام فوزیہ تھا۔ انتہائی قابل اور پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ میڈم فوزیہ نے ہمیں نویں جماعت میں انگریزی پڑھائی اور اتنی اچھی پڑھائی کہ میں اب تک کی سیکھی ہوئی انگریزی میں پچاس فی صد حصہ ان کا مانتا ہوں۔ میں اُن سے بہت متاثر تھا۔

میٹرک کے بعد اسکول کے دوستوں سے رابطہ آہستہ آہستہ ختم ہوتا گیا۔ ضیاء سے شاید ہی ایک آدھ بار بات ہوئی ہو۔ پھر جب میں جامعہ کراچی آیا تو ایک دن ضیاء نظر آگیا۔ اس سے تھوڑی بہت بات ہوئی، وہ کمپیوٹر سائنس کے شعبے میں پڑھ رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ شعبۂ تعلیم میں اُس کی ایک خالہ رضیہ بھی پڑھاتی ہیں۔ یوں میرا میڈم رضیہ سے تعارف ہوا۔ جب میں نے اُن کو بتایا کہ میں میڈم فوزیہ سے پڑھا ہوں تو اُن کو بھی اچھا لگا۔ یوں میرے ذہن میں خاکہ بنا کہ میڈم فوزیہ کی طرح میڈم رضیہ بھی بہت اچھا پڑھاتی ہوں گی۔

میرا اس سال جنوری میں، جامعہ کا سال دوم شروع ہوا۔ شعبۂ تعلیم کے سال دوم کی تدریس میڈم رضیہ کے ذمے ہوتی ہے۔ اب اگر میں اُن کے طریقۂ تدریس پر لکھنے کا سوچتا ہوں تو یہ خیال آتا ہے کہ اگر کسی طرح اُن تک یہ بات پہنچ گئی تو بہت برا ہوگا۔ ابھی تو مجھے پورا سال اُن سے پڑھنا ہے، اسی لیے میں ان کا اصل نام نہیں لکھ رہا ہوں۔ :hmm:

میڈم جب پہلی کلاس لینے آئیں تو اس پہلے ہی لیکچر میں میری ساری توقعات پر پانی پڑگیا۔ وہ کیا پڑھا رہی تھیں، ان کو کیا پڑحانا تھا، طلبہ کیا سمجھ رہے ہیں، وہ کیا کہہ رہی ہیں، شاید اس کا انہیں بھی اندازہ نہیں تھا۔ کتاب اپنے سامنے ہونے کے باوجود وہ مشکل سے ہی چند جملے مکمل، باربط اور بامعنی ادا کرسکیں۔ ہر دو جملوں کے درمیان کئی لمحات کا وقفہ ہوتا، کئی ادھورے الفاظ ہوتے، یہاں تک کہ جملہ اپنا ربط اور معنی کھودیتا۔

وہ پہلا لیکچر میں نے جیسے تیسے گزارا۔ مجھے تب بھی امید تھی کہ اگلے دن شاید کچھ بہتر طور پر پڑھاسکیں۔ لیکن اگلے دن بھی کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی۔ وہ تعلیم اور فلسفہ کی بنیاد پڑھا رہی تھیں۔ انہیں اس سمسٹر میں ہمیں Philosophical Foundation of Education اور Psychological Foundation of Education پڑھانا ہے مگر ان سے فلسفہ ہی بیان نہ ہوسکا کہ فلسفہ کسے کہتے ہیں، کیا ہوتا ہے اور اس کا عملی اطلاق کس طرح کیا جاسکتا ہے۔

جامعہ کے طالبِ علم کوئی بچے نہیں ہوتے کہ آپ نے جس طرح چاہا، ان کو سمجھا دیا یا ٹال مٹول سے کام لے لیا۔ لڑکے، لڑکیوں نے جب یہ دیکھا کہ وہ ٹھیک سے پڑھا نہیں پارہی ہیں تو ایک دن سے سب نے مشترکہ ہلا بول دیا اور وہ سوالات کیے کہ میڈم ایک کا بھی تسلی بخش جواب نہ دے سکیں۔ کسی لفظ کے معنی پوچھو تو کہیں کہ کیا اب آپ ایک ایک لفظ کے معنی پوچھیں گے؟ ہر بات سمجھانے کے بعد یہ ضرور پوچھتی ہیں کہ کیا سب کی سمجھ میں آگیا؟ اور اگر کوئی کہے کہ نہیں آیا تو اسی سے سوال ہوتا ہے کہ آپ بتائیں، آپ کی سمجھ میں کیا نہیں آیا؟ پچاس منٹ کی کلاس میں بیس منٹ تو وہ یوں گزارتی ہیں کہ دیر سے آتی ہیں۔ پھر آنے کے بعد پانچ منٹ میں حاضری اور اگلے دس منٹ گذشتہ روز کے لیکچر میں سے سوال جواب۔۔۔ بلکہ لیکچر سے کہاں، جس کتاب سے انہوں نے لکھوایا ہوتا ہے، وہی سب کچھ باری باری تین، چار طلبہ سے سنتی ہیں۔ پھر سوچتے سوچتے آگے کی پڑھائی کی طرف قدم۔

مجھے افسوس تو اس بات کا ہے کہ وہ کوئی جونیئر ٹیچر بھی نہیں جن کو کوئی تجربہ نہ ہو یا ابھی تدریس کے ابتدائی مراحل سے گزر رہی ہوں۔ شعبے کو دوسری سینئر ٹیچر ہیں، مشیرِ امورِ طلبہ بھی ہیں۔ ابھی تو ان سے پڑھتے ہوئے صرف دو مہینے گزرے ہیں۔ ہمیں تو پورے دو سمسٹر گزارنے ہیں یعنی ایک سال۔ دیکھیے تب تک ہمارا کیا بنتا ہے۔

یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ کیا استاد کی شکایت کرکے یا یہ سارا معاملہ حکامِ بالا تک پہنچا کر ٹیچر تبدیل کروایا جاسکتا ہے؟ اس بارے میں گفتگو فی الحال موخر رکھ چھوڑتا ہوں۔ ارادہ ہے کہ چند باقی اساتذہ کا حال بھی لکھوں گا، اس کے بعد ان سے متعلقہ موضوعات پر۔

Comments

  1. جان دے یار، برداشت کرو
    کبھی کسی کا بھلا بھی کر دیا کرو
    آج تک کونسا تم آئن سٹائنوں سے پڑھتے آئے ہو :grins:

    ReplyDelete
  2. میں آج ہی سوچ رہا تھا کہ تمکو کہوں کہ بھائی کوئی پوسٹ لکھ دو۔
    باقی شائد ٹیچر کا اپنا کوئی ذاتی پرابلم چل رہا ہو۔

    ReplyDelete
  3. جامعہ میں اسطرح کے معاملات ہوتے رہتے ہیں۔۔ اس میں اگر طلباء اگر کوئی قدم نا اٹھائیں تو تو سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے۔ ہمارے کئی کورس کبھی پہلے سے انتہائی مصروف ٹیچرز کو یا پھر مضمون کے لیے غیر موزوں اساتذہ کو دے دیے گئے تھے اور ہمیں اچھی خاصی محنت کرکے یہ مسئلہ حل کروانا پڑا اس سلسلے میں اگر کلاس میں اتحاد ہو تو ڈین کو یا ایچ او ڈی کو بات سننی پڑتی ہے۔ یہ بھی نہایت اہم بات ہے کہ ہر قابل شخص اچھا استاد نہیں ہوتا بعض اوقات مضمون پر انتہائی مہارت رکھنے والے بھی اپنی بات پہنچا نہیں پاتے اور پورا کورس ضائع ہوجاتا ہے اور بعض اوقات جامعہ کے کچھ ٹیچرز پہلی کلاس کے بچوں کی طرح املا کرانے کھڑے ہوجاتے ہیں لیکن انکی لابی اتنی مضبوط ہے کہ آپ ان کے خلاف کہیں کوئی شکایت نہیں کرسکتے۔ گڈ لک۔ :wel:

    ReplyDelete
  4. ڈفر!
    بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کے۔ :razz:

    بدتمیز!
    جناب کو دوبارہ فعال ہوتا دیکھ کر اچھا لگ رہا ہے۔ :)

    راشد کامران!
    بالکل، اگر طلبہ ڈین آفس سے جاکر بات کریں تو استاد تبدیل کروایا جاسکتا ہے لیکن صرف اس صورت میں کہ وہ لازمی (Compulsory) مضمون کا استاد ہو اور کسی دوسرے شعبے سے پڑھانے آتا ہو۔ جیسے Everyday Science کے مضمون کے لیے جو ٹیچر ہمیں دی گئی تھیں، ان کی اپنے ہی شعبے میں کلاسز ایسی تھیں کہ اُن کے پاس ہمارے لیے وقت نہیں تھا۔ لہٰذا میں نے ڈین آفس سے استاد تبدیل کروایا۔ لیکن اگر استاد آپ کے شعبے ہی کا ہے اور آپ کے شعبے کے مضامین پڑھا رہا ہے تو اس صورت میں اسے تبدیل کرنا ناممکن تصور ہوتا ہے۔

    ReplyDelete

Post a Comment